سینٹ منڈی

ایک گیدڑ نے لومڑی سے کہا کہ شیر کے جنگل کے شکار کرنے کی خاص بات کیا ہے جو مجھ میں نہیں۔ لومڑی نے کہا کہ شیر شکار کرنے سے پہلے اپنا جسم زمین پر چپکا لیتا ہے، اس کی دُم کھڑی ہو جاتی ہے، آنکھیں سُرخ ہو جاتی ہیں، پھر وہ آہستہ آہستہ آواز پیدا کئے بغیر شکار کی طرف بڑھتا ہے اور اس پرجھپٹ پڑتا ہے۔ گیدڑ نے کہا کہ یہ کون سی بڑی بات ہے؟ یہ سب کچھ تو میں بھی کر سکتا ہوں۔ اتنے میں سامنے سے شیر آتا دکھائی دیا۔ گیدڑ نے کہا کہ آج شیر کا ہی شکار کروں گا۔وہ زمین سے چپک گیا۔ لومڑی سے پوچھا کہ کیا دُم اکڑ گئی ہے، آنکھیں سرخ ہو گئی ہیں؟ پھر لومڑی نے کہا کہ ہاں دم اکڑ گئی، آنکھیں سرخ ہو گئی ہیں، حملہ کر دو گیدڑ نے آہستہ آہستہ زمین پر آگے کی طرف کھسکنا شروع کیا۔ شیر سامنے آیا تو اس پر چھلانگ لگا دی۔ شیر بہت حیران ہوا، اس نے ایک پنجہ مارا اور گیدڑ ہوا میںاڑتا ہوا بہت دور جا گرا! واپس لومڑی کے پاس آیا۔ سخت غصے میں کہنے لگا کہ ’’تم نے میرے خلاف سازش کی ہے، دُم تو واقعی اکڑ گئی تھی مگر آنکھیں ابھی سُرخ نہیں ہوئی تھیں کہ تم نے حملہ کرا دیا

سینٹ کی بکرا منڈی میں ووٹوں کی خریداری کا دھندا مزید تیز ہو گیا گزشتہ روز درخواستیں جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی۔ 52 خالی نشستوں کے لئے 100 سے زیادہ امیدواروں نے الیکشن کمیشن میں درخواستیں جمع کرائیں۔ ایک درخواست کی رجسٹریشن فیس 40 ہزار روپے تھی۔ یوں الیکشن کمیشن کو بیٹھے بٹھائے 40 لکھ روپے سے زیادہ کی آمدنی ہو گئی۔ ابھی دوسرامرحلہ شروع ہو گا کہ ٹکٹ کے امیدواروں کی نامزدگی کے لئے پارٹیوں کے ٹکٹوں کی نیلامی ہو گی۔ کروڑوں کی بولیاں لگیں گی۔ پھر سینٹ کی بکرا منڈی میں بکروں کی خریدوفروخت کے لئے اربوں کی سرمایہ کاری ہو گی۔ اس سرمایہ کاری کا اندازہ یوں لگ سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے اپنے درخواست گزاروں سے بذریعہ بنک ڈرافٹ فی کس ایک لاکھ روپے کی فیس آصف زرداری کے نام پر وصول کی۔ اس کاروبار کا ایک دلچسپ واقعہ: پیپلزپارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر کے پاس صرف 32 ہزار روپے تھے جبکہ الیکشن کمیشن کی فیس 40 ہزار روپے تھی۔ بابر صاحب بہت پریشان تھے۔ اس موقع پر موجود پیپلزپارٹی کے ارکان نے چندہ جمع کیا۔ پھر بھی کچھ کمی رہ گئی اور ایک شخص نے 50 روپے دے کر یہ کمی پوری کر دی۔ اب دوسری طرف: کراچی کے ایک بڑے صنعت کار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ وہ ووٹ خریدنے کے لئے ایک ارب روپے خرچ کرنے کو تیار ہے۔ اس نے کہا کہ ایک ارب خرچ کرکے 50 ارب کما لئے جائیں تو اس سے زیادہ کامیاب کاروبار اور کیا ہو گا؟ اس کے مطابق یہ آمدنی نقد نہیں ہوتی۔ مختلف بڑے ٹھیکے، درآمد برآمد کے لائسنس، نئی صنعتوں کے لئے بنکوں سے بھاری قرضے ٹیکسوں کی چھوٹ، بیرون ملک سرمایہ کاری کے مواقع اور دوسرے بہت سے طریقے ہوتے ہیں۔

٭ ایک اہم بات کہ ن لیگ نے اس بار راجہ ظفرالحق اور پیپلزپارٹی نے رحمان ملک کو امیدوار نامزد نہیں کیا۔ راجہ ظفر الحق 30 برسوں سے مسلسل سینٹ کے رکن رہے ہیں۔زیادہ اہم یہ کہ وہ ن لیگ کے چیئرمین بھی ہیں۔ ان کی عمر 87 برس ہونے والی ہے۔نوازشریف کے والد میاںمحمد شریف ان کے دوست تھے۔ وہ راجہ صاحب کا بہت خیال رکھتے تھے۔ نوازشریف بھی ان کا بہت احترام کرتے رہے مگر بلاول زرداری کی طرح مریم نواز کے اچانک اپنی پارٹی ن لیگ کی والی وارث بن جانے کے بعد دونوں پارٹیوں نے بزرگ رہنمائوں سے نجات حاصل کرنے کا وہی طریقہ استعمال کیا ہے جو بے نظیر بھٹو نے 1988ء میں اقتدار میں آتے ہی اختیار کیا کہ بزرگ و سینئر رہنمائوںڈاکٹر مبشر حسن، ملک معراج خالد، احسان الحق اور رانا شوکت محمود جیسے دیرینہ سینئر رہنمائوں کو مکمل طور پر نظرانداز کر کے نوجوان فرماں برداروں میں حکومت بانٹ دی! راجہ ظفر الحق تو ایک عرصے سے ویسے ہی گوشہ نشین دکھائی دے رہے تھے، 3 میں نہ 13 میں! کسی جلسے جلوس میں مریم نواز کی طرح فوج اور حکومت کو گالیاں دیتے دکھائی نہ دیئے۔ یہی حال رحمان ملک کا ہے۔ بے نظیر بھٹو کے بہت قابل اعتماد قریبی ساتھی تھے۔ عمر تقریباً 70 سال ہونے والی ہے۔ بہت سمجھدار، معتدل مزاج، رواداری، مفاہمت اور فوج کے ساتھ اچھے تعلقات کے حامی! یہ باتیں شعلہ زبان نئے نئے نوجوان بلاول کو کیسے گوارا ہو سکتی تھی سو رحمان ملک بھی فارغ!! ہر وقت آتش بدست ان دونوں سیاسی نوجوان سیاسی کرداروں نے وہی کام کیا جو بے نظیر بھٹو نے کیا کہ ’’انکل‘‘ ہدائت کاروں کو اپنے پاس نہ آنے دیا۔ مگر پھر ان پارٹیوں کا کیا حشر ہوا اور ہو رہا ہے! تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ پنجاب اسمبلی میں دو تہائی سے زیادہ نشستوں والی پیپلزپارٹی کی اب صرف 7 نشستیں۔

٭پاک بحریہ کا عظیم کارنامہ! دنیا بھر میں امن کے قیام اور دہشت گردی کے انسداد کے لئے مشترکہ بحری مشقوں میں دنیا کے اہم ترین 44ملکوں کو شریک کر لیا۔ پاک بحریہ اس سے قبل چھ ایسی مشقیں کر چکی ہے۔ اس بار ان مشقوں میں امریکہ، کوریا، برطانیہ، جاپان، روس، چین، ترکی، کینیڈا، جرمنی، سعودی عرب اور دوسرے اہم ممالک کی افواج کے دستے شریک ہوئے۔ بھارت شریک نہیں ہوا، اسے ہونا بھی نہیں تھا۔ پاکستان، آزادکشمیر کی سرحدوں پر 24 گھنٹے فائرنگ کرنے والا پاکستان کا دشمن کیسے شریک ہو سکتا تھا؟ یہ چھ روزہ مشقیں آج ختم ہو جائیں گی۔ ایک سیدھی صاف بات کہ دنیا بھر کے اہم ترین ممالک کی پاکستان کے ساتھ یک جہتی کا یہ مظاہرہ کیا خود کو عقلِ کل اور ملک کا نمبردار سمجھنے والے ان اینکر پرسنوں اور کالم نویسوں کو اب بھی پاکستان تنہا دکھائی دیتا ہے؟ پتہ نہیں یہ لوگ پاکستان میں کس طرح رہ رہے ہیں، کہیں اور کیوں نہیں چلے جاتے؟ میں نہائت کامیاب 44 ملکوں کی پاکستان کے ساتھ نہائت کامیاب بحری مشقوں پرپاک بحریہ کو سلام کرتا ہوں!

٭شکر ہے کراچی اورلاہور کے شہریوںپرکرکٹ میچوں کا عذاب ختم ہوا۔ منیر نیازی نے خوبصورت بات کہی کہ ’’شباب ختم ہوا، اک عذاب ختم ہوا‘‘ ان دو شہروں میں ان میچوں کے نام پر جس طرح کئی دنوں تک بے شمار سڑکیں، ٹریفک بند رکھی گئی، لوگوں کو گھروں سے ’گھربدر‘ ہونا پڑا۔ ملک میں کرونا کی وبا پھیلی ہوئی، روزانہ اموات، نئے کیس اور کرکٹ کے شہ نشینوں پر کرکٹ کے میچوںکی وبا سوار!…شکر ہے وبا ٹلی!!

٭مریم نواز کی زبان زیادہ کھلتی جا رہی ہے، ایک حالیہ تقریر میں کہا ہے کہ ’’ہماری جنگ عمران خان سے نہیں، فوج سے ہے!‘‘ اس پر کوئی تبصرہ فضول ہے۔ حضرت میاں محمد بخشؒ کا کلام یاد آ رہا ہے کہ ’’لِسّے دا کم گالی دینا…‘‘ یعنی کمزور شخص کے بس میں اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ گالی دے کر بھاگ جائے! فوج کے خلاف ہذیان پر فوج خاموش رہتی بلکہ ہنستی رہتی ہے۔ میں نے ایک فوجی عزیز سے پوچھا کہ فوج کے بارے میں توہین آمیز باتیں آئین کی دفعہ 63 اے کے تحت سنگین جرم قرار پاتی ہیں، فوج اپنے خلاف ہرزہ سرائی پر خاموش کیوں رہتی ہے۔؟ اس کا جواب خاصا معنی خیز تھا کہ جناب! مرے ہوئوں کو مارنے کا کیا فائدہ؟ اس پرمجھے پرانا لطیفہ یاد آ گیا۔ ایک گیدڑ نے لومڑی سے کہا کہ شیر کے جنگل کے شکار کرنے کی خاص بات کیا ہے جو مجھ میں نہیں۔ لومڑی نے کہا کہ شیر شکار کرنے سے پہلے اپنا جسم زمین پر چپکا لیتا ہے، اس کی دُم کھڑی ہو جاتی ہے، آنکھیں سُرخ ہو جاتی ہیں، پھر وہ آہستہ آہستہ آواز پیدا کئے بغیر شکار کی طرف بڑھتا ہے اور اس پرجھپٹ پڑتا ہے۔ گیدڑ نے کہا کہ یہ کون سی بڑی بات ہے؟ یہ سب کچھ تو میں بھی کر سکتا ہوں۔ اتنے میں سامنے سے شیر آتا دکھائی دیا۔ گیدڑ نے کہا کہ آج شیر کا ہی شکار کروں گا۔وہ زمین سے چپک گیا۔ لومڑی سے پوچھا کہ کیا دُم اکڑ گئی ہے، آنکھیں سرخ ہو گئی ہیں؟ پھر لومڑی نے کہا کہ ہاں دم اکڑ گئی، آنکھیں سرخ ہو گئی ہیں، حملہ کر دو گیدڑ نے آہستہ آہستہ زمین پر آگے کی طرف کھسکنا شروع کیا۔ شیر سامنے آیا تو اس پر چھلانگ لگا دی۔ شیر بہت حیران ہوا، اس نے ایک پنجہ مارا اور گیدڑ ہوا میںاڑتا ہوا بہت دور جا گرا! واپس لومڑی کے پاس آیا۔ سخت غصے میں کہنے لگا کہ ’’تم نے میرے خلاف سازش کی ہے، دُم تو واقعی اکڑ گئی تھی مگر آنکھیں ابھی سُرخ نہیں ہوئی تھیں کہ تم نے حملہ کرا دیا!!‘‘ قارئین کرام! کیا یہ تبصرہ کافی نہیں؟
 

Syed Haseeb Shah
About the Author: Syed Haseeb Shah Read More Articles by Syed Haseeb Shah: 53 Articles with 33120 views I am Student i-com part2.. View More