جنت سے جہنم میں بدلتے دو دن!حصہ سوم

کشمیر کی درد بھری منفرد داستان


پڑھے لکھے مسلمان نوجوانوں نے ’ریڈنگ روم پارٹی‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جہاں بحث مباحثے ہوتے۔ انھوں نے لندن میں مقیم پبلشر این ایل بینرجی سے رابطہ کیا جو ’انڈین سٹیٹس‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا کرتے تھے۔

اس رسالے میں ریڈنگ روم پارٹی کے ارکان کی طرف سے ملنے والی معلومات کی بنا پر کشمیریوں کی حالت زار پر آرٹیکل شائع ہونے لگے، جس سے کشمیر کے باہر بھی کشمیر کی بات ہونے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک وسیع ہوتی گئی۔ سنہ 1932 میں شیخ محمد عبداللہ نے آزادی کی اس تحریک کی قیادت سنبھالی اور اسی سال آل جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس کا بھی قیام ہوا۔ دیگر حقوق کے ساتھ ساتھ انھوں نے کسان کو اس کی زمین پر ملکیت کے حق کی بحالی کا مطالبہ بھی کیا۔

سنہ 1932 میں مسلم کانفرنس کے اجلاس میں اپنے صدارتی خطاب میں شیخ محمد عبداللہ نے پرزور انداز میں کسانوں کو دائمی طور پر ان کی زمینوں کی ملکیت دینے کا مطالبہ کیا۔

اسی سال شیخ محمد عبداللہ کو گرفتار کیا گیا، ان پر پر مقدمہ چلا اور انھیں قصوروار ٹھہرایا گیا۔ ان پر مجرمانہ سازش، حکومت کے خلاف جنگ کرنے، جنگ کی نیت سے اسلحہ جمع کرنے، غداری، منافرت پھیلانے اور امن و امان کو نقصان پہنچانے کے الزام لگائے گئے۔ اس کیس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیخ محمد عبداللہ کو جیل بھیج دیا گیا لیکن پھر رہا کر دیا گیا۔

تاہم تب تک کشمیر کی تحریک کافی زور پکڑ چکی تھی۔ کشمیریوں نے اپنی شکایات کی تفتیش کے ساتھ ساتھ سیاسی، معاشی اور مذہبی حقوق کے اپنے مطالبات جاری رکھے۔

یہاں تک کہ مہاراجہ نے آخر کار یہ اعلان کیا کہ وہ ’مناسب‘ مطالبات کو پورا کریں گے اور کشمیریوں کی شکایات کو ہمدردی سے سنیں گے۔ اس کے بعد سر بی جے گلینسی کی صدارت میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا جس کا مقصد مسلمانوں اور دوسروں کی شکایات کی تفتیش کرنا تھا۔

اس کمیشن نے 22 مارچ 1932 کو اپنی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق تشدد کی وجوہات کئی سیاسی اور معاشی مسائل تھے۔ رپورٹ میں کشمیر کی حکومت پر ہندوؤں اور عبادت گاہوں پر ان دعووں کو تقویت دینے کے حوالے سے بھی تنقید کی گئی۔

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کشمیری مسلمانوں کے لیے تعلیم میں سکالرشپس اور ریاستی نوکریوں میں ملازمت کے ساتھ ساتھ سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کی سفارش بھی کی۔

گلینسی رپورٹ کے بعد کشمیر میں آئینی اصلاحات کے لیے ’کشمیر کانسٹیٹیوشنل ریفارمز کانفرنس‘ تشکیل دی گئی، جس کے بعد فرینچائز کمیٹی بھی بنی۔ ان کمیٹیوں کی سفارشات کی بنا پر 1934 میں مہاراجہ ہری سنگھ نے ایک آئینی ایکٹ متعارف کرایا جس کے تحت ’پرجا سبھا‘ کے نام سے ایک قانون ساز اسمبلی کا قیسم ممکن ہو گیا، جس کے پاس قانون سازی کے ساتھ ساتھ ایگزیکٹو اور عدالتی اختیارات بھی تھے۔

گلینسی کمیشن نے دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ان کی زمینوں کی ملکیت واپس کرنے کی اور ان ریاستی زمینوں کی منتقلی اور انھیں کرائے پر دینے کے حقوق کی، جن کی ملکیت تو حکومت کی پاس ہے لیکن جو عام شہرہوں کے زیر استعمال ہیں، سفارش بھی کی تھی۔

مہاراجہ نے ان سفارشات پر عمل کرتے ہوئے زمینیں ان کسانوں کے نام کرنے کا اعلان کیا جن کے پاس تب تک صرف ان زمینوں کو استعمال کرنے کا حق تھا۔ جموں صوبے میں بھی ایسا ہی ہوا۔

تاہم گلینسی کمیشن کی سفارشات مجموعی طور پر ناکام رہیں کیونکہ ان پر پوری طرح عمل نہیں کیا گیا۔ تیس اور چالیس کی دہائیوں میں کشمیر میں مہاراجہ کے خلاف تحریک بھی چلتی رہی اور حکومت کی طرف سے اسے دبانے کی کوششیں بھی۔

سنہ 1935 سے شیخ محمد عبداللہ اور پریم ناتھ بزاز نے ’ہمدرد‘ کے نام سے ایک ہفتہ وار اخبار شائع کرنا شروع کیا جس میں ڈوگرا حکومت کی طرف سے کیے گئے مظالم کی خبریں باقاعدگی سے چھپتی رہیں۔

