بہار میں گجرات کا ہولنا ک منظر

عام تاثر یہ ہے کہ نتیش کمار کی سرکار میں بہار میں کایا پلٹ ہورہی ہے۔ اغوا کی انڈسٹری بند ہوگئی ہے۔دبنگوں کی سیاسی پناہ کا دروازہ بند ہوگیا ہے۔ جرائم پیشہ بھاگ رہے ہیں۔ عوام کے بھاگ جاگ رہے ہیں۔سڑکیں صاف ستھری بن گئی ہیں۔ صبح و شام بچیوں کے غول کے غول بے خوف و خطر سائکلوں پر اسکول آتے جاتے دکھائی دیتے ہیں۔روزگار بڑھے ہیں۔ وطن سے دور محنت مزدوری پرمجبور خاندان، جوق درجوق وطن لوٹ رہے ہیں۔ہم ان تبدیلیوں سے یوںخوش تھے کہ بہار کی دیکھا دیکھی ہماری ریاست یوپی میں بھی کچھ ترقیاتی کام ہونے لگے ہیں ہرچند کہ رشوت خوری اور شراب نوشی کا بول بالا ہے۔

ان رپورٹوں کے مطابق بہار میں ایک انہونی یہ ہورہی تھی کہ سرکار میں بھاجپا کی شمولیت کے باوجود اقلیتی فرقہ خود کو محفوظ تصور کررہا تھااوریہ بھی کہا جارہا تھا کہ نتیش کمار سرکار کے اسی رویہ کی بدولت گزشتہ اسمبلی الیکشن میں اقلیت نے بھی جے ڈی یو۔بھاجپا اتحاد کوووٹ دیا۔لیکن ان مسحور کن خبروں اور تبصروں کے سرور کو حالیہ چند خبروں نے کافور کردیا ہے۔جن میں سب سے ہولناک خبر ضلع پورنیا کے بلاک فوربیس گنج سے آئی ہے جہاں اقلیتی فرقہ کے چار افراد کو، جن میں ایک حاملہ خاتون، ایک 6 ماہ کا بچہ مشتاق اور ایک 18 سالہ نوجوان شامل ہے، پولیس نے گولی مارکر ہلاک کردیا۔اندھا دھند فائرنگ میں 19 افراد زخمی بھی ہوئے۔

تفصیلات کے مطابق یہ واقعہ 3 مئی کو اس وقت پیش آیا جب بھجن پور گاﺅں کے باشندوں نے ایک فیکٹری کے احاطہ کی تعمیر کےلئے گاﺅں جانے والی واحد سڑک کو بندکئے جانے پر مزاحمت کی۔ یہ سڑک بھجن پور کو رام پورسے جوڑتی ہے اوراسی راستہ سے لوگ شہر آتے جاتے ہیں۔ یہ فیکٹری بھاجپا کے ایک ایم ایل سی اشوک اگروال کابیٹا سبھاش تعمیر کرارہا ہے جس کےلئے زمین سرکار نے الاٹ کی ہے ۔سڑک بند کئے جانے پر مقامی باشندوں نے جب پہلے احتجاج کیا تو تعمیر روک دی گئی۔ مگر 29مئی کو نائب وزیر اعلا سشیل کمار مودی( بھاجپا لیڈر)خود فوربیس گنج آئے اور ضلع انتظامیہ پر مبینہ طور پر دباﺅ ڈالا کہ مزاحمت کو ختم کرایا جائے۔ چنانچہ ان کے دورے کے پانچویںدن تعمیر پھر شروع ہوگئی ۔ لوگ جمعہ کی نماز پڑھ کر نکلے تو دیکھا کہ پولیس بھی موجود ہے۔ چنانچہ اس خمار میں کہ نتیش کی سرکار ہے، پولیس زیادتی نہیں کریگی، ان کی سن لے گی اور گاﺅں کا راستہ بند نہیں ہوگا، چند لوگ خالی ہاتھ وہاں پہنچ گئے ۔کچھ بحث و تکرار ہوئی۔ اشوک اگروال نے اقتدار کے زعم میں دھمکی دی: ’ان کو پنجرے میں بند کردیں گے، جیل بنادیں گے ان کے گاﺅں کو۔‘ چنانچہ ایس پی گریما ملک کے حکم پر فائرنگ شروع ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے نتیش کمار کے سیکولر چہرہ غبار آلود ہو گیا اور ان کی پولیس کاہندوفرقہ ورانہ اور ظالمانہ چہرہ کھل کر سامنے آگیااور فوربیس گنج میں بھاجپا لیڈر اشوک اگروال اور سبھاش اگروال کی خوشنودی کےلئے گجرات دوہرایا جانے لگا۔

