2011ءکی پہلی ششماہی کو اگر نائن
الیون کے بعد کی ہنگامہ خیز ترین ششماہی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔بات
کو آگے بڑھانے سے قبل ہم ان چھ ماہ میں رونما ہونے والے ان تین بڑے واقعات
کا مختصرطورپرتذکرہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ جنہوں نے ارضِ وطن کے عسکری
طبقے کو ہلا کر رکھ دیااور انہیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ اگر انہوں نے اب
بھی ہم اپنے قاتل کو مسیحا سمجھ کر اُسی سے دوا مانگتے رہے تو بہت جلدایٹمی
پاکستان کی جغرافیائی اورنظریاتی سرحدوں کو تبدیل کرنے کیلئے ایک طویل عرصے
سے جاری عالم کفر کی سازشیں کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہیں۔
27جنوری کو دن دیہاڑے لاہور کے معروف قرطبہ چوک پردو صیہونی دہشت گردوں کی
سرِعام فائرنگ کے نتیجے میں تین معصوم پاکستانی جاںبحق ہو گئے۔اس واقعے کے
مرکزی کردار ریمنڈ ڈیوس کو پنجاب پولیس موقع پر ہی گرفتار ''کربیٹھی''اس
اندوہناک اوردلخراش واقعے نے پورے ملک میں آگ لگا دی ہر کوئی تینوں
پاکستانی نوجوانوں کی مظلومانہ شہادت پر غم و غصے میں تھااورریمنڈڈیوس کو
قرطبہ چوک میں ہی پھانسی دینے کا مطالبہ کررہا تھا دوسری جانب خفیہ ادارے
بھی ڈیوس کو ''بڑی مچھلی''قرار دے چکے تھے آزاد میڈیا و آزاد عدلیہ کی
موجودگی بھی اس طرف اشارہ کررہی تھی کہ حکومت تمام تر امریکی دباﺅ کے
باوجودریمنڈ ڈیوس کو کیفرِکردار تک پہنچا کر امریکہ کو ''شٹ اپ کال''کال
ضرور دے گی لیکن'' مفاہمت پسند''حکومت نے امریکی دباﺅ کے سامنے سرنڈر کرتے
ہوئے ریمنڈ ڈیوس کو رہا کردیا۔ریمنڈڈیوس کی رہائی سے پاکستان کی بڑی جگ
ہنسائی ہوئی جبکہ امریکہ نے اس رہائی کے اگلے روز ہی ارضِ پاک پر ڈرون حملہ
کرکے جشن منایا۔
دوسرا واقعہ 2مئی کو ایبٹ آباد میں پیش آیا جب وہاں رات کی تاریکی میں
القائدہ سربراہ اسامہ بن لادن کو ایک آپریشن میں جاںبحق کردیا گیا۔اس
آپریشن نے جہاںپاکستانی سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پرسوالیہ نشان لگایا
وہیں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں front line stateکا کردار ایک
عشرے سے ادا کرنے والے پاکستان کو جس طرح مکمل طور پر بائی پاس کیا گیا وہ
اس بات کی واضح چغلی کھا رہا تھا کہ 40000قیمتی جانوں کی قربانی اور 50ارب
ڈالر کے خطیر معاشی خسارے کے باوجود امریکہ کی نظروں میں پاکستان اعتبار کی
سند حاصل نہیں کر سکا ہے بلکہ اس واقعے کے بعد جس طرح امریکی میڈیا اور
دہشتگرد انتظامیہ نے اسامہ بن لادن کی سرپرستی کا الزام پاک فوج پر دھرنا
شروع کیااس نے پاکستانی مقتدر اداروں کے سامنے امریکی عزائم کو مزید واضح
کر دیا۔
تیسرا اہم واقعہ 22مئی کی شب کراچی میں پی این ایس مہران پر خونریز حملے کی
صورت میں برآمد ہوا اس حملے کو گزشتہ دہشتگردانہ حملوں کی نسبت اس لحاظ سے
منفرد سمجھا جاتاہے کہ اس میں اہم فوجی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا اور
