”دشمنان فوج“ اور ”محبان وطن“

برادرم خوشنود علی خان کا روزنامہ ”جناح“ میں چھپنے والا 13 جون کا کالم ”دشمنان فوج“ کے حوالے سے تھا جس میں انہوں نے بجا طور پر ثابت کیا کہ فوج کے علاوہ جو دیگر فورسز اور پیرا ملٹری ادارے مثلاً ایف سی اور رینجرز وغیرہ ملک میں موجود ہیں، وہ فوج کا حصہ نہیں بلکہ ان کی کمانڈ اینڈ کنٹرول وزارت داخلہ کے پاس ہے جس کے سربراہ اس وقت رحمان ملک ہیں۔ انہوں نے دشمنان فوج، نام نہاد دانشوروں اور میڈیا کی جانب سے مبینہ طور پر فوج کے خلاف چلائی جانے والی مہم کے جواب میں سابقہ فوجیوں اور فوجی افسروں کو دعوت دی ہے کہ وہ اس سلسلہ میں فوج کے دفاع کے لئے آگے آئیں ۔ان کا کہنا تھا کہ ان کی ادارت میں چلنے والے اخبارات روزنامہ جناح، روزنامہ صحافت اور روزنامہ دوپہر کے صفحات فوج کے دفاع کے لئے حاضر ہیں۔

دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیا عوامل ہیں جن کی وجہ سے فوج پر انگلیاں اٹھتی ہیں اور وہ کیا ”کاروائیاں“ ہیں جن کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ ہم پاکستانی، جن کی گھٹی میں فوج کی محبت شامل ہوتی تھی، عوام جو فوجیوں کو دیکھ کر اللہ اکبر کے نعرے لگایا کرتے تھے، ان کے دلوں اور ذہنوں میں اس وقت کیا تھا اور آج وہ کیوں فوج پر تنقید کرتے ہوئے جذباتی ہوجاتے ہیں اور وہ ”نیک کام“ جو بعض اوقات فوج نے نہیں بھی کئے ہوتے، وہ بھی اس کے کھاتے میں ڈال دئے جاتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ فوج اور فوجی جوانوں کا ذکر اتنی عقیدت و احترام سے کیا جاتا تھا جیسے ہم اپنے کسی بزرگ یا پیر کا کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہیں، اس میں بھی دو رائے نہیں کہ پاک فوج نے جنگوں کے علاوہ قدرتی آفات میں اپنے سویلین بھائیوں کی بہت مدد کی، وہ زلزلہ ہو یا سیلاب یا بم دھماکے ہوں، فوج کے جوان ہمیشہ اپنی جانوں کو ہتھیلی پر لے کر قوم کی مدد کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کی عوام فوج کو صرف ملک کا محافظ ہی نہیں بلکہ مجاہدین کی جماعت خیال کرتی تھی۔ آج سے دس گیارہ سال تک فوج کی عزت و توقیر میں تین مارشل لاﺅں کے باوجود کوئی خاص کمی واقع نہیں ہوئی تھی لیکن مشرف کے آتے ہی ایسا کیا ہوا کہ فوج پر سر عام تبرے بھیجے جانے لگے، فوجی جرنیلوں کو سرعام گالیاں دی جانے لگیں، عام ہوں یا خواص، کوئی بھی فوج سے خوش نظر نہیں آتا تھا، کیا وجوہات تھیں جن کی بناء پر ایسا کیا جانے لگا؟

مشرف نے چند فوجی جرنیلوں کو ساتھ ملا کر ایک ایسی حکومت کا دھڑن تختہ کیا تھا جس کے پاس دو تہائی اکثریت تھی، جس کے اوپر سابقہ حکومتوں جیسے کوئی الزامات بھی نہیں تھے، جس حکومت نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پوری قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے، ڈاکٹر قدیر کی سربراہی میں پاکستان کے سائنسدانوں کی محنت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ایٹمی دھماکے کئے۔ یقینا اس میں فوجی قیادت کی مرضی بھی شامل رہی ہوگی لیکن ہم نے دیکھا کہ پہلے کارگل کا ”معرکہ“ پیدا کیا گیا جس میں سول قیادت سے مشورہ تک نہ کیا گیا اور بعد ازاں طیارے کے اغواءکا جھوٹا الزام لگا کر ایک منتخب حکومت کو گھر بھیج دیا گیا۔ پاکستان کے لوگ سمجھتے ہیں کہ فوج نے امریکی آشیرباد پر حکومت کو برطرف کیا تاکہ نواز شریف کو ایٹمی دھماکوں کی سزا دی جاسکے اور 9/11 کے ڈرامے کے لئے پاکستان میں آمریت موجود ہو تاکہ اس کے بعد افغانستان پر چڑھائی سمیت اس خطے پر چڑھ دوڑنے میں امریکہ کو آسانیاں فراہم ہوں، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ایک فوجی جرنیل جو اس وقت حکمرانی کے نشے میں چور تھا، صرف ایک فون کال پر ڈھے گیا اور امریکہ کی ساری شرائط کو من و عن قبول کر لیا گیا، نہ صرف قبول کرلیا گیا بلکہ ہم شاہ سے بھی زیادہ شاہ کے وفادار بننے لگے۔ افغان پالیسی پر راتوں رات ”یوٹرن“ لے لیا گیا اور جو ایک دن پہلے تک ہمارے ہیرو اور مجاہد تھے ان کو ولن اور دہشت گرد ڈکلیر کر دیا گیا۔ یہ کام صرف اور صرف فوج کے کھاتے میں ہی جاتے ہیں کیونکہ اس قسم کی فیصلہ سازی میں کسی ”بلڈی سویلین“ اور سیاسی قائدین کو شامل نہیں کیا جاتا، نہ ہی مشورہ کے عمل میں کسی سیاسی قیادت کی مداخلت امریکہ بہادر کو پسند تھی کیونکہ کوئی بھی سیاسی بیک گراﺅنڈ کا حامل اپنے ووٹروں اور اپنے سیاسی مستقبل کو یقینا سامنے رکھ کر فیصلہ کرتا ہے۔ یہ تو وہ کام تھے جو مشرف نے اپنی ابتداء میں ہی کر لئے اور یقینا ان عوامل نے فوج کی کریڈیبلٹی کو شدید نقصان سے دوچار کیا۔

لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر کی جانے والی وحشت ناک اور دہشت ناک کاروائی کو یہ قوم قیامت تک نہیں بھول سکتی۔ وہ کون لوگ اور کون سی ایجنسیاں تھیں جن کی شہہ پر غازی برادران نے وہاں پر اس قوم کے معصوم بچوں اور بچیوں کو اسلام کے نام پر جمع کیا، ان کو جذبہ شہادت کے درس دئے، یہ ایک کھلا راز نہیں کہ مشرف اور چند فوجی جرنیلوں نے صرف امریکہ سے اپنی تنخواہ اور دیگر مراعات بڑھوانے کے لئے ایجنسیوں کی مدد سے سارا کھیل شروع کیا اور اپنی مرضی کے مطابق انجام تک پہنچایا ۔ جس ”غازی“ سے یہ خدشہ تھا کہ وہ بعد میں ساری گیم کا بھانڈا پھوڑ سکتا ہے، اسے ”شہید“ کردیا گیا، امریکہ، مغرب اور یورپ کو دکھایا گیا کہ اگر اسلامی شدت پسند اسلام آباد تک پہنچ سکتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پورے پاکستان پر بھی چھا سکتے ہیں، اسلام کا نام ہی ایسا ہے جو اہل مغرب کی نیندیں اڑا کر رکھ سکتا ہے، اگر پاکستان میں حقیقی اسلامی نظام نافذ ہوجاتا تو یقینا یہ ملک اسلام کا قلعہ بن جاتا جو کسی بھی صورت امریکہ اور اس کے حواریوں کو منظور نہیں اور اسی اسلام کے نام سے ان کو ڈرا کر مشرف اور اس کے چیلے چانٹوں نے تاریخ کی وہ بدترین دہشت گردی کی جس کی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی، کیا فوج جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے واقعات میں بطور ادارہ ملوث نہیں تھی، اس کا جواب یقیناً ”ہاں“ میں ہے اور فوج کی موجودہ قیادت نے بھی کبھی اس سے انکار نہیں کیا اور نہ ہی اپنی پوزیشن واضح کی ہے۔ امریکہ کی نام نہاد جنگ کو ”اپنا“ بھی فوج نے بنایا اور آج تک اس پر کاربند بھی ہے، اس جنگ نے پاکستان کو ایک بار پھر دہشت گردی کے عفریت کے سامنے لاکر پھینک دیا ہے۔ وہ جنگ کیسے ہماری ہوسکتی ہے جو کسی کے اشارے پر اپنے ہی بھائیوں کا گلا کاٹنے کے لئے ہو، وہ جنگ ہماری فوج یا امریکہ کی غلام حکومت کیسے جیت سکتی ہے جس میں اس ملک کے عوام شامل نہ ہوں، جنگ ہماری نہیں ہے بلکہ ہم پر ٹھونسی گئی ہے جس سے نکلنے میں ہی اس ملک و قوم کی بقاءاور فوج کی عزت ہے۔ عدلیہ کی ”بے حالی“ سمیت واقعات کا ایک تسلسل ہے جو فوج کے ”کریڈٹ“ پر ہے، کیانی صاحب کی سربراہی میں یقینا فوج نے اپنا امیج بہتر بنانے کی کوشش کی ہے اوران کی سیاسی معاملات سے دوری نے کافی حد تک فوج کا امیج بہتر بنانے میں مدد کی ہے لیکن ابھی امریکی تابعداری سمیت بہت سے معاملات ایسے ہیں جن پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