موصولہ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کی تعدادمحدود تھی۔ انہوں نے تعمیر کی مزاحمت تو ضرور کی تھی، مگر امن اور قانون کی کوئی ایسی صورت پیش نہیں آئی تھی ،جس میںپولیس کوفائرنگ کی ضرورت ہوتی۔ فیکٹری مالکان کی ، یا یوں کہئے کہ بھاجپا لیڈران کی خوشنودی حاصل کرنے کےلئے یا خود اپنے دل کی کدورت نکالنے کےلئے پولیس نے ’ارادتاً‘چار افراد کوگولی مارکر ہلاک کردیا۔ ارادتاً اس لئے کہا کہ گولیاں مقتولین کے جسم کے اوپری حصّوں میں ماری گئیں ۔ایک لڑکے کے سر میں گولی لگی۔ اس کے زمین پر گرجانے کے باوجود مزید گولی ماری گئی۔ اگر مقصود صرف ڈرانا، دھمکانا اور بھگاناہوتا تو گولی ہوا میںچلائی جاتی یا ٹانگوں میںماری جاتی۔

کئی دن تک اس سنگین واقعہ کی کوئی رپورٹ میڈیا میں نظر نہیں آئی۔ الیکٹرانک میڈیا خبروں میں اپنے روائتی عدم توازن، بے اعتدالی اور زعفران نوازی میں مبتلا رہا اور لگاتار چوبیسوں گھنٹے بس ایک ہی واقعہ ، رام دیو کی انشن نوٹنکی کو مشتہر کرتا رہا۔ واقعہ کے کئی دن بعدموبائل فون پر بنی ہوئی ایک چھوٹی سی کلپنگ ایک ویب سائٹ (ٹو سرکل نیٹ) پر جاری ہوئی، جس کو دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ ایک پولیس جوان ایک لڑکے کی لاش پرجمپ لگا رہا ہے اور دوسرا کہہ رہا ہے ’بس بس ہوگیا، سزا مل گئی۔‘ صرف 42سیکنڈ کی اس مختصر کلپنگ سے( جو یو ٹیوب پر بھی موجود ہے) اور خصوصاً اس مکالمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس وہاں امن و قانون کے مقصد سے نہیں بلکہ بھاجپا لیڈر کی فیکٹری تعمیر کرانے اور گاﺅں والوں کو’ مخالفت کی سزا‘ دینے کےلئے بھیجی گئی تھی۔

اس واقعہ کے بعد نتیش کمار سرکار کا رویہ بڑا ہی مایوس کن رہا ہے۔ صرف ایک پولیس والے کو(جو ہوم گارڈ کاپیادہ ہے) معطل کیا گیا ۔زبردست احتجاج کے بعد صرف سب ڈویزنل پولیس آفیسررام کرپال شرما کا تبادلہ کیا گیا۔باقی پولیس عملے کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔زخمیوں اورمرنے والوں میں صرف اس چھ ماہ کے بچے مشتاق کے ورثا کو 3لاکھ روپیہ معاوضہ دینے کا اعلان ہوا ہے جو اتفاقاً فائرنگ کی زد میں آگیاتھا۔مشتاق اپنی ماں رحینہ کی گود میں تھا جو اسپتال سے دوا لےکر لوٹ رہی تھی۔گولی رحینہ کے بازو میں سے نکل کر مشتاق کے لگی اور اس معصوم نے وہیںدم توڑ دیاجبکہ رحینہ زخمی حالت میں اسپتال میں سسک رہی ہے۔ ریاستی حکومت نے دیگر تین (اگر حاملہ کے پیٹ کے بچے کو بھی شامل کیا جائے تو چار) ہلا ک شدگان کے ورثا اور زخمیوں کو کسی ہمدردی کا مستحق نہیں گردانا۔ اس طرح دراصل وزیر اعلا نے یہ سندیش دیدیا ہے کہ بھاجپا لیڈر کی فیکٹری اہم ہے۔ غریب مسلمانوں کی جان غیر اہم ہے۔ فیکٹری کی تعمیر میں رکاوٹ منظور نہیں اسی لئے پولیس نے گولی مارکر ’آن دی اسپاٹ‘ ان کوجو ’سزا‘ دی ہے ،سرکارعملاً اس کی تائید کرتی ہے۔ انسانی حقوق کے ضوابط اور ملکی قوانین کو بالائے طاق رکھ کرکسی کو بھی ماورائے عدالت ’موت کی سزا ‘دینے کا یہ رجحان پولیس اورسیکیورٹی فورسز میں بڑھتا جارہا ہے۔ایسی وارداتوں میں اضافہ کا سبب یہ ہے کہ خود سیاستداں اپنے مقاصد کے حصول کےلئے ان کو روا گردانتے ہیں اور انتظامیہ کو بے دریغ حکم دیتے ہیں، ’ سالے کو ٹھوک دو‘۔یہ حقوق انسانی کی پامالی اور ’ریاستی دہشت گردی‘ کا معاملہ ہے جس پر اگر توجہ نہیں دی گئی تو عوام کا اضطراب نظام حکومت کےلئے ایک مصیبت بن جائے گا۔ مخالفوں کو زندہ جلا دینے ، ہلاک کردینے اور برباد کردینے کا یہی وہ فلسفہ ہے جس کا زہر سنگھ پریوار عوام میں گھولتا ہے اور افسران کے ذہنوں میں بٹھاتا ہے۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا دوسری مدت کےلئے برسر اقتدار آنے اور ’ترقی ‘ کے نا م پر ووٹ پانے کے خمار نے نتیش کمار کو اس طرح اپنی گرفت میں لے لیا ہے اوراب ان کو اس شبیہ کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے جس کی بدولت ان کو باجپئی کے بعد این ڈی اے کا سب سے معقول اور قابل قبول لیڈرسمجھا جانے لگا تھا؟کیا وقت آگیا ہے کہ نتیش کمار کی بھی بتانا پڑیگا کہ وہ اپنا راج دھرم نہ بھولیں؟

