ہمارے معاشرتی نظام کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاست
ایک پیشہ بن چکی ہے ۔ اس سے بھی بڑھ کر بدنصیبی یہ کہ سیاست کبھی خدمت رہی
ہی نہیں ۔ خدمت اور سیاست کو ہمیشہ الگ الگ ہی رکھا گیا ۔ جس کا نقصان یہ
ہوا کہ عوام اور عوامی نمائندے کبھی ایک دوسرے کے قریب نہ آ سکے ۔ دوسری
جانب سیاسی لیڈروں کو اپنا پروٹوکول بھی عزیز رہنے لگا ، جس نے دونوں
فریقین کی دوری میں کردار مزید بڑھا دیا ۔ عوام سے امیدوں ، وعدوں اور
دلاسوں کا کھیل کھیلتے کھیلتے ہماری سیاست 74 سال کی ہوگئی ۔ لیکن نہ تو
عوام کی حالت بدل سکی اور نہ ہی سیاست دانوں کے رویوں میں عوام کیلئے
ہمدردیاں پیدا ہو سکیں ۔ ہماری سیاسی تاریخ شاید اس وقت تک اس المئے سے
گزرتی رہے گی جب تک سیاسی قیادتیں اپنے آپ کو خود احتسابی کے عمل سے نہیں
گزاریں گی …… یا پھر جب تک عوام ان کے رویوں کے عوض انہیں مسترد کرکے آئینہ
دکھانا شروع نہیں کریں گے ۔
موجودہ دور کا المیہ یہی ہے کہ سیاست دان ہوں یا منتخب عوامی نمائندے ،
عموماً لوگوں کے کام کم ہی آیا کرتے ہیں۔ بہت کم سیاسی افراد بالخصوص منتخب
نمائندے ایسے ہوتے ہیں جو ذاتی طور پر لوگوں کے مسائل کے ازالے کی ''سر
درد'' لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی نمائندوں کے بارے میں معاشرے میں کچھ
زیادہ مثبت رائے موجود نہیں ۔ آپ کو جب کبھی کسی وزیر کے دفتر جانے کا
اتفاق ہوا ہو تو اول تو آپ کو اس کے دفتر سے باہر ہی ملاقاتیوں کا ہجوم
دیکھنے کو ملتا ہے جو متعلقہ منسٹر سے ملنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، مگر
انہیں بنا ریفرنس اندر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اگر ملاقات ہو بھی جائے
تو عموماً درخواستیں لے کر رکھ لی جاتی ہیں اور بالعموم ٹال کر ملاقاتی کو
رخصت کر دیا جاتا ہے ، جو کہ بعد ازاں چکر پر چکر لگاتا ہے مگر کام ندارد ۔
مذکورہ تناظر میں اگر کوئی ایسا سیاستدان نظر سے گزرتا ہے جو با اختیار
(صاحبِ وزارت) ہونے کے باوجود خود کو عوام کیلئے وقف کئے ہوئے ہو ، تو دل
میں طمانیت سی ہوتی ہے ۔ میں نے بہت کم سیاسی عوامی نمائندے ایسے دیکھے ہیں
جو صحیح معنوں میں لوگوں کے کام آتے ہیں اور سیاست کو خدمت سمجھ کر کر رہے
ہیں۔اس ضمن میں مجھے صوبائی وزیر سبطین خان نے بہت متاثر کیا۔ مجھے کچھ
انٹرویوز کیلئے چند مرتبہ ان کے پاس جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے انہیں ہر
دفعہ درخواست گزاروں کے مسائل حل کرنے اور اکثر اوقات موقع پر ہی ان کے
ازالے کی کوششوں میں مصروف پایا۔ میرے مشاہدے میں آیا کہ وہ میڈیا سے زیادہ
وقت لوگوں کے مسائل سننے میں گزارتے ہیں ۔ کسی کی نوکری کا مسئلہ ہے یا
داخلے کا، پولیس میں کام ہے یا ڈپٹی کمشنر سے ، ٹرانسفر کیس ہے یا کوئی اور
ایشو ، میں نے سبطین خان کو درخواست گزاروں کا درخواستگزار بنتے دیکھا ۔
میں نے انہیں ذاتی طور پر متعلقہ حکام سے برائے راست رابطہ کر کے مسائل حل
کرنے کی التماس کرتے دیکھا ۔ بلاشبہ ایسے عوامی نمائندے اپنے منصب کا صحیح
حق ادا کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سبطین خان کو ووٹر بھی ہر مرتبہ عزت دیتا
ہے ۔ وہ 4 مرتبہ رکن اسمبلی جبکہ 3 مرتبہ وزیر رہ چکے ہیں۔ لیکن اسمبلی میں
اس قدر سینئر ہونے کے باوجود میں نے جانا کہ سبطین خان زمینی سیاست کرتے
ہیں اور دیگر سیاسی نمائندوں کے برعکس زمین پر رہتے ہیں ۔ میں نے انہیں
ہمیشہ عوام کے درمیان اور لوگوں کے دکھ درد بانٹتے دیکھا …… لوگوں کی خوشی
، غمی میں حصہ دار بنے پایا ۔
بلاشبہ مصائب میں مبتلا قوم کو ایسے ہی عوامی نمائندوں کی ضرورت ہے۔ ایسے
نمائندے ہوں گے تو ہی عوام بھی خوشحال ہوگی ، وگرنہ ’’سیاست‘‘ تو سب ہی کر
رہے ہیں ۔ سیاستدانوں کو اس امر کو سمجھنا چاہئے اور اس عزت کی قدر کرنی
چاہئے جو عوام کی طرف سے انہیں ملتی ہے ۔ واضح رہنا چاہئے کہ رکن اسمبلی
بننے کا مطلب سسٹم کی بہتری میں اپنا حصہ ڈالنا ہے ، لیکن ہمارے بیشتر
سیاستدان یہ امر سمجھنے پر تیار نہیں ۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ سیاستدان
اور عوامی نمائندے عوام ہی کے طفیل ہیں ۔ لیکن جب عوام ہی قدردان نہیں رہے
گی تو کیسا سیاسی مستقبل ؟ ۔ سیاستدانوں کو چاہئے کہ اپنے رویوں پر نظرثانی
کریں اور خود کو صحیح معنوں میں عوام کیلئے وقف کریں ۔ اس ضمن میں کسی قسم
کے ریوارڈ کا لالچ ان کا مقام گھٹانے کا باعث ہی بنتا ہے ۔
|