وزیر اعظم مودی کی جدید ترین ایجاد ’آندلن جیوی‘ نامی
اصطلاح ہے۔یہ چونکہ ایک نئی شئے تھی اس لیے اسے پیش کرنے سے قبل وزیراعظم
نے سماں بناتے ہوئے پہلے ایک ہم وزن لفظ ’بدھی جیوی‘ کا حوالہ دیا ۔ ہندی
زبان میں یہ لفظ دانشور کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس سے اچھے معنیٰ نکلنے کا
امکان پیدا ہوگیا اس لیے لیکن اپنے مخالفین کو بدنام کرنے کے لیے انہوں نے
پھر ’پرجیوی‘ یعنی طفیلی(parasite) کا استعمال کیا اور اس کو ’آندولن
جیوی‘ سے جوڑ دیا۔کسان رہنماوں کے ساتھ یہ تمسخر اڑانے والا نہایت تو ہین
آمیز سلوک تھا اس لیے کہ طفیلی پودوں کی جڑ نہیں ہوتی ۔ وہ کسی اور کے
سہارے جیتے ہیں اوردوسروں سے غذا اور پانی حاصل کرکے پھلتے پھولتے ہیں ۔ اس
بابت کوئی کنفیوژن نہ ہو اس لیے وزیر اعظم مودی نے یہ وضاحت کی کہ ایک نئی
برادری سامنے آئی ہے ۔ اس جماعت کے لوگ ہر مظاہرے میں پہنچ جاتے ہیں چاہے
وہ طلباء کا احتجاج ہو یا وکلاء کا ۔ وہ لوگ کبھی سامنے اور کبھی پیچھے سے
تحریکات لگے رہتے ہیں اس کے بغیر جی نہیں سکتے ۔
کسان تحریک کو بدنام کرنے کے لیے سنگھ پریوار نے پہلےبے شمار ہتھکنڈے
استعمال کیے ۔مثلاً ابتدا میں انہیں خالصتانی کہا گیا ۔ اس کے بعد اسے
پاکستان کی آئی ایس آئی کا آلۂ کار قرار دینے کی کوشش کی گئی۔
نکسلوادیوں سے جوڑ کر چین نواز تک کہہ دیا گیا ۔ تحریک کی بدنامی کے لیے
اپنے کچھ لوگ اس میں شامل کرکے ان سے لال قلعہ پر نشان صاحب کا سکھ جھنڈا
لہرا یا دیا۔ تحریک کے رہنماوں میں پھوٹ ڈالنے کی کئی کوششیں کی گئیں لیکن
جب ان سب میں ناکامی ہاتھ لگی تو بالآخر رہنماوں کو بدنام کرکے انہیں
کسانوں سے کاٹنے کے لیے یہ گھناونی اصطلاح گھڑی گئی۔ ویسے تو آندولن جیوی
نامی اصطلاح کے گھڑنے کا بنیادی مقصد تو مخالفین کی بدنام کرنا تھا مگر وہ
حرکت خود وزیر اعظم کی بدنامی کا سبب بن گئی۔
وزیر اعظم کے اس نازیبا فقرے پر ایسے ایسے تبصرے کیے گئے اور اس قسم کے
سوال اٹھائے گئے کہ بی جے پی والوں کا منہ چھپانا مشکل ہوگیا ۔ لوک سبھا کے
اندر خود وزیر اعظم کو اس کی نقصان بھرپائی (damage control) کی مشق کرنی
پڑی ۔ اس دشنام طرازی کے ویسے تو بہت سارے جوابات سامنے آئے مگر سب سے
اچھا جواب کسان رہنما راکیش ٹکیت کا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم آندلن کرتے
ہیں یعنی تحریک چلاتے ہیں اور وہ جملہ بازی کرتے ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ
وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ملک میں ایم ایس پی پر قانون بنے گامگر وہ محض
جملے بازی تھی۔ اس جواب کے اندر لفظ جملہ کا استعمال امیت شاہ کی پہچان بن
گیا ہے ۔ ان سے جب ایک انٹرویو میں انتخاب سے قبل کیے جانے والے 15لاکھ
روپئے کے وعدے سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا تھا ’وہ تو صرف ایک
انتخابی جملہ تھا‘۔ اس کے بعد یہ جملہ بی جے پی کا پیچھا کرتا رہتا ہے۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ وزیر اعظم کا جواب راکیش ٹکیٹ نے مہابھارت کے میدان جنگ
کروکشیتر کے اندر کسان مہا پنچایت میں خطاب کرتے ہوئے دیا۔ بھارتیہ کسان
یونین کے رہنما نے اعلان کیا کہ اب چار لاکھ نہیں بلکہ چالیس لاکھ ٹریکٹرز
کی ریلی نکلے گی، ہم تحریک چلانے والے جملے باز نہیں ہیں یعنی ان کی طرح بے
اعتبار نہیں بلکہ قابل اعتماد لوگ ہیں ۔ ہم جو کہتے ہیں وہ کرکے دکھاتے ہیں
اور اب تک تو یہ ہوا ہے۔ راکیش ٹکیت نے راجیہ سبھا میں وزیراعظم نریندر
مودی کی اس یقین دہانی کو گمراہ کن ٹھہرایا کہ ’’ ایم ایس پی تھی، ایم ایس
پی ہے اور ایم ایس پی رہے گی‘‘ ۔ اس فلمی قسم کے مکالمہ پر انہوں نے ایک
ٹویٹ میں لکھا کہ ’’ایم ایس پی دو ریاستوں کے علاوہ نہ تھی، نہ ہےاور نہ
رہے گی۔‘‘ٹکیت نے ایم ایس پی پر قانون بنانے کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا
کہ کسان تینوں قوانین کے ساتھ ایم ایس پی کی قانونی ضمانت کے اپنے مطالبے
سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
راکیش ٹکیت نے پوچھا کہ وزیراعظم نے یہ تو کہا کہ ایم ایس پی ہے اور رہے گا
مگر انہوں نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ قانون بنایا جائےگا یا نہیں بنایا جائے
گا؟ انہوں نے یاد دلایا کہ ملک یقین دہانیوں پر نہیں چلتا، وہ آئین اور
قانون پر چلتاہے۔ ٹکیت نے واضح کیا کہ اس ملک میں بھوک پر تجارت نہیں ہوگی،
یہ کوئی طے نہیں کرسکتا کہ بھوک کتنی لگے گی اور ا ناج کی قیمت اس کے مطابق
ہو گی۔ ملک میں بھوک پر تجارت کرنے والوں کو نکال باہر کیا جائےگا۔ اپنی
بات کو سمجھانے کے لیے انہوں نے ہوائی جہاز کے ٹکٹ کی مثال دی کہ رسدو کھپت
کے لحاظ سے ٹکٹ کے دام دن میں تین بار بڑھتے گھٹتے ہیں۔ اناج کے بھاوکو اس
طرح بڑھنے اور گھٹنے نہیں دیا جائے گا۔ کسانوں کی عوامی حمایت کا یعنی
آندلن جیویوں کے تعاون کا ٹکیت نے استقبال کیا۔
وزیر اعظم کو سب سے کرارہ جواب پروفیسر یوگیندر یادو نے دیا جو ہمیشہ سے بی
جے پی کی آنکھ کا نٹا رہے ہیں ۔ انہوں نے آندولن جیوی کے جواب میں
آندولن بھوگی کی اصطلاح کا استعمال کیا ۔ یوگیندر یادو نے اپنے خطاب میں
ان تمام مظاہروں کی یاد دلائی جن میں بی جے پی اور اس کا پرانا اوتار جن
سنگھ مصروف عمل رہا ہے۔ یوگیندر یادو نے مودی کو ان کی سوانح حیات میں
مذکور گجرات کے نونرمان آندولن کی یاد دلا کر پوچھا کہ آپ تو بڑے فخر سے
اس کے ذریعہ اپنی عوامی زندگی کی ابتداء کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ اس وقت دوسروں
کے خلاف تحریک چلانا اچھا تھا اور اب اپنے خلاف احتجاج ہونے لگا تو وہ برا
ہوگیا ۔ گائے کے نام پر اور مندر کی خاطر چلنے والی تحریکات کا بھی یادو نے
حوالہ دیا اور کہا کہ اس میں بھی مودی کی ایک تصویر اڈوانی کے ساتھ دکھائی
دیتی تھی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مودی کی ایودھیا میںدوسرے شیلانیاس
سے پہلے کی کوئی تصویر کبھی نظر نہیں آئی ۔
یوگیندر یادو نے اپنے فیس بک خطاب میں ایمرجنسی کے خلاف چلائی جانے والی
تحریک کی بھی یاد تازہ کی ۔ ایمرجنسی میں جن سنگھ اور آر ایس ایس کے کئی
رہنماوں کو جیل جانا پڑا لیکن مودی جی کا نام اس فہرست میں بھی شامل نہیں
ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ وہ انڈرگراونڈ ہوگئے تھے ۔ انہوں نے وہ بزدلانہ حرکت
کیوں کی ؟ اور انڈر گراونڈ ہوکر کیا کارنامہ انجام دیا ؟یہ تحقیق کا موضوع
ہے۔ ان سولات کا ٹھوس جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس لیے یوگیندر یادو کی
ایجاد کردہ اصطلاح ’آندولن بھوگی ‘ ان پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ یوگیندر
یادو کے مطابق آندولن بھوگی ایک آد ھ تحریک میں نام کے لیے شامل ہوکر
زندگی بھر اس کی ملائی کھاتے ہیں ۔ مودی جی نے بغیر کسی تحریک میں حصہ لیے
غیروں کی چلائی ہوئی اناّ اور رام دیو کی تحریک کا بھی فائدہ اٹھایا اور
اپنے گرو اڈوانی کی چلائی جانے والی رتھ یاترا سے بھی فیضیاب ہو کر اقتدار
پر قابض ہوگئے ۔ اس کے برعکس اگر امیت شاہ کی بات کریں تو وہ رام مندر کی
تحریک میں بھی نظر نہیں آتے ۔ وہ تو اپنے آقا کی جی حضوری کرتے کرتے وزیر
داخلہ بن گئے ۔ یوگیندر یادو نے بڑے فخر سے اعتراف کیا کہ وہ آندولن جیوی
ہیں کیونکہ تحریک میں جیتے ہیں گویا تحریک ہی ان کی زندگی ہے۔
آند ولن جیوی کی مخالفت نے وزیر اعظم کو لوک سبھا میں اپنا دفاع کرنے پر
مجبور کردیا ۔ ا س کوشش میں وزیر اعظم نے ایوان پارلیمان کے اندر کسانوں کی
تحریک کو’ پوتر‘ کہہ کر ایک نیا تنازع کھڑا کردیا ہے۔ مودی جانتے ہیں کہ
اپنی بات کواچھے انداز میں لوگوں تک پہنچانے کے لیے ہندی کے بجائے اردو کا
استعمال کرنا بہترہوتا ہے ۔ اس لیے انہوں نے ’آندلن جیوی ‘ نامی نئی
اصطلاح کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ جماعت اور برادری کے الفاظ استعمال کیے
تھے لیکن کسان تحریک کو پوتر کے بجائے پاک کہہ دینے سے بات کہیں اور چلی
جاتی اس لیے ہندی زبان پر اکتفاء کرلیا۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
وہ تحریک کیونکر پوتر یا مقدس ہوسکتی ہے جس کے مطالبات معقول نہ ہوں ۔ جس
کے رہنما طفیلی لوگ کررہے ہوں اور جس کے اندر خالصتانی ، پاکستانی اور چین
کے حامی نکسلی شامل ہوں ؟ اس عظیم تضاد کا وزیر اعظم کو احساس نہ بھی ہو تو
عوام کو ہے ۔ کسانوں کی تحریک کو وزیر اعظم اگر واقعی مقدس مانتے ہیں تو
انہیں پہلی فرصت میں اپنی انا کو کنارے رکھ کر تینوں قوانین واپس لے لینے
چاہئیں اور ایم ایس پی کے لزوم کا قانون بنا دینا چاہیے ورنہ ان کی کتھنی
اور کرنی کے تضاد انتخابی جملہ شمار کیاجائے گا ۔ کسانوں کے عزم و حوصلہ پر
فیض احمد فیض کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
ہم محنت کش جگ والوں سے جب اپنا حصہ مانگیں گے
اک کھیت نہیں اک دیس نہیں ہم ساری دنیا مانگیں گے
|