یہ اخبار خود کو ’جمہوریت اور کشمیری یکجہتی کا علمبردار‘ کہتا تھا اور اس میں حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے ساتھ ساتھ ہندو مسلم تعلقات کو بہتر بنانے اور خطے کی مجموعی ترقی کے بارے میں بھی اداریے شائع کیے جاتے تھے۔
1938 میں شیخ عبداللہ نے مسلم کانفرنس کی ورکنگ کمیٹی میں ایک قرارداد پیش کی جس کے تحت مسلم کانفرنس کا نام بدل کر ’نیشنل کانفرنس‘ رکھ دیا گیا اور اس کی رکنیت غیر مسلمانوں کے لیے بھی کھول دی گئی۔ جس کے بعد بہت بڑی تعداد میں لوگ میٹنگوں میں شامل ہونے لگے۔

سنہ 1938 میں ہی نیشنل کانفرنس نے جموں کشمیر کی معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی تعمیر نو کے لیے ایک جامع اور وسیع منصوبہ تیار کیا جسے ’نیا کشمیر مینیفسٹو‘ کا نام دیا گیا۔

اس منشور کا آرٹیکل 50 پوری طرح کسانوں کے بارے میں ہے، یہاں تک کہ اس کا نام بھی ’پیزنٹ چارٹر‘ ہے۔ اس میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے، بیگار سمیت تمام جاگیردارانہ محصولات کے خاتمے، زمینیں کاشتکاروں کے نام کرنے، قرضے معاف کرنے، زرعات کے لیے فنڈ دینے، قدرتی آفات سے نمٹنے لے لیے ریلیف اور کھاد، زرعی آلات، کھیتوں تک پانی پہنچانے اور علاج معالجے تک کا مطالبہ کیا گیا۔

اس چارٹر کا سب سے دلچسپ اور اہم پہلو یہ تھا کہ اس کے مطابق ہل چلانے والے کو زمین کی ملکیت دینا، اسے غربت اور افلاس سے نکالنے کے لیے ناگزیر تھا۔

مہاراجہ گھبرا گئے اور انھوں نے سات ستمبر 1939 کو ’جموں کشمیر کانسشٹیٹیوشنل ایکٹ‘ متعارف کرایا۔ سنہ 1940 میں نیشنل کانفرنس نے ایک نیا لال پرچم لانچ کیا جس پر ایک ہل بنا ہوا تھا، جو کہ کسانوں کے انقلاب کی علامت تھا۔

سنہ 1941 میں غلام عباس نے مسلم کانفرنس کو دوبارہ شروع کیا اور نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس دونوں نے ہی اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کر دیں۔

سنہ 1943 میں بغاوت کے خدشے سے مہاراجہ نے آئینی اصلاحات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دینے کے احکامات جاری کیے۔ اس کمیشن کا مقصد ریاست کی حفاظت، سالمیت اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کے ساتھ تمام برادریوں کا ایک دوسرے کے قریب لانا، معیشت کی ترقی اور بدعنوانی کا خاتمہ بتایا گیا۔
1944 میں نیشنل کانفرنس نے اپنے سالانہ اجلاس میں ’نیا منشور کشمیر‘ جاری کیا۔ اس منشور میں کشمیر کے لیے آئین سازی کے ساتھ ساتھ ایک قومی اقتصادی منصوبہ بھی تھا۔ اس میں شہریت، قومی اسمبلی، کابینہ، قومی زبان، بنیادی حقوق کی ضمانت جن میں آزادی اظہار اور میڈیا کی آزادی بھی شامل تھے اور نظام انصاف جیسے موضوعات کی وضاحت کی گئی تھی۔

یہ منشور مہاراجہ کو پیش کیا گیا اور وہ دو اکتوبر 1944 کو اسمبلی میں ’ڈائی آرکی‘ (یعنی دو خود مختار نظاموں کے ذریعے حکومت) پر رضامند ہو گئے۔

سنہ 1946 میں شیخ محمد عبداللہ نے اپنی ایک تقریر میں مہاراجہ کی بالادستی کو چیلنج کیا اور ان کے خلاف ’کوئِٹ کشمیر‘ یعنی ’کشمیر چھوڑ‘ تحریک کا آغاز کیا۔

20 مئی 1946 کو نیشنل کانفرنس کے نمایاں رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا اور شیخ عبداللہ کو غداری کے جرم میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔

1940 کی دہائی میں نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس دونوں نے کشمیر کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر شرکت کی اور ڈوگرا انتظامیہ میں نمائندگی کی کمی کو واضح کیا۔ 1930 کے بعد سے شروع ہونے والے آئینی اصلاحات سے عوام کو کسی حد تک ریاستی انتظامی نظام میں حصہ لینے کا محدود موقع ملا۔ ان اصلاحات سے کشمیریوں میں سیاسی شعور اور آگاہی بھی پیدا ہوئی۔

مہاراجہ نے جن اصلاحات کا آغاز کیا تھا ممکن ہے کہ ان سے آگے چل کر کشمیر میں ایک منتخب حکومت اور اسمبلی وجود میں آتی، تاہم برطانوی ہندوستان کی بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال اور شاہی ریاستوں کے الحاق کے سوالات کا کشمیر پر گہرا اور دیرپا اثر پڑا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد ہونے والے انتخابات میں برطانیہ میں ونسٹن چرچل کی کنزرویٹو پارٹی ہار گئی اور لیبر پارٹی نے اقتدار سنبھالا۔ یہ ایک ایسا وقت تھا جب برطانیہ شدید اقتصادی مشکل میں تھا اور اس کے دیوالیہ ہونے کا بھی خدشہ تھا۔

اس صورت حال کی وجہ سے وزیر اعظم ایٹلی نے برطانیہ کی انڈیا پالیسی تبدیل کر دی۔
19 فروری 1946 کو برطانیہ کے انڈیا امور کے وزیر لارڈ پیتھک لارنس نے کابینہ کے تین وزرا کو انڈیا بھیجنے کے فیصلے کا اعلان کیا، ان کے ذمہ ’مسئلہ انڈیا‘ کا حل تلاش کرنا تھا۔