اب آتے ہیں ”دشمنان فوج“ کی کاروائیوں اور محبان وطن کے اضطراب کی طرف۔ ”دشمنان فوج“ کوئی بھی وطیرہ اختیار کرلیں، جیسے بھی فوج کو ملعون کرنے کی کوشش کرلیں لیکن اگر فوج اور دوسرے عسکری اور پیرا ملٹری ادارے اپنے آپ کو پاکستانیوں کے قالب میں ڈھال لیں، وہ کام نہ کریں جس کا حکم امریکہ دیتا ہے، جس کی خواہش مغرب اور یورپ کرتا ہے تو کسی بھی قسم کا پراپیگنڈہ ان کو بدنام نہیں کرسکتا۔ رہی بات محبان وطن کی تو وہ آج بھی اپنی فوج سے اتنی ہی محبت رکھتے ہیں جتنی مشرف کے وارد ہونے سے پہلے رکھتے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ افواج پاکستان کو اپنی فوج اور مجاہدین کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ پورے ملک میں پاک فوج کا احترام کیا جائے، ان کو سر آنکھوں پر بٹھایا جائے، فوجی جوان اسی ملک کے سپوت ہیں، ہم انہیں اپنا پیٹ کاٹ کر، اپنے لہو سے سینچ کر جوان کرتے ہیں، لیکن جب وہ جرنیلی تک پہنچتے ہیں تو اسی ملک کی جڑوں کو کاٹنا کیوں شروع کردیتے ہیں، اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کیوں کرنا شروع کر دیتے ہیں، میں اور پورے ملک کے محبان وطن ”پاک فوج زندہ باد“ کے نعرے لگانا چاہتے ہیں لیکن ہماری آنکھوں سے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے بچے اوجھل نہیں ہوتے، وہ بچے اور بچیاں جن کو اجتماعی قبروں میں بغیر غسل کے دفنا دیا گیا، اس قوم کے وہ سپوت جو کارگل کی بھینٹ چڑھا دئے گئے، بلوچستان سمیت پاکستان کے وہ لاپتہ نوجوان جن کے گھروں میں آج بھی صف ماتم بچھی ہے، وہ رقص بسمل کرتے ہوئے نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ اگر ناپاک جرنیلوں کو نکال دیا جائے تو یہ فوج آج بھی ہماری آنکھوں کا تارا اور دل کا سرور ہے۔ محبان وطن اپنی فوج کو محافظوں کے روپ سے نکل کر راہزن اور پراپرٹی ڈیلروں کے روپ میں نہیں دیکھنا چاہتی۔

بہت عرصہ پہلے ایک بات سنی تھی کہ امریکہ، بھارت اور سرائیل پورے عالم اسلام میں پاکستان اور اس کی فوج سے سب سے زیادہ گھبراتے ہیں کیونکہ پاکستانی فوجی جذبہ جہاد اور جذبہ شہادت سے مالا مال ہوا کرتے تھے اور یہ ٹرائیکا مل کر ایسی پلاننگ کررہی ہے جس سے افواج پاکستان اور عوام پاکستان میں ایک فاصلہ قائم ہوجائے، اختلافات کی ایک گہری خلیج قائم ہوجائے تاکہ فوج، عوام کو ”بلڈی سویلین“ سمجھے اور عوام اسے غاصب اور ظالم، چنانچہ اس پالیسی پر عمل شروع ہوا اور ہماری کوتاہیوں، نا اہلیوں اور مستقبل بینی سے محروم وژن نے آج ہمیں اسی مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں جو پوری دنیا کی معلومات اور خبریں رکھتی ہیں، کیا ان کے پاس اور فوج کے پاس ایسی اطلاعات نہ پہنچی ہوں گی کہ دشمن ہمیں توڑنا چاہتا ہے، ہمارے درمیان اختلافات پیدا کرکے ہماری قوت کو منتشر اور ختم کرنا چاہتا ہے، یقینا فوج اور خفیہ ایجنسیوں کو ان حقائق کا ادراک ہوگا لیکن انہوں نے آج تک اس کو ناکام بنانے کے لئے کیا امور سرانجام دئے؟اگر آج بھی فوج بطور ادارہ، پاکستانیوں سے ان اعمال کی معذرت کرلے جو ماضی میں اس نے انجام دئے اور مستقبل میں صرف اللہ کی غلامی اختیار کرنے کی یقین دہانی کرا دے، امریکہ کی غلامی سے انکار کردے تو پاکستان کی بھی حفاظت ہوگی اور ”دشمنان فوج“ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔ محبان وطن تو پہلے ہی فوج سے محبت رکھتے ہیں اور آئندہ بھی محبت ہی کریں گے اور فوج کے دشمنوں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی، بس ہمارے جرنیل اس ملک اور اپنی آخرت کی فکر کرلیں، سب ٹھیک ہوجائے گا، انشاءاللہ!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207424 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.