پاکستان نیوی کا قیمتی اثاثہ سمجھے جانیوالے دو انتہائی اہم طیاروں پی سی
تھری اورین طیاروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیایہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر
ہے کہ انہی طیاروں کی وجہ سے پاکستانی بحریہ کو بھارت پر فوجی برتری حاصل
تھی۔
قارئین یہ تینوں واقعات ایک ایسے وقت میں وقوع پزیر ہوئے ہیں جب کہ پاکستان
''دہشت گردی کے خلاف جنگ''میں امریکہ کا دیرینہ اتحادی بھی ہے اور ابتک اس
نے اسکے لئے بے شمار قربانیاں بھی دیں ہیں ایسے میں ہونا تو یہ چاہئے تھا
کہ امریکہ ان ''حادثات''پر اسی طرح کے ری ایکشن کا مظاہرہ کرتا جیسا کہ یہ
واقعات خود اس کے ساتھ رونما ہوئے ہیں لیکن ہوا یہ کہ امریکہ انہی واقعات
کو بہانہ بنا کر پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے میں جُت گیااور آئے روز
کسی امریکی اہلکار کی طرف سے اک نئی درفتنی چھوڑی گئی اور کبھی پنجہ یہود
میں پھڑپھڑاتا ہوا کنٹرولڈ میڈیاپاکستانی ایٹمی پروگرام کو غیر محفوظ ثابت
کرنے کیلئے دُور کی کوڑیاں لاتا رہا۔یہیں سے ہی آئی ایس آئی اور سی آئی اے
میں فاصلے بڑھنے لگے کیوں کہ نامور عسکری ماہرین کے مطابق امریکہ کو چوں کہ
افغانستان میں واضح شکست کا سامنا ہے اور آج نہیں تو کل امریکہ کاافغانستان
سے جانا ٹھہر چکا ہے اور امریکہ اس ذلت و خفت کو مٹانے کیلئے پاکستان کے ''اسلامی
بم''کا کانٹا نکالنا چاہتا ہے لیکن اسی جلد بازی میں ہی امریکہ کی جانب سے
اوپر تلے کئے گئے ان احمقانہ اقدامات نے کم از کم ملک کی عسکری قیادت کو تو
بیدار کر ہی دیا ہے جس کا عملی مظاہرہ ہمیں اس وقت دیکھنے میں آیا جب سی
آئی اے چیف لیون پینٹا نے آئی ایس آئی چیف جنرل شجاع پاشا کے سامنے حسب
روائت ڈومورکا مطالبہ رکھا تو جنرل صاحب نے اسے ان الفاظ کے ساتھ ٹھکرا دیا
MY BOSS IS ALLAH NOT AMERICAاس کے بعد ہی امریکی منصوبہ سازوں نے پاکستانی
امداد کا 75%روکنے کا اعلان کیا تو پاک فوج کی طرف سے بھی اس کا ترکی بہ
ترکی جواب پاکستان میں موجود سی آئی اے ایجنٹوں کی گرفتاری اورشمسی ائر بیس
کا دانہ پانی بند کرنےکی شکل میں دیا گیا۔فوج کی طرف سے یہ سخت رد عمل بےشک
عوامی امنگوں کے عین مطابق ہے ۔دوسری جانب حکومت کی جانب سے بھی اگراس وقت
کچھ سخت فیصلے کر لئے جاتے ہیں جن میں امریکی امداد(جو دراصل زہرِ قاتل ہے)
سے انکار،دہشتگردی کے خلاف نام نہاد اور دراصل صلیبی جنگ سے علیحدگی اور
پاک سرزمین کو امریکی بوٹوں سے خلاصی شامل ہیں تو یقیناََان دو تین اقدامات
کے بعد ایک نیا پاکستان دو تین قدم کے فاصلے پر ہو گا۔یہاں پر ناانصافی ہو
گی اگر میاں شہباز شریف کی طرف سے آئندہ امریکی امداد نہ لینے کے فیصلے کو
نہ سراہا جائے اب پی پی پی حکومت کو بھی چاہئے کہ اگر وہ واقعی پاکستانی
عوام کو دکھائے گئے آزادی و خوشحالی کے خوابوں کو پورا کرنا چاہتی ہے تو
پہلے اسے امریکی غلامی سے نجات دلانے کی سبیل کرے ۔۔ |