اس کیبینٹ مشن کا ایک مقصد مقامی راجوں مہاراجوں اور برطانیہ کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنا بھی تھا۔

24 اپریل 1946 کو کیبینٹ مشن سرینگر پہنچا تو شیخ محمد عبداللہ نے انھیں ایک میمورنڈم بھیجا۔ اس میں لکھا تھا کہ ’ہم یہ درخواست کرتے ہیں کہ اس رشتہ پر نظر ثانی نہایت اہم ہے کیونکہ تقریباً ایک سو سال پہلے کشمیر کی زمین اور اس کے عوام کو برطانیہ نے بیچ دیا تھا۔ کشمیری عوام اپنی تقدیر بدلنے کے لیے پرعزم ہیں اور ہم مشن سے ہمارے مقصد کے منصفانہ کردار اور اس کی طاقت کو پہچاننے کی اپیل کرتے ہیں۔۔ آج کشمیری عوام کا ’قومی مطالبہ‘ محض ایک ذمہ دار حکومت کا قیام نہیں، بلکہ ’مکمل آزادی‘ ہے۔

آزادی کے اس مطالبے کے بعد 12 مئی 1946 کو کیبینٹ مشن میمورنڈم پاس کیا گیا۔ اس کے پانچویں پیراگراف میں لکھا ہے ’ریاست کے وہ حقوق جو اسے برطانوی تاج کے ساتھ رشتے کی وجہ سے حاصل ہیں ان کا وجود اب ختم ہوتا ہے۔`

اس کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ کے پاس تین راستے تھے: انڈیا کے ساتھ الحاق، پاکستان کے ساتھ الحاق، یا خود مختاری۔

مہاراجہ ہری سنگھ نے فوری طور پر انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان نہ کر کے بظاہر خود مختار رہنے کا فیصلہ کیا۔

انڈیا کے ساتھ ہونے والے معاہدہ الحاق پر دستخط کے بارے میں اگلی قسط میں بات کریں گے لیکن یہ بات واضح ہے کہ ڈوگرا دور میں جہاں کشمیری عوام پر بہت مظالم ڈھائے گئے وہیں اس کی وجہ سے ایک طاقتور سیاسی تحریک نے جنم لیا اور شیخ محمد عبداللہ کی قیادت میں تب تک کی کشمیر کی واحد سیاسی جماعت، آل جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس، بھی ابھر کر سامنے آئی۔

یہ جماعت واضح طور پر ڈوگرا مخالف تھی اور اس نے حکومت سے معاشی، سیاسی اور مذہبی حقوق کا مطالبہ کیا۔ جس کی وجہ سے ڈوگرا دور میں زرعی نظام اور اصلاحات کے حوالے سے بڑی تبدیلیاں بھی عمل میں آئیں۔

تاہم ان اصلاحات کے باوجود جاگیردار زرعی اور معاشرتی ڈھانچے میں بالاتر مقام پر قائم رہے۔ کشمیر میں اصل تبدیلی 1948 کے بعد تب آئی جب جاگیردارانہ نظام اور اس سے منسلک مراعات کو ختم کیا گیا۔

سنہ 1931 میں شروع ہونے والی سیاسی تحریک میں ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے کشمیریوں نے حصہ لیا، یہاں تک کہ سرکار کے خلاف اس تحریک میں سرکاری ملازم تک شامل تھے۔

جواب میں حکومت نے شدید طاقت کا استعمال کیا۔ مارشل لا لگایا گیا، جس کے تحت پولیس کو کسے کو بھی بنا وارنٹ، صرف شک کی بنیاد پر گرفتار کرنے کے خصوصی اختیارات دیے گئے۔ بیشمار لوگوں کو بنا مقدمہ چلائے قید کر دیا گیا۔

سرینگر میں ایک آرڈیننس جاری کیا گیا جس کے تحت ریاستی فوجی افسران اور پولیس کو خصوصی اختیارات دیے گئے۔ لوگوں کو مساجد جانے کی اجازت نہیں تھی اور ’سیاست‘، ’انقلاب‘ اور ’دی مسلم آؤٹ لک‘ جیسے اخباروں پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

ڈوگرا دور کشمیر کی جدید تاریخ کا ایک نہایت ہی اہم حصہ ہے۔ اس دور میں کشمیر ایک واضح سیاسی خطے کے طور پر سامنے آیا اور اس عمل میں معاہدہ امرتسر کا بہت برا کردار تھا۔ ڈوگرا دور ظالمانہ ضرور تھا لیکن اس دور میں ریاست جموں کشمیر جغرافیائی، معاشرتی اور ثقافتی لحاظ سے مستحکم ہوئے۔

اس زمانے کی دستاویزات کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ ڈوگرا حکمران علاقائی استحکام قائم کرنے، قانون سازی، فوجیں قائم کرنے اور ساتھ ساتھ آئین سازی میں کامیاب رہے اور یہ بھی کہ 1940 کی دہائی میں سامراجیت کے خاتمے کا عمل شروع ہونے کے ساتھ ہی کشمیری پراعتماد تھے کہ وہ ڈوگرا حکمرانوں کا تختہ الٹ دیں گے۔
اس دوران چاۓ والا بولا کہ باؤ جی سید صاحب کی باتوں کا ایک ایک لفظ سچ اور تتاریخی اعتبار سے درست ہے,
میں نے کہا جی میں انکی تاریخی گفتگو کو محفوظ کر رہا ہوں,
بابا جی کہنے لگے کہ
صوادیِ کشمیر تین صدی قبل مسیح بدھا حکمران آشوکا ﴿Ashoka﴾ کی ریاست﴿جو موجودہ بنگال سے دکن اور افغانستان سے پنجاب تک پھیلی ہوئی تھی﴾کا حصہ تھی - آشوکا کی موت کے بعد کشمیر پر بدھ مت کی حکومت ختم ہوئی اور اس کے بعد وہاں مقامی قبائل کی حکومت رہی - پہلی صدی عیسوی میں کشمیر کو شمال مغرب چین سے آئے بدھ مت مہاراجہ کانیشکا ﴿Kanishka﴾ نے فتح کیا - پانچویں صدی عیسوی میں ہندو مہارجہ ماہیراکولا ﴿Mihirakula﴾ نے بدھ مت حکومت کا خاتمہ کر کے برہمن ہندوئوں کی حکومت کی بنیاد رکھی ﴿تاریخ میں ہندو مہاراجہ ماہیراکولا کو دہشت کی علامت کے طور پر بیان کیا گیا ہے جس نے اپنی رعایا پر بے پناہ مظالم ڈھائے﴾جو کہ بعض مؤرخین کی رائے میں تیرہویں صدی تک رہی - ساتویں صدی عیسوی میں کشمیر کا ہندو راجہ لالی تادتیا ﴿Lalitaditya﴾ تھا جِس نے کشمیر میںترقی اور فلاح کے لیے کام کیا جو آنے والے ہندو مہاراجوں کے دور میں بھی جاری رہا-دسویں صدی عیسوی میں کشمیر کی حکمرانی کے لیے ہندوشہزادوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو گئی - گیارہویں صدی عیسوی میں افغانستان کے شہزادے سبکتگین غنی نے دو بار کشمیر کو فتح کرنے کی کوشش کی مگرکامیاب نہ ہو سکے-کشمیر میں ہندوئوں کے اقتدار کا خاتمہ چودہویں صدی میں مسلم حکومت کے قیام کے ساتھ ہوا-
صوفیائ کے روشن کردہ اسلام کے چراغ کشمیر میں آج بھی زندہ ہیں اور وہاں کا تہذیب و تمدن اُن کی تعلیمات اور فلسفہ کی عکاسی کرتا ہے-صوفیائ کی تعلیمات ، روایات، عادات ، محبت، پیار،رہن سہن کا طریقے سے لوگ بہت متأثر ہوئے اور آج بھی چھ صدیوں کے بعد بھی کشمیریوں کے دلوں میں زندہ ہے کیونکہ کشمیری آج بھی امن اور مساوات کے خواہاں ہیں- لوگ آج بھی اپنے علاقے میں موجود خانقاہ یا مسجد میں اکٹھا ہو کر علاقے کے مسائل کو حل کرتے ہیں-کشمیری عوام کا صوفیا اور اسلام سے محبت کی ایک چھوٹی سی مثال والٹر آر لارنس نے اپنی کتاب میں دی ہے کہ کشمیر میں جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اگر وہ اسلامی مہینے شعبان ، رمضان یا رجب میں پیدا ہو تو اس بچے کو اسلامی نسبت سے اس اسلامی مہینے کا نام دیا جاتاہے اور اگر وہ ان مہینوں کے علاوہ کسی مہینے میں پیدا ہوتو صوفیائ سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے عموماً کسی صوفی کی نسبت اس بچے کا نام رکھا جاتا ہے-

کشمیری عوام کا اِسلام اورصوفیائ ِکرام سے محبت کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیری عوام حصولِ فیوض و برکات کیلئے صوفیا ئ کے مزارات پر بکثرت حاضری دیتے ہیں اور ان کی تعلیمات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں - جِس کی مثال ہمیں حضرت شاہِ ہمدان رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان میں ملتی ہے کہ کشمیری اسلامی روایت میں سب سے معزز روحانی عُہدہ ’’میر واعظ‘‘ کا سمجھا جاتا ہے جو کہ صرف اِسی مذکورہ خاندان سے تعلق رکھنے والا ہی بن سکتا ہے - اِس مقام پر شاہِ ہمدان کے خاندان کا وہی نوجوان فائز ہو سکتا ہے جو قرآن و سنت اور صوفیائ کی تعلیمات سے مکمل طور پر آشنا ہوتا ہے اور وہی سرینگرجامع مسجد کا امام ہوتا ہے-

مساجد کے نام بھی کشمیریوں کی صوفیا سے محبت کی عکاسی کرتے ہیں مثال کے طور پر ایک مشہور مسجد جو قادریہ سلسلہ کے بانی اور عراق کے مشہور صوفی بزرگ کے نام سے مشہور ہے وہ مسجد حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہے جو سرینگر کے وسط میں واقع ہے-

کشمیر میں اسلام کی آمد نے کشمیری ہنر ﴿آرٹ اور نقش نگاری﴾ کو نیا رنگ دیا-کشمیری ثقافت ، قالینوں کے ڈیزائین و نقش نگاری پوری دنیا میں مشہور ہیں- جب غیر مسلم ہنر مندوں نے اسلام قبول کیا تو انہوں نے مساجد کے میناروں اور مساجد کے اند رلگے پتھروں کی تزئین و آرائش کے لیے کاشی کاری و نقش نگاری کنندہ کی اور لکڑیوں پر کشیدہ کاری کے ہنر دکھائے- ہمیں آج بھی کشمیر کی مساجد اور درگاہوں پر یہ خوبصورت نقش نگاری نظر آتی ہے جِس کو مساجد میں بچھے منفرد رنگ و بناوٹ کے قالین چار چاند لگاتے ہیں-اسی طرح مغلیہ دور میں کشمیر میں تعمیراتی کام، نقش نگاری، کشیدہ کاری،قالین سازی اور اون کی صنعت خصوصاً شال بنانے میں خاطر خواہ ترقی ہوئی-

