وزیر اعظم الفاظ کے بازیگر ہیں ۔ وہ اور حواری اپنے
مخالفین کو کبھی ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ کا نام دیتے ہیں تو کبھی’خان مارکیٹ گینگ‘
کہہ کر پکارتے ہیں ۔ اس پر اطمینان نہیں ہوتا ’اربن نکسل‘ کا نام دے کر
بدنا م کرتے ہیں ۔ ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ کی تفصیلات کے بارے میں جب ایوان
پارلیمان میں تفصیل طلب کی جاتی ہےتو وزارت داخلہ کی جانب سے جواب ملتا ہے
کہ ملک میں ایسی کسی گینگ کا وجود نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جو شئے موجود
ہی نہ ہو اس سے منسوب کرکے اپنے مخالفین کو بدنا م کرنا کیا معنیٰ ؟ لیکن
اول تویہ سوال کوئی پوچھتا نہیں ہے اور اگر پوچھنے جرأت کرے تو اس کا جواب
دینے کے بجائے اسے گالیاں دی جاتی ہیں ۔ ٹوئیٹر پر ٹرول کیا جاتا ہے ۔ اس
مقصد کی خاطر ایک ٹرول آرمی تیار کی گئی ہے جو پیسے لے کر گالیاں اور
دھمکیاں دیتی ہے ۔ بالآخر اس غریب پر دیش دروہی ( غدارِ وطن ) کا الزام
دھر دیا جاتا ہے ۔ اس کو پاکستان یا چین وغیرہ سے جوڑ کر ملک دشمن قرار دے
دیا جاتا ہے ۔ وقت ضرورت ان کو جیل بھی بھیج دیا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی
مثال دہلی فساد میں کپل شرما جیسے لوگوں کو بچا کر عمر خالد جیسے بے قصور
لوگوں کو جیل کی سلاخوں پیچھے بھیج دینا اور دوسری مثال یلغار پریشد کے
سماجی کارکنوں پر وزیر اعظم کے قتل کا الزامڈھ دینا ہے۔
دو سال قبل یلغار پریشد کے بعد پونے کی پولیس نے دہلی کے رہنے والے سماجی
کارکن رونا ولسن کے گھر پر چھاپہ مارا اور ان کا کمپیوٹر ضبط کرکے چند نام
نہاد شواہد کی بنیاد پر سنگین الزامات لگادیئے۔ ولسن کی گرفتاری
کےتقریباً22 مہینے بعد امریکہ کی ایک معروف اور قابلِ اعتماد ڈیجیٹل
فارینسک فرم آرسینل کنسلٹنگ نے اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا کہ اس کمپیوٹر
کو سائبر حملہ کرکے کسی ہیکر نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ ولسن کے لیپ ٹاپ
میں کم سے کم دس ’مجرمانہ ‘خطوطاس ہیکر نے ڈالے اور انہیں کی بنیاد پر
گرفتاری عمل میں آئی ۔ پونے کی پولس نے ولسن کے ساتھ 15 بے قصور نام نہاد
’اربن نکسلائیٹ‘ کے گروہ جیل بھیج دیا ۔ اب جبکہ وزیر اعظم کے قتل کی سازش
ہی مشکوک ہوگئی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان دانشوروں کو پھنسانے کی
سازش کس نے اور کیوں رچی تھی؟ دراصل اس طرح کی بزدلانہ سازش وہی لوگ رچتے
ہیں جن کے اندر اپنے مخالفین کا نظریاتی سطح پر مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں
ہوتی یا جو اقتدار کی ہوس میں پاگل ہوجاتے ہیں ۔
یلغار پریشد کے متعلقین کے خلا ف کی جانے والی سازش کا اشارہ یوں بھی ملتا
ہے کہ تفتیش کی شروعات پونے پولیس نے کی لیکن جیسے ہی ریاست میں بی جے پی
کی سرکار گری مقامی پولس کو درمیان سے ہٹا کر معاملہ این آئی اے کو یہ
معاملہ سونپ دیا گیا ۔ اس بوکھلاہٹ کی وجہ آرسینل کنسلٹنگ کی رپورٹ میں
