سنا ہے کہ جنگل ، پہاڑ اور ندیوں کے سنگم میں واقع ایک
انتہائی خوبصورت وادی میں ایک قبیلہ آباد تھا ۔ قبیلے کے لوگوں نے دیکھا
کہ درختوں سے کچھ ٹپک رہا ہے جس کی اطلاع قبیلے کے بڑوں تک بھی پہنچی اور
انھوں نے اس کا جائزہ لیا ۔ قبیلے کا سردار انتہائی سمجھدار تھا وہ سمجھ
گیا کہ یہ تو شہد ہے اس نے اپنے ساتھیوں کو بتایا اور ایک جار کا انتظام
کرکے اس ٹپکتے شہد کے نیچے رکھ دیا۔ سب بہت خوش تھے کہ ان پر قدرت کا فضل
ہو گیا ہے جس سے وہ نہ صرف اپنی غذائی ضروریات پوری کریں گے بلکہ اس کی
تجارت سے محصول بھی اکٹھا کر سکیں گے۔
مگر قبیلے کے اندر کچھ لوگ سردار کے حاسد بھی تھے انھوں نے جب دیکھا کہ
سردار کی تعریفیں ہو رہی ہیں اور اس کی نیک نامی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے
تو ان کو اور تو کچھ نہ بن پائی انہوں نے افواہیں پھیلانا شروع کردیں کہ جو
جار شہد کو محفوظ کرنے کے لئے استعمال ہو رہا ہے یہ حلال کا نہیں بلکہ حرام
کی کمائی کا ہے۔
افواہیں پھیلنے لگیں اور جزباتی ، جلد باز اور ناسمجھ قبیلے کے کچھ لوگ ان
افواہوں پر اس قدر سنجیدہ ہو گئے کہ سردار کی مخالفت پر اتر آئے قبیلے کے
بڑوں کی طرف سے ان کو بہت سمجھایا گیا کہ فضول باتوں میں الجھ کر اپنا اور
اپنی اولاد کا نقصان نہ کرو بغیر کسی ثبوت ان افواہوں پر عمل نہ کرو ان کا
کوئی وجود نہین ہے مگر حاسد بھی اپنی محنت میں پوری طرح سے لگے ہوئے تھے وہ
اس ناسمجھ ، جلد باز اور جذباتی ٹولے کے دماغوں پر پوری طرح سے حاوی تھے
انہوں نے ان کو یقین دہانی کروائی کہ ہمارے پاس ثبوت بھی ہیں ہم ویسے ہی
نہیں کہہ رہے ۔
قبیلے کے اندر افواہیں زور پکڑنے لگیں ، اختلافات اور نفرتیں بڑھنے لگیں
لوگ مشتعل ہونے لگے ۔ جب ان حاسدوں سے ثبوتوں کے بارے پوچھا گیا تو ان شر
پسندوں نے مشتعل لوگوں کو کہا کہ اس کا ثبوت اس جار کے پیندے پر لگا ہوا
ایک نشان ہے جسے جار کو الٹا کر دیکھا جا سکتا ہے ۔ سردار اور اس کے ساتھ
سمجھدار لوگوں نے بہت سمجھایا کہ یہ سب جھوٹ ہے اور تم لوگوں کو ورغلایا جا
رہا ہے ان کی باتوں میں نہ آوؑ اس سے نقصان ہوگا مگر انہوں نے ان کی کسی
بات پر توجہ نہ دی
خیر اس قبیلے کے جذباتی ، جلد باز ، نا سمجھ اور اجڈ چند افراد کے گروہ نے
ڈنڈہ بردار لوگوں سے مل کر سردار اور اس کے ہم خیال چند بڑوں کو ایک خیمے
میں باندھا اور اس جار کو اپنے قبضے میں لے کر الٹ دیا تاکہ اس کے پیندے پر
موجود اس کے ناجائز ہونے کی نشانی قبیلے کے سامنے لائی جائے ۔
جار کو الٹنے کے بعد جب دیکھا کہ وہاں کوئی بھی ناجائز ہونے کی نشانی موجود
نہیں تھی تو وہ شر پسندوں کی چال تو سمجھ گئے مگر اپنی بے وقوفی اور نقصان
کی شرمندگی کی وجہ سے حواس باختہ ہوگئے ۔ انہوں نے حواس باختگی میں جار کو
دوبارہ رکھنے کی کوشش تو کی مگر اس کو الٹا رکھ دیا اب پہلے والا حاصل شدہ
شہد تو پہلے ہی ضائع ہوچکا تھا لیکن اب اوپر سے ٹپکنے والا شہد بھی جار کی
اطراف سے نیچے بہہ رہا تھا دیکھنے میں تو یوں لگتا تھا کہ شہد شیشے کے جار
کے اندر ہی جا رہا ہے مگر حقیقت میں سب کچھ ضائع ہوتا جا رہا تھا۔
دیکھنے میں کچھ اس طرح ہی کا معاملہ اس وقت ہمارے وطن عزیز میں بھی محسوس
ہو رہا ہے ۔ وسائل ، توانائیاں اور تمام کی تمام صلاحیتیں ضائع ہورہی ہیں ۔
جن کے ہاتھ میں باگ دوڑ ہے وہ کچھ کر نہیں پا رہے اور جو کچھ کر پانے کی
صلاحیت رکھتے ہیں ان کو نہ تو دینے کی عمادگی ظاہر ہو رہی ہے اور نہ ہی وہ
ایسے کشیدہ حالات میں سنبھالنے کے لئے تیا ر ہیں ۔
جلد باز ، نا سمجھ اور جذباتی قوموں کے مقدر کچھ اس طرح کے ہی ہوتے ہیں ان
کے اپنے اعمال کے نتیجہ میں ان ہی کے مزاج کے حکمران مسلط ہو جاتے ہیں جو
ان کی جیبوں سے ہی نکال کر ان پر بھی خرچ کرتے ہیں اور اپنی بھی عیاشیاں
پوری کرتے ہیں ۔
جب تک بے وقوف زندہ ہیں شر پسند جاہلوں کی سربلندی کے نعرے یوں ہی بلند
ہوتے رہیں گے۔
|