کشمیریوں کی سامراجی غاصب قوتوں کے خلاف صدیوں پہ مشتمل جد و جہد اور اسلام ، قرآن ، حضور تاجدارِ کائنات ﷺ کے پیغام کی سر بلندی کے لیے جدوجہد بھی اُس اسلامی تمدن کی عکاس ہے جِس طرح صحابہ کرام نے اسلام قبول کرنے کے بعد صعوبتیں برداشت کیں اسی طرح کشمیری بھی اسلام سے محبت اور بلندی کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں- جِس کی مثال ہمیں ایک بہت ہی اہم واقعہ سے ملتی ہے کہ جب مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں کشمیر میں حضورِ اکرم ﷺ کا ایک بال مبار ک لایا گیا وہ جِس جگہ رکھا گیا وہ جگہ ’’درگاہ حضرت بَل‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی ﴿حضرت کا اِشارہ آقا علیہ السلام کی ذات کی طرف اور ’’بَل‘‘ بال کو کہتے ہیں یعنی وہ درگاہ جہاں آقا علیہ السلام کا موئے مبارک رکھا ہے ﴾ - 1963 ئ میں جب یہ موئے مقدس چوری ہوا تو خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تو ہزاروں کشمیری مرد ، عورتیں ، بوڑھے ، بچے ، مذہبی و سیاسی قائدین مل کر احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے، لوگوں نے بغیر کسی کے کہے وادی کے طول و عرض سے جوق در جوق درگاہ کا رُخ کیا اور وہیں بیٹھ گئے - کشمیریوں کے جذبے نے حکومتِ بھارت و مقبوضہ کشمیر کو ہلا کر رکھ دیا- حکومت نے اپنی انٹیلی جنس ایجنسی کو موئے مقدس ڈھونڈنے پرلگا دیا-جب تک موئے مبارک واپس نہیں آیا کشمیری اپنی زندگی کی پرواہ کیے بغیر ٹھنڈی راتوں میں کھلے آسمان تلے بیٹھے رہے - کشمیر پر قابض لوگو ں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ جو قوم اپنے نبی کریم کے بال کی خاطر اپنی جان دے سکتی ہے وہ قوم اسلام کی بنیاد پر بننے والی ریاست ﴿پاکستان﴾ اور دو قومی نظریہ ﴿مسلم و ہندو دو الگ قومیں ہیں﴾کی خاطر اپنی ہزاروں نسلیں قربان کر سکتے ہیں مگر اپنی بنیاد کو نہیں چھوڑ سکتے-

کشمیر میں بچوں کو حفظِ قرآن و تجوید ، دینی مسائل کی تفہیم ، دینداری سکھانے اور عقائدِ دینی سیکھنے کا بہت اہتمام کرتے ہیں - کہا جاتا ہے کہ کسی بھی دوسرے علاقے سے زیادہ کشمیر میں نمازِ پنجگانہ میں مساجد پُر ہجوم ہوتی ہیں - اسلام سے محبت اور جذبۂ اِسلامی کشمیری مسلمانوں کا اَقوامِ عالَم میں طرۂ اِمتیاز ہے - کشمیریوں کے مذہبی عقائد اتنے مضبوط ہیں کہ بیرونی طاقتوں اور ان کے ظلم و جبر بھی کشمیری عوام کے دِلوں سے اسلام کی محبت اور اسلامی طرزِ زندگی نہ چھین سکی-
چودھویں صدی عیسوی کے ربع اول میں کشمیر کے ایک راجہ نے، جس کا نام رینچن یا رام چندر بتایا جاتا ہے، ایک عرب مسافر سید بلبل شاہؒ کی نماز اور تبلیغ سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا، اپنا اسلامی نام صدر الدینؒ رکھا اور سری نگر میں جامع مسجد تعمیر کی۔ اس طرح کشمیر کے اسلامی دور کا آغاز ہوا۔پندرہویں صدی کے ربع اول میں کشمیر کو سلطان زین العابدینؒ جیسا نیک دل، رعایا پرور اور علم دوست بادشاہ نصیب ہوا جس نے عدل، تدبر، رحم دلی اور اسلامی اخوت و مساوات کے جذبہ سے ریاست میں اسلام کی بنیادوں کو مستحکم کیا۔ جامع مسجد کے ساتھ دارالعلوم کی بنیاد رکھی اور علماء کی سرپرستی کی۔ اہل کشمیر اسے ’’بڈشاہ‘‘ (بڑا بادشاہ) کہتے ہیں اور اس کے عدل و انصاف اور رعایا پروری کے دوست دشمن سبھی معترف ہیں۔ سلطان زین العابدینؒ کا دور کشمیر کی اسلامی تاریخ کا زریں ترین دور شمار ہوتا ہے۔۱۵۸۵ء میں مغل فرمانروا جلال الدین اکبر نے کشمیر کو فتح کیا اور اس طرح کشمیر شاہمیری خاندان کے ہاتھوں سے نکل کر مغل خاندان کے تسلط میں آگیا۔سلطان محی الدین اورنگزیب عالمگیرؒ کے وصال کے بعد جب سلطنت مغلیہ زوال پذیر ہوئی، مغل شاہزدوں کی باہمی چپقلش کے باعث طوائف الملوکی کا دور دورہ شروع ہوا اور ریاستیں خودمختار ہونے لگیں تو کشمیر پر افغانوں کا تسلط قائم ہوگیا اور اس طرح ۱۷۵۳ء میں کشمیر پر مغل اقتدار کا سورج غروب ہوا۔
مفت کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ مفت تو ہوا بھی نہیں ملتی۔ ایک سانس بھی تب میسر آتی ہے۔ جب ایک سانس چھوڑی جاتی ہے۔ ہر چیز کی ایک قیمت چکانی پڑتی ہے اور آزادی؟ شاعر رومان اختر شیرانی کی زبانی سنیے کہ آزادی کا مول کیا ہے؟
عشق و آزادی بہار زیست کا سامان ہے
عشق میری جان آزادی ہے, میرا ایمان ہے
عشق پر کر دوں فدا اپنی ساری زندگی
لیکن آزادی پہ میرا عشق بھی قربان ہے
آزادی کا جذبہ کتنا شدید ہے کہ مجاز اپنی نسل تک قربان کر دیتا ہے,
پھر یہ پہاڑوں اور صحراؤں کے فرزند کچھ اور خُوبُو کے لوگ ہوتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال: یہی وہ لوگ ہیں جو فطرت کی مقاصد کی نگہبانی کرتے ہیں۔ ان میں آزادی کا جذبہ قدرے فراواں ہوتا ہے,
مغرب سے لے کر رات ایک بجے تک گفتگو جاری تھی کہ اچانک بابا اسماعیل میری طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگے کہ پتر جی میری تاریخی معلومات تو مکمل ہوچکی ہے اب مجھے پتر اجازت ہے یا ابھی کچھ پوچھنا باقی ہے ؟
میں نے کہا جی بابا جی مجھے بس اتنا پوچھنا ہے کہ آپ صرف دو دن کے معمولی سامان خریدنے باڈر کراس کرتے ہیں کیوں ؟کوئی خاص وجہ ؟
میری بات سن کر بابا اسماعیل رونے لگا, چپ ہو کر کہتا ہے کہ مجھے شک تھا بلکہ یقین تھا کہ اس تاریخی معلومات کے مکمل ہونے کے بعد میرے بارے لازمی پوچھو گۓ, کیونکہ تم سوچ رہے ہو گۓ کہ میں نے یہ ساری معلومات تو دے دی لیکن تمیں اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ میں کون ہوں,میرے ساتھ کیا ہوا, کیوں ہوا, کیسے ہوا, اور ہفتہ گزرنے کے بعد دو دن کے لیے معمولی سی تجارت کرنے کی غرض سے باڈر کراس کر کے کیوں آتا ہوں تو سنو پتر جی میں سری نگر کا رہنے والا ہوں سید گھرانے سے تعلق ہے ,

ہمارا خاندانی پیشہ تجارت ہی ہے ,اسی تجارتی غرض سے میں جولائی 1991 میں باڈر کراس کر ہنسی خوشی گھر سے آیا تھا ,
لیکن جب دو دن گزار کر تجارتی سامان لے کر واپس کشمیر گیا, سری نگر کی فضا میں سانس لی, اپنے گھر کی جانب منہ کیا تو جیسے قیامت آچکی تھی میرا جلا ہوا گھر اور اس بلند ہوتا دھواں بتا رہا تھا کہ اسماعیل تیرے کشمیر کی جنت کو آزادی ملے نہ ملے لیکن تیرے سید گھرانے کو اللہ نے کشمیر کی آزادی پر قربان ہونے کا لکھا ہوا امر پورا کر دیا ہے,
سنو پتر بابر میرے گھرانے میں میرے دو چھوٹے بھائی,تین میرے بیٹے, دو میری بیٹیاں, ایک میری بیوی ظالم بھارتی افواج کا نشانہ بن چکی تھی, صرف اس دن پتر تیرا یہ بابا اسماعیل جو غلامی کی فضا سے آزادی کی فضاؤں میں تھا بچ گیا تھا,
پتر جی تمہاری آنکھیں بتا رہی ہیں کہ تم جاننا چاہتے ہو کہ میرے خاندان کو موت کی وادی میں کیوں اتار دیا گیا تو سنو پتر جی مارچ 1990 کی ایک شام ایک زخمی مجاہد سیف اللہ کچھ دیر ہمارے گھر آیا تھا, اسکا تعاقب کرتے کرتے بھارتی افواج کا ایک لشکر ہماری بستی کا محاصرہ کرچکا تھا,
گھر گھر تلاشی کے دوران انکو وہ آزادی کا مجاہد سیف اللہ تو نہ ملا لیکن شک کی بنیاد پر اس محاصرے کے دوران تقریباً ہر گھر ایک نوجوان یا بزرگ دشمن کی گولی کا نشانہ ضرور بنا, اسی محاصرے کے دوران پتر جی ہر گھر کی عزت پامال ضرور ہوئی, ان حیوانوں کے ہوس کا شکار میری بیٹی زرتاش بھی ہوئی اور شرم کے مارے اس نے خود کشی کر لی.
یوں پتر جی میرا گھر آزادی کی آگ کا حصہ بن گیا, میرے بھائی, میرے بیٹے بندوق اٹھا کر کشمیر کی آزادی کے مجاہد بن گۓ,
محاصرہ پندرہ روز کے بعد ختم ہو گیا لیکن یہ محاصرہ ہماری بستی سے ایک آزادی کے مجاہدوں کا کارواں بنا گیا, آۓ روز حیوان صفت بھارتی افواج پر حملے ہونے لگے اور آزادی کی تحریک میں جان سی آگی, بڑی بڑی فتح نصیب ہونے لگی, بہن کی عزت کی پامالی, کشمیر کی بیٹی کی عزت کی پامالی نے میرے بیٹے اور بھائی کے ہاتھ میں بندوق دے دی تھی اسکا چرچا عام ہونے لگا اور پتر بھارتی افواج میرے بھائی اور بیٹے تلاش کرنے لگی,
بابا اسماعیل روتے ہوۓ بتا رہا تھا کہ پتر پھر ایک وہ وقت آیا کہ ایک رات میرا بھائی گھر ملنے آیا تو افواج بھارت کو خبر ہو گئ, وہ کتے پتر جی بو سونگتے ہوۓ گھر تک آ گۓ میرے بھائی کو پپکڑ کر پوری بستی کے سامنے چوک میں میرے سامنے گولیاں مار کر کشمیر کی جنت نظیر وادی پر قربان کر دیا اور ہنستے ہوۓ لوٹ گۓ,
باؤ جی بھائی چھوٹے ہوں اور ماں باپ وفات پا چکے ہوں تو انکے سر پر سہرا سجانے کا آرمان ہوتے ہیں, اور اگر بھائی اور بیٹے ہم عمر ہوں تو یہ جنون عشق کی حد تک ہوتا ہے کہ انکے گھر آباد ہوں, انکے سر پر سہرا ہو, انکے بچے ہوں, لیکن پتر شاید یہ ہمارے گھر کے لیے بس خواب ہو سکتا تھا حقیقتاً یہ تصویر, ایسی خوشی اس گھر کے مقدر میں خدا نے لکھی تھی,
یہ جو آزادی کی جنگ گھر کی عزت کی پامالی بھائی, باپ, چچا کے سامنے ہونے سے شروع ہوئی تھی اسکو قیامت کا ایک منظر مذید دیکھنا تھا ابھی, ایک بھائی کی شہادت, ایک بیٹی کی کشمیر کی آزادی پر عزت کی پامالی, جان کی قربانی تاریخ کی نظر میں تھوڑی تھی, ابھی اس سید خاندان کو اپنے سر پر کشمیر کی دھرتی کا قرض اتارنے کے لیے خاندان کی قربانی دینی تھی,
پھر پتر جی وہ جولائی 1991 گھر پر قیامت کا سایہ کر کے کشمیر کی دھرتی کا قرض اتار گیا اور پتر بابر تب سے آج تک میں وہ ہی دو دن بطور سوگ کے گزارنے ان غلامی اور لہو کی فضاؤں سے آزادی کی فضاؤں میں آتا ہوں.
جنت سے جہنم میں بدلتے دو دن!
یہ کہتے ہوۓ بابے اسماعیل کی آنکھوں میں آنسو تھے اور میری پیشانی پر بوسہ دیتے ہوۓ چل دیا اور کہتا جاتا تھا کہ پتر مجھے تیرے اشتیاق کے بارے اسلم پان والے نے سب بتا دیا تھا اس لیے پتر تیری زبان تک سوال آنے ہی نہیں دیا,
پتر بابر تیری عمر کا میرا حسن تھا,
پتر بابر سلامت رہو, پتر جی جیتے رہو, پتر جی اب مجھے آواز نہ دینا,
میں دیکھتا ہی رہ گیا اور بابا اسماعیل جنت نظیر وادی کشمیر میں اپنی جنت نما زندگی, خاندان کو بدلی جہنم کا عکس سنا کر چل...
بابے اسماعیل تو چلا گیا لیکن مجھے سمجھا گیا کہ آپ کشمیریوں کو آنکھ دکھا سکتے ہیں، ان کی آنکھوں میں دیکھ‌ کر بات کرنے کی ہمت کہاں سے لائیں گے…
ایسا کوئی بھی حکومت کب کرتی ہے؟ جب وہ عوام کا سامنا نہیں کر سکتی۔جن پر اس کا اثر ہونے والا ہو، ان کو اندھیرے میں رکھ‌کر لیا گیا کوئی بھی فیصلہ کسی بھی دلیل سے ان کے حق میں نہیں ہو سکتا۔ اپنی فوجی طاقت کے بل پر سرپرست بن جانا آپ کے دعویٰ کو کسی بھی طرح
درست نہیں,
ایسی دلیل صرف گاندھی کی نہیں، ہر آزادی کے حامی کا ہے کہ آپ میری پیٹھ پر سوار ہوکر میرے دوست اور خیر خواہ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ میرے اوپر قابض ہونے کا حق آپ کو کسی نے نہیں دیا اور اس کو میں قبول نہیں کر سکتا۔جو کشمیر میں دہشت گردی کے خلاف ہیں، ان میں سے کئی گاندھی کے عدم تشدد کے بھی خلاف ہیں۔ اگر وہ کُھدی رام بوس، چندرشیکھر آزاد کے تشدد آمیز جدو جہد کے طریقے کو مناسب مانتے ہیں تو اس پر بھی دھیان دیں کہ ان میں سے ہرایک کو معلوم تھا کہ وہ برٹش حکومت کی طاقت سے شاید جیت نہ سکیں۔ لیکن جیت نہ ہوگی،
اس سبب انہوں نے جدو جہد کو چھوڑ نہیں دیا…

گزشتہ 70 سالوں کے ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ بھارتیہ راشٹر کا مطلب ان میں سے سب کے لئے کبھی بھی ایک جیسا نہ تھا۔ اس وجہ سے ہندوستان کا ان سے تشدد بھی ہوتا رہا ہے۔ ہندوستان اگر طاقت ور ثابت ہوا کئی بار تو صرف اس لئے نہیں کہ وہ اعلیٰ خیال تھا بلکہ اس لئے کہ اس کے پاس ریاست کی تشدد آمیز طاقت تھی۔ریاست کے ذریعے تشدد کے استعمال کو جائز مانا جاتا ہے اور جو ریاست ایسا کرتے ہیں ان کو عالمی حمایت ہی ملتی ہے۔ عوام کے خلاف تشدد کے استعمال کو اندرونی معاملہ کہہ‌کر عالمی کمیونٹی پلہ جھاڑ لیتی ہے,
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کو نازی عقوبت خانہ بنے ہوئے ایک سال ہوا چاہتا ہے۔ لاکھوں کشمیری عوام ایک بہت بڑی جیل میں مقید ہیں جس میں نہ بچے اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی بیمار اور بزرگ اپنی طبی معائنے کے لیے ہسپتال جا سکتے ہیں۔
نہ ہی رشتہ داروں کو ایک دوسرے سے ملنے دیا جا رہا ہے ہے اور نہ ہی کشمیریوں کو اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کی بپتا سنانے کے لیے انٹرنیٹ میسر ہے۔ کرونا کو جواز بناتے ہوئے بچی کھچی رعایتوں کو بھی سلب کیا جا رہا ہے۔
سبھی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے بدستور گھروں میں نظر بند رکھا ہوا ہے جس سے بھارتی اقدامات کے خلاف تمام سیاسی قوتوں میں نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس سے بھارت نواز کشمیری قیادت کی آنکھیں بھی کھل گئی ہیں۔