سامنے آگئی۔ آرسینل کے مطابق سائبر حملہ آور نے ولسن کے کمپیوٹرسے
تقریباً چار سال تک اور ان کے ساتھیوں کی 22 مہینوں تک نگرانی کرکے ملزمین
کی جانکاری کو شیئرکیا۔ اس مدت کار کو گرفتاری سے جوڑ کردیکھا جائے تو یہ
کام 2015 میں شروع ہوا تھا۔ اب یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ اس وقت دہلی کا
اقتدار کس کے قبضے میں تھا ۔
آرسینل کی رپورت سے پتہ چلا کہ ولسن کے کمپیوٹر پرمبینہ طور پرکل 13 ایسے
خطوط ڈالے گئے تھے، جن کی بنیادپر وکیل سدھا بھاردواج،ماہر تعلیم آنند
تیلتمبڑے ،شاعر ورورا راؤ جیسے ملزمین کی اس جرم میں شمولیت دکھائی
گئی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ 16 اپریل 2018 کی شام چار بج کر پچاس منٹ پر
کمپیوٹر سے آخری بارچھیڑ چھاڑ کی گئی اور اس کےاگلے دن 17 اپریل 2018
کوصبح 6 بجے ولسن کے گھر پرجانچ افسر شیواجی پوار کے ساتھ پونے پولیس کا
دہلی میں منریکا پہنچ کر چھاپہ مارا۔ اسی کے ساتھ یہ سلسلہ بند ہوگیا ۔ کیا
اس شکوک و شبہات نہیں پیدا ہوتے ؟
اس معاملے میں معروف ویب سائیٹ دی وائر کے دلیر صحافی عرصۂ درازسے
انتظامیہ کو کٹہرے میں کھڑا کررہے ہیں ۔ دسمبر2019 میں انہوں نے ولسن کے
خلاف پولیس کے ڈیجیٹل شواہد کی کئی خامیوں کو اجاگر کی تھیں ۔اس قضیہ کی
ابتداء میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ’اربن نکسلس‘ کا ایک گروہ ’راجیو گاندھی کے
قتل‘ کی طرزپر وزیر اعظم نریندر مودی کے قتل کا منصوبہ بنا رہا ہے۔یہ
انکشاف بھی کیا گیا کہ اس مبینہ سازش کی معلومات ولسن کےضبط شدہ لیپ ٹاپ پر
ملی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ 17 اپریل سے 6 جون تک کوئی گرفتاری عمل میں
نہیں آئی اور پھر اچانک رونا ولسن سمیت سریندر گاڈلنگ، سدھیر دھاولے، مہیش
راؤت اور شوما سین کو گرفتار کرلیا گیا۔
آرسینل کی رپورٹ میں ہونے والے انکشافات کے بعد دفاعی فریق کے وکیل مہر
دیسائی نے بامبے ہائی کورٹ میں عدالتی نگرانی کے تحت ایک ایس آئی ٹی کی
تشکیل کرکے ازسرِ نو تفتیش کرنے کی درخواست دائر کی ہے۔ان کے مطابق حقوق
انسانی کے کارکن ہمیشہ سے یہ کہتے آئے ہیں کہ یلغار پریشد کا معاملہ جانچ
ایجنسیوں کے ذریعہ گھڑاجانے والا ’جھوٹ‘پر مبنی افسانہ ہے۔اس کی چونکہ کوئی
حقیقت نہیں ہےاس لیے ملزمین کو نہ صرف فوراً رہا کیا جائے بلکہ معاوضہ بھی
دیا جا ئے۔مہر دیسائی پرامید ہیں کہ یہ ملزم بہت جلد رہا ہوجائیں گے ۔
چار سال قبل اربن نکسل کی فریبی اصطلاح گھڑ کر مخالف نظریات کے حامل جن
دانشوروں کو پھنسانے کی سازش رچی گئی تھی ، اس کا بھانڈا تو بیچ چوراہے پر
پھوٹ گیا ہے لیکن دہلی فساد کا ظلم و جور ہنوز جاری وساری ہے۔ اس بابت
معروف سماجی جہدکار ہرش مندر کی جانب سے دائر کردہ ایک شکایت پردہلی کی ایک
عدالت نے پولیس کو کارروائی رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ بھارتیہ جنتا
پارٹی کے رہنما کپل مشرا کے خلاف بے شمار شواہد موجود ہیں ۔ ان کی ویڈیو
اور کئی بیانات ہیں ۔ ان پر کارروائی کا حکم دینے والے ایک جج کا تبادلہ
