بھارت بڑی شان سے خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے۔ یہ ڈھنڈورا اس قدر پیٹا گیا کہ مہذب دنیا کو اس پر یقین آ گیا۔ بھارت کا سیکولرازم تو خیر کب کا دھوکا اور فریب ثابت ہو چکا ہے، لیکن بھارتی جمہوریت ایک ایسا جھوٹ تھا جس پر مغرب تو مغرب ہم پاکستانی بھی یقین کیے بیٹھے تھے، خاص کر جب اپنے اپنے ملک میں جمہوریت سے کھلواڑ کے مناظر دیکھتے تو ہم بھارتی جمہوریت پر رشک کرتے تھے، لیکن اب یہ جھوٹ بھی بے نقاب ہو چکا ہے۔
جس دیش میں انتخابات جیتنے کے لیے دھونس، لالچ، مذہبی تعصب اور پڑوسی ملک (پاکستان) کے خلاف پروپیگنڈے سمیت ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہو وہاں جمہوریت کو اس کی حقیقی روح کے مطابق رائج سمجھنا خودفریبی کے سوا کچھ نہیں۔ بھارت میں جمہوریت کا کیا حال ہے، یہ روداد بھارتی اخبار ”نیشنل ہیرالڈ“ کے ایک مضمون کی سرخی نے چند لفظوں میں بیان کر دی، ”Republic Day without a ’Republic‘ “ گویا کوزے میں دریا بند کر دیا۔
اگر تسلسل سے ووٹ دینے کا عمل جاری رہنے کا نام جمہوریت ہے، تو یقیناً ہمارا ہمسایہ ایک جمہوری ملک ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت مذہب کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی اور عوام کے دیگر بنیادی حقوق کی محافظ نہ ہو تو ایک ناٹک کے سوا کچھ نہیں اور اس وقت بھارت میں مذکورہ آزادیاں پا بہ زنجیر اور ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ مذہبی حقوق اور آزادی تو ہندتوا کا عفریت رفتہ رفتہ ہڑپ کر ہی رہا ہے، لیکن حکومت اور ریاست کا اچھا امیج دکھانے کا ہوکا اظہار رائے کا بھی دشمن بن چکا ہے۔ کووڈ 19 کا معاملہ ہو یا سکھ کسانوں کی تحریک، مودی سرکار کی سر توڑ کوشش رہی ہے کہ حقائق کو دبایا اور مسخ کیا جائے۔ چناں چہ اظہار رائے کو دبانے کے لیے تمام جتن کیے جا رہے ہیں۔
ونود کے جوزف بھی اسی جنون کا شکار ہوئے۔ بھارت کے چوٹی کے انویسٹی گیٹیو میگزین ”کاروان“ کے مدیر ونود یکم فروری کو جب ٹویٹر پر لاگ آن ہوئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کے میگزین کا اکاؤنٹ بلاک کیا جا چکا ہے۔ انہیں پہلے ہی ”بغاوت“ سمیت مختلف الزامات کا سامنا تھا، یہ افتاد ایک نئی پریشانی بن کر سامنے آئی۔ ان الزامات کا سبب ”کاروان“ کی طرف سے کسانوں کی تحریک کی کوریج تھا۔ زرعی قوانین کے خلاف سڑکوں پر آنے والے کسانوں نے بھارتی یوم جمہوریہ پر جوں ہی رکاوٹیں توڑنے کے لیے دارالحکومت دہلی میں قدم رکھا، بھارتی سرکار ان مناظر کو مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر آنے سے روکنے کے لیے سرگرم ہو گئی۔
صحافیوں کو ان مناظر کی کوریج سے روکنے کے لیے ایک طرف بھارتیہ جنتا پارٹی کی فاشسٹ حکومت نے پارٹی کے کارکنوں اور حامیوں کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی کے خلاف مظاہروں کا اہتمام کیا دوسری طرف ٹویٹر کے ان اکاؤنٹس کی بندش کا سلسلہ شروع کر دیا جو اس حوالے سے حقائق سامنے لا رہے تھے۔ آناًفاناً سیکڑوں ٹویٹر اکاؤنٹس سرکار کی زبان بندی مہم کا نشانہ بن گئے، جن میں خبر رساں ویب سائٹس، ایکٹیوسٹس اور احتجاج کرنے والے کسانوں کی یونین کے اکاؤنٹ سرفہرست ہیں۔