وزیر اعلیٰ یہ اعلان کرکے کہ اس واقعہ کے مجسٹریٹی جانچ کرائی جائے گی ،دس دن کےلئے چین روانہ ہوگئے۔امارت شرعیہ بہار کے مولانا انیس قاسمی کے بیان کے مطابق بھجن پور گاﺅں کی تین ہزار باشندوں کے خلاف پولیس نے فساد اور لوٹ مار کے الزام میں ایف آئی درج کی ہے۔ اس واقعہ سے اقلیتی فرقہ شدید خوف و ہراس ہے۔ مارے گئے سبھی افراد مسلمان ہیں اور فیکٹری مالک بھاجپائی ہے، اس لئے بھاجپا نے حسب معمول اس انسانی المیہ کو فرقہ ورانہ رنگ دےدیا ہے اور مظلومین کی حمایت و ہمدردی میں اٹھنے والی آوازوں کو، جن میں ’انہادکی شبنم ہاشمی ‘ اور مہیش بھٹ کی آوازیں بھی شامل ہیں فرقہ پرستی کہا جانے لگا ہے۔ بہار میں نتیش کمار سرکار کی صاف ستھری سیکولر شبیہ خاک میں مل رہی ہے اور خود نتیش کمار ریاست میںسیاحت کو فروغ دینے کے گر سیکھنے کےلئے چین کی سیاحت فرمارہے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی میں انتظامیہ کی باگڈور ان کے نائب وزیر اعلا مودی کے ہاتھوں میں ہے۔ ان سے یہ امید عبس ہے کہ وہ مظلومین کےلئے انصاف کی سبیل کریں گے۔ اگر یہ واقعہ بہار کی موجودہ فرقہ ورانہ فضا کو زہر آلود کرنے کا سبب بن گیا(جس کے آثار نظر آ رہے ہیں) تو یہ نتیش کمار کےلئے ہی نہیں بلکہ ملک کی سیاست کےلئے بھی ایک المیہ ہوگا۔ مظلومین کو انصاف دلانے کی مانگ کو لیکر مقامی کانگریسی اوررام ولاس پاسوان پٹنہ میںسرگرم ہیں ،جب کہ چند غیر سیاسی تنظیموں کے کارکنوں نے دہلی میں آوا ز اٹھائی اوربہار بھون کے سامنے دھرنا دیا۔ ان کارکنوںمیں روی رائے، مدھوریش کمار، منیشا سیٹھی اور مانسی شرما وغیرہ کے نام اس بات کا ثبوت ہیں کہ نہ مظلومین کےلئے دادرسی کا معاملہ فرقہ ورانہ ہے اور ہندستان کی سیکولر آتما ابھی سوئی ہے۔ جب تک یہ چراغ روشن رہیں گے ، تاریکی کو غالب آنے سے روکے رہیں گے، وہ تاریکی جو سنگھ پریوار کا مقصود ہے اور جس کووہ بہار میں پھیلانے کےلئے سرگرم نظرآتی ہے۔ نتیش کمار سنبھل جائیں۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163040 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.