بھارتی فوج کے مظالم میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس سال کے آغاز سے اوسطاً ہر روز پانچ مکینوں کو ان کے گھروں سے نکال کر، ان کے گھروں کو چشم زدن میں مسمار کر کے انہیں چھت سے محروم کیا جا رہا ہے۔ آٹھ لاکھ بھارتی فوجیوں نے ظلم و ستم کی ایک نئی لہر شروع کی ہے اور صرف پچھلے چھ ماہ میں 148 نہتے کشمیریوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ پانچ سو سے زائد کشمیریوں کو اذیت کا نشانہ بناتے ہوئے سخت جسمانی سزائیں دے کر اپاہج بنا دیا گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کی عددی اکثریت کو تبدیل کرنے کے لیے باقاعدہ اقدامات بھی شروع ہوگئے ہیں۔ 5 اگست 2019 کے غیرقانونی قدم کے بعد اب غیرکشمیری جموں و کشمیر میں آباد ہو سکتے ہیں اور وہاں پر جائیدادیں بھی خرید سکتے ہیں۔ کشمیریوں کی اکثریت کو ختم کرنے کے لیے اور غیر کشمیری کے لیے جائیداد خریدنے میں آسانی پیدا کرنے کے لیے سول سروس میں نمایاں تبدیلیاں کی گئی ہیں اور اس وقت جموں و کشمیر میں تمام اعلیٰ سرکاری عہدوں پر غیرکشمیری ہندوؤں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔

اگر ایسا سلوک کسی مسلمان ملک میں غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ ہو رہا ہوتا تو پوری دنیا میں شور و غل مچا ہوتا اور اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی ادارے حرکت میں آ چکے ہوتے اور فوجی اقدام تک کے بارے میں سوچا جا رہا ہوتا۔

بھارت کی اس جارحیت پر بین الاقوامی ردعمل ملا جلا رہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا میں اس انسانی سانحہ پر تفصیلی مضامین تو شائع ہوئے اور جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات بھی ہوئی مگر کشمیریوں کے حق خود ارادی کے بارے میں کم ہی آواز اٹھائی گئی۔

بین الاقوامی رہنماؤں نے دبے الفاظ میں کشمیر کے بارے میں بات کی۔ ماسوائے صدر اردغان اور ایرانی روحانی رہنما کے علاوہ کسی مسلمان رہنما نے کھل کر کشمیریوں پر مظالم کی مذمت نہیں کی۔ مشرق وسطی کے اہم مسلمان ممالک کشمیری مسلمانوں پر ظلم وستم بند کرنے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالنے کی بجائے اس سے سیاسی ثقافتی اور معاشی پینگیں بڑھانے میں مصروف نظر آئے۔ صدر ٹرمپ نے ثالثی کے بارے میں بات تو کی لیکن اس سلسلے میں بھارت پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالا۔

البتہ یہ بات خوش آئند ہے کہ امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے تین صدارتی امیدواروں جو بائیڈن، برنی سینڈرز اور الزبتھ وارن نے بھارت پر زور دیا کہ کشمیریوں کے حقوق بحال کیے جائیں گے۔ انہوں نے بھارت میں کشمیر کے بارے میں آئینی تبدیلیوں پر اپنی مایوسی کا اظہار بھی کیا۔ اس سلسلے میں حسب معمول اقوام متحدہ کا کردار بھی انتہائی مایوس کن رہا ہے۔ چونکہ سلامتی کونسل کے مستقل ممبران کے بھارت سے گہرے سیاسی اور معاشی روابط ہیں اس لیے جب چین نے دو بار سلامتی کونسل میں کشمیر کے بارے میں غیر رسمی اجلاس منعقد کرائے تو ان کا بھی کوئی معنی خیز نتیجہ نہیں نکل سکا۔

ہمارے وزیر اعظم نے پچھلے سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پرزور طریقے سے کشمیر کا مسئلہ اٹھایا مگر بدقسمتی سے اس کا اثر صرف تقریر کے دورانیے تک رہا۔ ہماری حکومت کی ساری توجہ پاکستان میں اپوزیشن کو رگدیدنے اور اس کے گرد گھیرا تنگ کرنے پر مرکوز ہے تو انہوں نے قومی سلامتی کے اس بڑے مسئلے پر اپنی توجہ سوائے تقریروں، کچھ جمعہ کے احتجاجوں، چند منٹ کی خاموشی اختیار کرنے اور کشمیر ہائی وے کا نام بدل کر سری نگر ہائی وے رکھنے تک ہی محدود رکھی۔

نوٹ!
کشمیر 1947 پاکستان سے پاکستان کے حصہ میں آیا تھا۔ اب اس پر بھارت نے قبضہ کر رکھا ہے۔
اللہ پاک کشمیر کو آزادی کی نعمت عطا فرمائے اور قابضوں کو اللہ کریم نیست و نابوت کرے ,
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558722 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More