علاوہ ازیں اس احتجاج کی کوریج کی پاداش میں کم ازکم 9 ”آف لائن“ صحافیوں کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بی جے پی کے وزراء نے ساری صورت حال کی ذمہ داری صحافیوں اور حزب اختلاف پر ڈال دی اور کہا کہ انھوں نے غیرمصدقہ رپورٹنگ اور ٹویٹ کر کے قومی یک جہتی کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس الزام کے تحت ”ملزمان“ پر جو مقدمات قائم کیے گئے ان کی سزا پندرہ سال قید تک ہو سکتی ہے۔
بھارت میں اظہار رائے پر بغاوت کے مقدمات قائم کرنے کی روایت خاصی پرانی ہے، لیکن مودی حکومت متعلقہ قوانین کو جس طرح اندھادھند استعمال کر رہی ہے وہ یقیناً نیا ہے۔ اس حکومت میں ایسے مقدمات بنانے کی تعداد تیس فی صد بڑھ چکی ہے۔ صحافت سے وابستہ عالمی تنظیموں اور انسانی حقوق کی تنظیم نے ان اقدامات کی مذمت کی، لیکن بھارتی حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مودی کے زیرسایہ بھارت میں عدم برداشت کا رویہ ہر روز بڑھتا جا رہا ہے، جس کے باعث آزاد صحافت کے عالمی انڈیکس میں بھارت ہر سال نیچے گر رہا ہے۔ 2020 میں اس فہرست میں بھارت 180 ممالک میں 142 نمبر پر تھا۔ ”رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز“ کا کہنا ہے کہ صحافیوں پر پولیس کا تشدد اور ہندو قوم پرست حکومت کا میڈیا پر سرکاری بیانیے کے فروغ کے لیے دباؤ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے اس رینکنگ میں بھارت گراوٹ کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔
سرکاری بیانیے کی تشہیر کے لیے دباؤ صرف میڈیا تک محدود نہیں، بالی وڈ سے وابستہ شخصیات بھی جبر کی بیڑیاں پہن کر مودی حکومت کی آلۂ کار بن چکی ہیں۔ گزشتہ دنوں جب امریکی پوپ اسٹار ریحانہ اور ماحولیات کے لیے سرگرم کم عمر ایکٹیوسٹ گریٹا تھنبرگ نے سوشل میڈیا پر بھارت میں احتجاج کناں کسانوں سے اظہار یک جہتی کیا تو بھارتیوں کو آگ لگ گئی۔ بھارت کی وزارت خارجہ نے اس کا ردعمل تو دیا ہی، ساتھ ہی لتامنگیشکر سے لے کر اکشے کمار تک کتنی ہی بالی وڈ کی شخصیات بھی میدان میں کود پڑیں، جن کے ٹویٹس میں حیرت انگیز مماثلت نے بھانڈا پھوڑ دیا اور یہ حقیقت عیاں ہو گئی کہ وہ یہ سب دیے گئے اسکرپٹ کے مطابق کر رہے تھے۔
بھارت میں سچ بولنے اور صحافتی ذمہ داریاں پوری کرنے پر تو قدغنیں لگ ہی چکی ہیں، لیکن اس دیش میں اب ہنسنا اور ہنسانا بھی منع ہے، جس کا ثبوت مسلمان کامیڈین منور فاروقی سے ہونے والا سلوک ہے۔ نوجوان اسٹینڈ اپ کامیڈین اور لکھاری منور فاروقی پر الزام لگا کہ انہوں نے مزاح کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندو دیوتاؤں کا مذاق اڑایا ہے۔ انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ پھر انہیں پینتیس دن بعد ضمانت پر رہائی نصیب ہوئی۔ منور فاروقی کا کہنا ہے کہ پولیس نے انھیں گرفتار کرنے سے قبل نہ ان کے خلاف عائد الزام کی تحقیق کرنے کی زحمت گوارا کی نہ ہی کوئی ثبوت حاصل کرنے کی کوشش کی۔
جس ملک میں عدم برداشت اور دباؤ کا یہ حال ہو وہاں سچ، فن، ادب، سیاست، صحافت سب جمود کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بھارت بھی ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے اور انسان دوست اور وسیع النظر بھارتی دانش ور اور شہری دلوں میں اندیشے اور آنکھوں میں خوف لیے بے بسی سے یہ سارا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ |