سینیٹ انتخابات کا حتمی مرحلہ اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے
کی حکومتی حکمت عملی کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا، قومی اسمبلی میں ترمیم پاس
ہونے کے امکانات معدوم توصدارتی آرڈیننس بھی اعلیٰ عدلیہ کے حکم سے مشروط
ہے، ایوان بالا میں رائے دہی کے لئے کوئی فیصلہ نہ آنے کے باوجود، حکومتی
توقعات ہیں کہ ان کے حق میں فیصلہ آئے گا۔ گذشتہ کئی روز سے مبینہ کرپشن
ویڈیوکے وائرل ہونے کے بعدانتخابی طریقہ کار پر مباحثہ زوروں پر ہے اور جس
طرح وزیراعظم، بلوچستان میں سینیٹ کی نشست کے ریٹ بتا رہے ہیں، اس سے عوام
میں ایوان بالا کے”تقدس“پر سوالیہ نشان اٹھ چکا۔ انسانوں کو گھوڑوں و گدھوں
سے تشبہہ دینا، ویسے بھی معیوب عمل ہے، کیونکہ انسان اپنی تمام تر خامیوں
کے باوجود”اشرف المخلوقات“ ہے۔
2018 کے سینیٹ الیکشن میں خفیہ رائے دہی کے ذریعے اپوزیشن اتحاد کے متفقہ
امیدوار میر محمد صادق سنجرانی 57 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے،جب کہ ان کے
مقابل حکومتی اکثریت ہونے کے باوجود مدمقابل راجہ ظفر الحق 46 ووٹ ہی حاصل
کرپائے تھے، سینیٹ کے انتخابات کا دلچسپ مرحلہ ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب بھی
رہا ، جنہیں چیئرمین کے مقابل54ووٹ ملے،، تو دوسری جانب حکومتی اتحاد کے
عثمان کاکڑ 44 ووٹ حاصل کرسکے۔حکومتی اتحاد کو دونوں نشستوں میں ناکامی کا
سامنا ہوا، گو پاکستان مسلم لیگ(ن) کو اپنی کامیابی کی پوری توقع تھی لیکن
وزیراعظم کی نا اہلی کے بعد، سیاسی جماعت کے سربراہ کی جانب سے دیئے سینیٹ
ٹکٹ کالعدم قرار پائے، لہذان لیگ کے اکثریتی اراکین کو آزاد حیثیت سے سینیٹ
کا الیکشن لڑنا پڑا،یہ بڑا عجیب مرحلہ تھا اور پاکستان مسلم لیگ(ن) قائد
میا محمد نواز شریف کے سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان بھی بنا۔
بظاہر تو قومی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین نے جمہوریت کا بھرم رکھا اور
سیاست کے تلاطم خیز منظر نامے میں، سینیٹ الیکشن کے نتائج پر تحفظات کے
باوجود مثبت پیغام دیا کہ وقت کے سابق و جاری حوادث میں جمہوریت کی جڑیں
مضبوطی کی جانب گامزن ر ہیں۔ اُس وقت یہ عمل سیاسی بلوغت کا مظاہرہ
قرارپایا اور اب پی ڈی ایم میں ن لیگ کے شریک جماعت پی پی پی اور دیگر حزب
اختلاف کی جماعتیں، حکومتی اتحاد کے خلاف یکجا ہیں، لیکن ماضی کے مقابلے
میں اس بار پی پی پی، ن لیگ کے حریف ہونے کے بجائے پی ٹی آئی کی مخالفت میں
ہے، حالاں کہ گذشتہ سینیٹ انتخابات میں ن لیگ نے اعلان کر بھی دیا تھا کہ
اگر پی پی پی، رضا ربانی کو چیئرمین ایوان بالا کے لئے نامزدکرتی ہے تو وہ
اُن کی حمایت کریں گے، لیکن بلوچستان میں ن لیگ کا تختہ الٹنے والوں میں پی
پی پی کا نام مبینہ طور پر سامنے آیا تھا اور سینیٹ کے چیئرمین کے لئے
متفقہ امیدوار کے بجائے ایک ایسی جماعت کے رکن کو مدد دی گئی،جو کسی کے وہم
و گمان بھی نہیں تھا۔موجودہ حالات ثابت کررہے ہیں کہ ماضی کا فیصلہ سیاسی
غلطی یا دباؤ تھا، اگر پی پی پی، نون لیگ کی پیش کش قبول کرلیتی، تو آج
چوتھی قوت مزید مضبوط نہ ہوتی، بلکہ زمینی حقائق مختلف ہوتے، سیاسی عدم
استحکام کا ماحول بھی نہ بنتا،تاہم اس کے باوجود سینیٹ انتخابات کے اہم سنگ
میل کو عبور کرلیا گیا۔
اِس وقت ایوا ن بالا کے انتخابات ماضی کے مقابلے میں مزید ہیجان خیز ہیں
سابق، حکومتی اتحاد کو خفیہ رائے شماری کی وجہ سے اکثریت ہونے کے باوجود
شکست ہوئی تھی، اب عین وقت پر تحریک انصاف اوپن بیلٹ کے ذریعے سینیٹ
انتخابات کرانا چاہتی ہے تو حزب اختلاف ان کے ارادوں کے آگے دیوار ہے،،قوم
ایک بار پھر خلفشار، ذہنی دباؤ اور بے یقینی کے عجیب صحرا میں بھٹک رہی ہے۔
سیاسی فضا قیاس آرائیوں اور پیش گوئیوں سے بوجھل ہوتی جارہی ہے۔ایک طرف
سیاسی اجتماعات، جلسوں، تقاریب میں موجوددہ حکومت کو ہٹانے کے لئے پی ڈی
ایم کا سفر تھکاؤٹ کا شکار ہوچکا ، تحریک کا بیانیہ وقت کے ساتھ ساتھ بہتر
حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے پہلے مرحلے میں ناکام قرارپایا، تاہم پی ڈی
ایم میں شریک جماعتوں کی صفوں میں سیاسی نکتہ نظر کے اختلاف (مفادات)کے
باوجودحکومت کے لئے چیلنجز ختم نہیں ہوئے۔
قبل از وقت انتخابات کے نعرے اب وزیراعظم کی تبدیلی میں ڈھل چکے، لیکن نمبر
گیم یا عمران خان کی خوش قسمتی،کہ اپوزیشن اتحاد انہیں اقتدار کے نصف راستے
تک پہنچانے میں کامیاب ہوچکا ، اس کا کریڈٹ حکومتی اتحاد کے بجائے حزب
اختلاف کو جاتا ہے کیونکہ ان کا باہم دست و گریباں ہونا اور عدم اعتماد کی
فضا کے باعث سیاسی حکمت عملی کاموثر نہ ہونا، قرار دیا جارہا ہے۔ سیاسی
جلسو ں سے کوئی حکومت نہیں گئی، دھرنوں سے بھی ماضی کی حکومتوں کو کوئی فرق
نہیں پڑا تھا، نہ موجودہ حکومت کو پریشانی ہوئی، استعفوں کے آپشن میں سیاسی
سوچ میں پختگی کی کمی واضح طور پر محسوس کی گئی، کیونکہ اجتماعی استعفوں کا
فیصلہ، ہر صورت میں حزب اختلاف کے خلاف ہی جاتا اور اب تو سینیٹ کا
الیکٹرول کالج توڑنے کے بجائے جوڑ توڑ کی سیاسی گرما گرمی کے بعد لانگ مارچ
ہی پی ڈی ایم کے مستقبل کا فیصلہ بھی کرے گا، ایوان بالا کے انتخابات کے
بعد رمضان المبار ک و عید ین و محرم کے مہینوں سے قبل صرف رجب و شعبان کا
درمیانی مہینہ فیصلہ کن ہوگا۔ قومی انتخابات کا آخری برس، ترقیاتی کاموں و
عوامی رابطوں کا سیزن ہوتا ہے، اس لئے سیاسی پنڈتوں کا یہی کہنا ہے کہ
تحریک انصاف کے اگر اپنے اراکین، وزیراعظم کے خلاف بغاوت نہیں کرتے، تو
باقی ماندہ مدت عمران خان با آسانی پوری کرلیں گے، کیونکہ اقتدار کی منتقلی
کا تیسرا دور آنے میں کچھ مہینے ہی رہ جائیں گے۔
ضروری امر یہ کہ اب سیاسی جماعتیں اپنی واضح حکمت عملی سے عوام کو آگاہ
کریں کہ انتخابات شفاف، جمہوری مینڈیٹ، عوامی مسائل، اپنی کارکردگی و منشور
پر کس قدر کامیاب رہے ہیں۔ سینیٹ الیکشن کے تمام انتخابی مراحل کی سرعت اور
آئینی و قانونی حدود و ضابطہ اخلاق کے تحت تکمیل کو اپنے آئندہ لائحہ عمل
کی سیاسی و فکری بنیاد بنا سکتے ہیں۔ یہ تمام جماعتوں کے لئے واضح پیغام ہے
کہ اداروں میں تصادم کی خواہاں باطل قوتوں کو ہر محاذ پر ہزہمت اور خفت سے
دوچار کرنے کے لئے اپنی اَنا و فروعی مفادات کو،سینیٹ کے نتائج کو معیار کے
مطابق ڈھالیں اور جمہوری اقدار کی راہ ہموار کرنے میں جوش و خروش، ذمہ
دارنہ اور آزاد رویے کو بروئے کار لایا جائے،کیونکہ یہی ملک و قوم کے حق
میں بہتر ہے۔ |