آجکل سینٹ میں اوپن بیلٹ الیکشن کی بحث جو کیبنٹ ، صدر ہاوس ، عدالت عالیہ
، میڈیا سے ہوتی ہوئی عوام کے اندر پہنچ چکی ہے اس کی آئینی حیثیت اور
عدالت عالیہ کا اس پر موقف ایک طرف ، مگر اس کا ایک پہلو جو انتہائی
تشویشنات ہے وہ یہ ہے کہ عوامی نمائیندوں پرجس طرح سے عدم اعتماد کا اظہار
کیا جارہا ہے بلکہ ان کو انتہائی شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے ،
دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ ان کی تزلیل کی جارہی ہے ۔ بات سمجھنے کی
حد تک ہے اس پر کچھ عوامی نمائیندوں کا جوابی تاثر بھی سامنے آ رہا ہے جس
کا وہ یقینا حق بھی رکھتے ہیں۔
یہ عوامی نمائیند ے وہ لوگ ہیں جن کو آئین اور قانون کا خالق کہا جاتا ہے
۔ جو آئین کو وجود ہی نہیں بلکہ اس کو روح بھی بخشتے ہیں مگر آج ان ہی کے
بنائے ہوئے آئین کی نظر میں ان کو گرانے کی سر توڑ کوشش کی جارہی ہے ۔ تو
کیوں؟
یقینا اگر آپ اس پر غور کریں گے تو آپ کو اس کا جواب بھی مل جائے گا میں
صرف اتنا ہی کہتا چلوں کہ جب کوئی خود ہی اپنی تعظیم و تکریم کو مٹانا چاہے
تو کون اس کو تحفظ دے ۔
اس کی ابھی کیوں اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے؟
سینٹ کے پچھلے الیکشن میں بکنے اور خریدنے والی بدنام ترین پریکٹس سینٹ کے
چہرے پر بد نما داغ بن کر رہ گئی ہے ۔ اس میں یقینا وہ تمام لوگ شامل ہیں
جنہوں نے اس شرمناک کام میں کردار ادا کیا اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ وہاں
پریذائڈ بھی کر رہے ہیں۔
اور اس میں جس جماعت کو سب سے زیادہ پریشانی ہے وہ حکومتی جماعت ہے ۔
جس کی تمام کی تمام کارکردگی جو ان کے حکومت میں آنے سے پہلے سے لے کر وہ
کس طرح حکومت حاصل کرنے میں کامیات ہوئے اور آج ڈھائی سال کے دورحکومت تک
کی ساری روداد ہر کسی کے سامنے ہے۔ ان کی کارکردگیوں میں ایک یہ بھی شامل
کر لیجئے کہ وہ عوام کے نمائیندوں کو ہی نہیں بلکہ سب سے زیادہ اپنے ہی
چناو پر عدم اعتماد رکھتے ہیں ۔ وہ جن کے کاندھوں پر بیٹھ کر حکومت میں
پہنچے ان ہی کو بدنام کئے جا رہے ہیں مگر اپنی تمام کی تمام غلطیوں کو یکسر
نظرانداز کئے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے وہ اس صورتحال میں مبتلا ہیں۔
کیا کہوں بس اتنا ہی کہوں
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
یہ سیاسی جماعتیں کس منہ سے جماعت کی امانت کی بات کرتی ہیں جب یہ خود تمام
کی تمام میرٹ کو سبوتاز کرنے کی حدیں توڑتی ہیں۔ ان کی اپنی جماعتوں کے
اندر جمھوریت نام کی کوئی چیز نہیں یہ اپنے ممبران کو ٹکٹ میرٹ کی بنیاد پر
نہیں بلکہ پیسوں کے عوض دیتی ہیں پھر جب وہ الیکٹ ہو کر آجاتے ہیں تو ان
کو اپنا زر خرید غلام سمجھنے لگ جاتی ہیں ایسے غلام جن کو انہی سے پیسے لے
کر ان کو ہی خریدا گیا ہو ۔
خود ہی یہ انکشاف کرتی ہیں خود ہی ثبوت دیتی ہیں اور انہیں کی روشنی میں
اپنی بے گناہی اور معصومیت کو ثابت کرنے کی بھونڈی کوشش کرتی ہیں اور عوام
کو بے وقوف بناتی ہیں۔
کوئی اور بات کرے تو ان کی طبیعت پر نا ساز گزرتی ہے ۔
یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
جب کوئی کسی کی عزت کا خیال نہیں رکھتا تو اسے اپنی عزت کے ہاتھ سے جاتے
ہوئے بھی یوں واویلا نہیں کرنا چاہیے بلکہ پھر حوصلہ بھی ہونا چاہیے ۔ جن
کو عزت کرنی نہیں آتی وہ عزت کی توقع کیوں کرتے ہیں۔
حیراں ہوں میں کہ کیسے کیسے لوگ سربراہی کے عہدوں تک پہنچ گئے ہیں اور ملکی
اداورں کو ایک دوسرے کی جگ ہنسائی کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اداروں کا
آج غیر جانبدار ہونے کی تسلیاں دینی پڑتی ہیں ۔ اداروں پر انگلیاں اٹھائی
جاتی ہیں۔
چند پست اخلاق ووٹ ، ووٹ کے تقدس اور رازداری کے حق اور اس کی حفاظت کے
حساس معاملے کو پس پشت ڈال کر اپنی خواہشات کی تکمیل میں مرے جا رہے ہیں۔
جب در در پر ماتھا ٹیکنا ہی کسی کی پہچان ہو تو ان سے شکوہ کیسا ، جو پیسہ
لگا کر پیسہ کمانا اپنا کاروبار سمجھتے ہوں ان کی پاداش میں قانون ساز
اسمبلیوں جیسے ملکی عظیم اداروں کے ممبران کی جگ ہنسائی کروانا کہاں کی عقل
مندی ، خود ان کو منتیں کرکے ساتھ شامل کرنا اور پھر ان کو ہی مورد الزام
ٹھہرانا یہ کونسی قومی محبت یا ملکی خیر خواہی ہے۔
جب بازار سے کسی اور کی پیداوار اٹھا کر اس پر اپنی مہر ثبت کرکے کمپنی کی
مشہوری کرنے کی کوشش کی جائے تو اس پر کب تک پردہ ڈالا جا سکتا ہے ۔ آخر
ایک دن تو پردہ اٹھنا ہوتا ہے ۔ کب تک یہ ادھار کی نیک نامی سے دوسروں کی
آنکھوں میں دھول جھونکی جاسکتی ہے۔
آج کیوں ووٹر کو اپنا ووٹ دکھانے کے لیے مجبور کیا جارہا ہے؟
اس لیے کہ اس کی صحیح طرح سے تربیت نہیں ہو سکی ۔ معاشرے اپنے افراد کی
تربیت کرتے ہیں تو قومیں بنتی ہیں۔
جب کردار اعلی ہوں تو اس طرح کی مجبویوں کی نوبت نہیں آیا کرتی۔
اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب سیاست دان کی صحیح تربیت ہو اور سیاست ہر طرح کی
دخل اندازی سے پاک ہو
سیاستدانوں کی تربیت گاہ سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں وہیں سیاسی ورکر پروان چڑھ
کر بڑے بڑے سیاستدان بنتے ہیں ان کے سامنے ان کی قیادت ان کے لیے ایک نمونہ
ہوتی ہے وہ قیادت جو میرٹ کی بنیاد پر آگے آئی ہوتی ہے جسکے نزدیک قومی
مفادات ذاتی مفادات پر ترجیح رکھتے ہیں ۔ جو اپنے آپ کو جماعت کے سامنے
اور عوام کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں۔ ایسی قیادتیں ہی قوم کو بنانے میں
کردار ادا کرتی ہیں اور قوم کو دوسری قوموں کے ساتھ ترقی کی دوڑ میں شامل
کرتی ہیں۔ قومیں ان پر فخر کرتی ہیں۔
ایسی سیاسی پختگی کے لئے بیس سال لگیں یا ایک سو بیس سال جماعتیں اپنی سمت
کو درست رکھتی ہیں اور ایک دن وہ اپنی قوم کی نجات دہندہ بن جاتی ہیں اور
جو اپنی سمت کو درست نہیں رکھ پاتیں وہ ایسے ہی اپنے لئے بھی اور اپنی قوم
کے لئے بھی مذاق کا موجب بنتی ہیں ۔
جب یہ لوگ اپنے ہی بنائے ہوئے آئین اور قانون کی روح کو سمجھنے سے قاصر
ہونگے اور آئینی حدود کو کراس کرتے ہوئے غیر آئینی طریقوں سے مسائل کا حل
ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے تو ان کی کلی تو کھلے گی اور دوسرے اداروں کو دخل
اندازی کا موقع بھی ملے گا۔
|