مگر اب ڈھائی سال گزرجانے کے بعد جب عوام کو یہ محسوس
ہونا شروع ہوا کہ یہ سب بس ایک خواب ہی تھا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں
تو ان کو پھر سے چور چور کے راگ سے لوری سنانے کی کوشش کی جاتی ہے ، ’’پانچ
سال کا وقت تھوڑا ہے ‘‘ کی تھپکیاں دی جاتی ہیں مگر ان کی بھوک اور پریشانی
اب ان کو دوبارہ سے خواب خفلت میں جانے کی اجازت نہیں دیتی تو وہ برملا کہہ
اٹھتے ہیں کہ ہمیں پرانا پاکستان ہی دے دو مگر افسوس کہ اب پرانے پاکستان
میں جانے کے لئے بھی مزید دس سال درکار ہونگے جس میں ڈالر ایک سو بیس بجلی
چار روپے یونٹ پٹرول اور دوسری اشیاؑ کے نرخوں کی آدھی قیمت اور جی ڈی پی
پانچ اشاریہ چھ تک واپس آ جانے کے لئے بہت تگ و دو کی ضرورت ہوگی۔
تبدیلی کا لفظ اب ایک گالی بن چکا ہے جس سے مہنگائی کی شکایت کرو وہ آگے
سے جواب دیتا ہے کہ یہ تبدیلی ہے۔ اور تو اور ٹرکوں یا بسوں کے پیچھے اب
’‘پاک فوج کو سلام’’ کی جگہ ’’ہنھ گھنو مزے تبدیلی دے ‘‘ لکھا دیکھنے کو
ملتا ہے۔ نئے پاکستان کی تبدیلی سے چاہیے تو تھا کہ خامیوں کو دور کیا جاتا
جیسے کہ کرپشن ، نا انصافی اور بے روزگاری مگر افسوس کہ اچھائیوں کو دور
کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
اب بھی کچھ لوگ ہیں جو اس تبدیلی سے مستفید ہو رہے ہیں ان کی تو مجبوری ہے
مگر بعض اپنی انا کی خاطر اپنی تسلی اور دوسروں کو دھوکہ دینے کی کوشش میں
خود ایک جیتا جاگتا لطیفہ بن چکے ہیں ۔
خان صاحب کے ساتھ دو قسم کے لوگ تھے ایک تو وہ جن کو ان سے انیس سو نوے کی
دھائی میں محبت نے جنم لیا تھا جب وطن کے گلی کوچوں میں چھوٹے بڑوں کی
ہاتھوں گیند اور بلا ہوتا تھا جن کی محبت ختم ہوتے ہوتے بھی وقت لگے گا مگر
دوسرے وہ لوگ ہیں جو ان کے نظریعے کے ساتھ تھے جو بری طرح سے بد دل ہو کر
اب اپنا قبلہ درست کر چکے ہیں۔
موجودہ حالات میں فقط قول کے ساتھ زندہ رہنے والوں کو تو اپنی سوچ کے مطابق
اپنے نظریہ سے ہم آہنگ قیادت خوب راس آئی ہوئی ہے مگر قول سے فعل کی
مطابقت چاہنے والے انتہائی کرب سے گزر رہے ہیں۔
قومی سطح پر انفرادی سوچ کا حامل ہونا قومی ناخواندگی ، انفرادی مفاد پرستی
قومی جہالت اور ذاتی مفاد کے حصول کی خاطر قوم و ملک کو نقصان پہنچانے والا
قومی مجرم ہوتا ہے خواہ وہ قومی املاک کو نقصان پہنچانے والا ہو، جمھوریت
پر ڈاکہ ڈالنے والا ہو، انسانی حقوق کو پامال کرنے والاہو یا قانون کی بالا
دستی میں رکاوٹ بننے والا ہو۔
آجکل سپریم کورٹ آئین کی حیران کن تشریح کرنے میں مصروف ہے جسکی ان کے
سوا کسی کو بھی سمجھ نہین آرہی پاکستان میں کوئی بھی ایسا قانون دان نہیں
جس کو سمجھ آ رہی ہو سوائے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور وہ بھی ایسے ایسے
اعترافات کر رہے ہیں جن میں ہارس ٹریڈنگ کے نئے نئے طریقہ واردات بتائے جا
رہے ہیں اور حکومت کے ایسے ایسے انکشافات سامنے لائے جارہے ہیں کہ جن میں
بکنے والوں کے متعلق تو کوئی شک و شبہ نہیں مگر خریدار نا معلوم ہیں اور جن
کا وہ اعتراف کرنے یا کروانے سے بھی قاصر ہیں۔ بہرحال زمانہ دیکھ رہا ہے کہ
کیا کیا ہو رھا ہے اور زمانہ اس کا گواہ بھی ہوتا ہے جس کی سمجھ صرف غیر
جانبدار ذہنوں کو ہی آتی ہے ۔
الیکشن کمیشن کو بہت سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے مگر وہ سمجھ ہی نہیں رہے
سیاسی جماعتوں کو ان کے وعدے وعیدیں یاد کروائی جا رہی ہیں مگر آئین کے
انتہائی واضح الفاظ کو ان کی روح سمیت یکسر نظرانداز کرکے بقول شائق عثمانی
، حامد خان یا دوسرے قانونی ماہرین عدالت اپنا اور قوم کا وقت ضائع کررہی
ہے اپنے آپ کو بھی اور الیکشن کمیشن کو بھی متنازع بنا رہی ہے۔
لگتا یوں کے کہ انصاف کو اپنا وجود قائم رکھنے کے لئے ایک تحریک کی ضرورت
ہے جو شروع بھی ہو چکی ہے مگر یہ اقتدار اوراختیار کی کرسیوں پر بیٹھے
لوگوں کو نظر نہیں آرہی لیکن یہ تحریک اب اپنا رستہ خود ہی بنائے گی اور
قانون کی مدد سے بنائے گی لیکن چونکہ تحریکیں وقت لیتی ہیں کیونکہ اس دوران
چھپے اور مکروہ چہروں نے بھی بے نقاب ہونا ہوتا ہے اور عدل کے تقاضوں کے
نمونےاور عدل کے نظام کو سنبھالنے والوں کے وجود پانے کی خاطر کچھ عوامل سے
گزرنا پڑتا ہے لہذا دیر ہوسکتی ہے مگر اندھیر نہیں
|