کیا جاچکا ہے لیکن ہنوز ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی ۔ مذکورہ شکایت میں
ایف آئی درج کرنے کی گزارش کی گئی ہے۔
شمال -مشرقی دہلی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد ہرش مندر نے
پچھلے سال دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ پر دستک دی تھی اور فی الحال اس پر
سماعت جاری ہے۔ اس فساد میں53 لوگوں کی موت ہو گئی تھی اور متعدد لوگ زخمی
ہوئے تھے۔ بے شمارمالی نقصان کا تو اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اس بات
میٹروپولیٹن مجسٹریٹ ہمانشو رمن سنگھ نے 29 جنوری کو دیئے جانے والے ایک
آرڈر میں کہا، ‘چونکہ معاملہ پہلے ہی ایک بار دہلی ہائی کورٹ میں جا چکا
ہے، اس لیےعدالت متعلقہ ڈی ایس پی سے رپورٹ مانگنے مناسب سمجھتی ہے ۔ اس
کارروائی کے تقریباً ایک ماہ یعنی ۹ مارچ کورپورٹ منگوائی گئی ہے۔
کپل مشرا کے خلاف ہرش مندر کی یہ شکایت سی اےاے-این آرسی- این پی آرمخالف
احتجاج پر تشددکی حوصلہ افزائی کرکے فساد بھڑ کانے کی مجرمامہ سرگرمیوں میں
ملوث ہونے کی ہے۔ مشرا پر عوامی نقصان کے ارادے سے اشتعال انگیز بیان
دینےاور نشرکرنے کو لے کر ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمر خالد جیسے بے قصور لوگوں کے بجائے کپل مشرا کو
ازخود گرفتار کرلیا جاتا لیکن امیت شاہ کے تحت کام کرنے والی اس کی ہمت
نہیں جٹا سکی اور اس معمولی کام کے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ستمبر 2020 میں دہلی پولیس نے اپنے چارج شیٹ میں یہ
کہہ دیا کہ جولائی کے آخری ہفتے میں جب دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے شمال
؍مشرقی دہلی میں ہونے والے فسادات کی بابت جب پوچھ تاچھ کی تو اس نے دعویٰ
کیا کہ وہ اس علاقے میں معاملے کو سلجھانے کے لیے گیا تھا حالانکہ ویڈیو کے
اندر یہ دھمکی دیتا ہوا نظر آتا ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ہندوستان
میں رہنے تک ہم علاقے کو پرامن چھوڑ رہے ہیں۔ اگر تب تک سڑکیں خالی نہیں
ہوئیں تو ہم آپ کی(پولیس)بھی نہیں سنیں گے۔ ہمیں سڑکوں پر اترنا پڑےگا۔
پولس کا ان شواہد کے بجائے ملزم کے بیان پر آنکھ موند کر یقین کرلینا تعجب
کی بات ہے لیکن شاہ جی ہیں تو کچھ بھی ممکن ہے۔ دہلی تشدد پرسب سے زیادہ
قابل اعتبار رپورٹ دہلی اقلیتی کمیشن کی ہے ۔ اس رپورٹ میں شواہد کی بنیاد
پر یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ دہلی کے فرقہ وارانہ فساد کی شروعات کپل مشرا
کی تقریر سے ہوئی تھی، اس کے باوجود ان کے خلاف کسی معاملہ کا درج نہ ہونا
پولس کی جانچ کے امتیازی ہونے کا ثبوت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے مسلمانوں کے
زیادہ جانی و مالی نقصان کے باوجود انہیں کی زیادہ گرفتاریاں ہوئیں ان کے
خلاف ہی بیشتر چارج شیٹ دائر کیگئیں۔یلغار پریشد اور دہلی فساد پر تو امیر
قزلباش کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا
|