آلودہ سیاست اور مسائل سے دوچار عوام․․․!

پاکستان کی سیاست آج اس نہج پر پہنچ چکی ہے ،جہاں تباہی و بربادی،عدم استحکام ،ووٹ کی پامالی اور بد حالی ہر جانب دکھائی دیتی ہے۔ایسی سیاست ہی غیر جمہوری قوتوں سے لے کر نام نہاد جمہوری طاقتوں کو پسند ہے ،کیوں کہ ان کے مفادات کا تحفظ اسی طرح کی طرزِ سیاست میں ممکن ہے،لیکن سنجیدہ اور وطن عزیز سے محبت کرنے والا حلقہ اس طرز سیاست اور نظام کو بالکل پسند نہیں کرتا،وہ ملک میں استحکام ،خوشحالی اور فلاح کا خواہاں ہے،اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ ملک میں حقیقی جمہوریت ہو۔آزاد عدلیہ پاکستان کے استحکام کے لئے لازم ہے،سیاست سے غیر جمہوری قوتوں کے کردار کا خاتمہ ضروری ہے،اس کے ساتھ ساتھ عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ،صوبوں کے حقوق اور اٹھارویں ترمیم کا تحفظ وقت کی ضرورت ہے،مگر بد قسمتی سے حقیقی مسائل سے چشم پوشی کی جا رہی ہے۔

موجودہ حکومت خلائی مخلوق کی مدد سے آپے سے باہر ہو چکی ہے۔ہر اہم موقعہ پر کوئی نہ کوئی ایشو کھڑا کر دیا جاتا ہے ۔جس کی وجہ سے اہم مسائل سے عوام اور دنیا کی توجہ ہٹا دی جاتی ہے۔عوام بھوک سے مر رہے ہے،حکمرانوں کو سینیٹ الیکشن میں اوپن بیلٹ کی فکر کھائے جا رہی ہے۔جمہوریت میں پارلیمنٹ کو بالادستی حاصل ہے ،مگر یہی نام نہاد جمہوری پارٹی صدارتی آرڈینس جاری کرتی ہے،پھر ویڈیو سکینڈل سامنے لایا جاتا ہے۔وزیر اعظم دو برس پہلے دھاڑ دھاڑ کر کہہ رہے تھے کہ میں نوٹ گنتے ہوئے ویڈیو دکھاؤں گا،آج اسی بیان سے یکسر تبدیل ہو تے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے پاس ویڈیو نہیں تھی۔جب ملک کا وزیر اعظم سرِ عام غلط بیانی کرے گا،تو عوام کس پر اعتماد کریں گے۔

ملکی سیاست پہلے ہی مختلف قسم کے الزامات سے آلودہ ہے۔ایک ایسے وقت میں جب سینٹ الیکشن میں ووٹنگ کے طریقہ کار پر سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے،وہاں ڈھائی برس پہلے کی ووٹوں کی خریدو فروخت کی مبینہ ویڈیو منظر عام پر آتی ہے۔جس سے عوام کے ذہنوں میں نہ صرف منتخب نمائندوں بلکہ ساری قیادت پر سوالیہ نشان بنتا ہے۔ایک زمانہ تھا جب سیاست کو عبادت سمجھ کر کیا جاتا تھا،مگر آج کے سیاست دانوں نے اسے کاروبار کا ذریعہ بنارکھا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی قیادت ماضی کی بڑی سیاسی پارٹیز کو چور، ڈاکو اور مفاد پرست کے القاب دیتے نہیں تھکتی ،لیکن ان کا اپنا طرزِ عمل دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے،ماضی کے لوگ فرشتہ لگتے ہیں ۔ملک میں مڈل کلاس ختم ہو چکی ہے،کروڑوں لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کر دیئے گیے ہیں ،بے روزگاری بڑھ رہی ہے ، مہنگائی کا سانپ قابو میں نہیں آ رہا،بدامنی، کرپشن ،لا قانونیت ، انصاف کی عدم دستیابی ،اقرباء پروری جیسے مسائل نے معاشرے کو برباد کر دیا ہے۔لیکن ان کو حل کرنے والے اپنے مفادات کی کھیل میں گم ہیں۔عوام کو بے وقوف بنایا جا رہاہے۔آئی ایم ایف کے تیار کردہ معاشی پالیسیوں نے زندگی کے کسی شعبہ کو بھی نہیں بخشا۔سیاستدانوں کی کم فہمی نے عوام کے لئے مزید تلخی پیدا کی ہے۔آج عالمی سطح پر بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ،اس کے برعکس پاکستان میں صرف نعرے،وعدے اور دعوے کیے جا رہے ہیں ۔
تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کرنے والے عمران خان حکومت نے سیاسی اخلاقیات کا جنازہ ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر وطن عزیز کے جمہوری عمل پر سوالات کھڑے کرنے کا سبب بن رہے ہیں ۔سیاسی عدم استحکام کا یہ عالم ہے کہ ایک جانب اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد نے لانگ مارچ کا فیصلہ کر دیا ہے اور دوسری جانب سرکاری اداروں کے ملازمین نے اسلام آباد کو گھیر رکھا ہے،فارن فنڈنگ کیس نے بھی راتوں کی نیدیں حرام کر رکھی ہیں ۔

حکومت کے نزدیک میاں نواز شریف،میاں شہباز شریف ،آصف علی زرداری ،مولانا فضل الرحمان پر کرپشن ،منی ٹریل کے الزامات لگانا،ان شخصیات کا میڈیا ٹرائل کرنا اور سینیٹ کے الیکشن کو اوپن بیلٹ کروانا، سب سے بڑے مسائل ہیں۔یہ مسائل یقیناً اہم ہیں ،لیکن بہت سے حقیقی مسائل پرحکمرانوں نے جان بوجھ کر آنکھیں بند کر رکھی ہیں ۔جن میں ایک مسئلہ ملک کے لئے ایندھن کا حصول ہے۔

ملک کو چار لاکھ بیرل تیل اور چھے ارب مکعب فٹ یومیہ گیس کی ضرورت ہے،جب کہ پاکستان کی یومیہ پیداوار صرف 90ہزار بیرل تیل اور تین ارب اسی کروڑ مکعب فٹ گیس روزانہ ہے،یہی وجہ ہے کہ پاکستان تیل کے ساتھ گیس بھی درآمد کرنے پر مجبور ہے ۔کرونا کی وجہ سے دنیا کی معشتیں شدید دباؤ کا شکار رہی ہیں،تیل کی طلب کم ہونے کی وجہ سے سستا ہوا ،تب ہم سستے تیل کے مزے لیتے رہے ،لیکن آنے والے دنوں میں پاکستان کی معیشت کا پہیہ نسبتاً تیزی سے گھومے گا، لیکن ادھر عالمی منڈی میں تیل بھی مہنگا ہو رہا ہے ،جس کی وجہ سے صارفین کو پیٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا عذاب جھیلنا پڑے گا۔ہمیں عرصے سے ایندھن میں خود کفالت کے لئے مربوط قومی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت تھی،مگر جہاں غیر سنجیدہ حکمت عملی کے ساتھ ملک کو چلایا جائے۔مسائل کو حل کرنے کی بجائے خود ہی پیچیدہ بنانے کی روش ہو،وہاں مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھیں گے۔جب تک سیاست دان پارلیمانی جمہوریت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوں گے،ملک مستحکم نہیں ہوگا۔اس لئے حکومت کو سیاسی محاذ آرائی سے ہٹ کر عوامی ریلیف کے اقدامات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ،تاکہ عوام کا جمہوری نظام پر اعتماد اور یقین برقرار رہے ۔

 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95132 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.