روڈاینڈبیلٹ منصوبہ چین کی خارجہ پالیسی میں اہم تبدیلی
کی نشاندہی کرتاہے۔یہ تبدیلی ڈنگ ژیا ؤ پنگ کی پالیسی کے علی
الرغم”بائیڈاینڈ ہائیڈ”حالیہ چینی قیادت کی پرعزم کوششوں کی غمازہے۔بی
آرآئی کے عظیم منصوبے کااہم نقطہ معاشی اور سفارتی راہیں کھولتے ہوئے
رابطے استوارکرناہے تاکہ منصوبے میں شریک ملکوں اورچین کے درمیان تجارتی
اورمعاشی تعلقات مضبوط بنائے جا سکیں۔روڈاینڈبیلٹ منصوبے کے تحت متعدد برّی
اور سمندری منصوبے ایک ساتھ مکمل ہورہے ہیں۔زمینی منصوبوں میں سڑکیں، ریلوے
اورپائپ لائنیں شامل ہیں،جبکہ سمندری منصوبوں میں بندرگاہ اورساحلی علاقوں
میں ترقیاتی کام شامل ہیں۔چین کے جنوبی علاقوں کاخطے کے جنوبی ممالک سے
تعاون،منصوبے میں شامل دوسرے ملکوں اوربیجنگ کویکساں طورپرپائیدارترقی سے
بہرمند ہونے کے یقینی مواقع فراہم کرتاہے۔
حالیہ چندبرسوں کے دوران چین نے مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے ساتھ معاشی
اورسفارتی بات چیت کوبڑی حد تک فروغ دیاہے۔ بڑے حصے کے طورپر چین نے مشرق
وسطیٰ میں توانائی، انفراسٹرکچر،تعمیرات،زراعت اورفنانس کے شعبوں پرتوجہ
مرکوز رکھی ہے۔چین اوردوسرے شریک ممالک بی آرآئی کوسعودی ویژن2030ء،یواے
ای ویژن2021ء،اردن2025ء،ترکی کے مڈل کوریڈوراورکویت کے ویژن2035ء،جیسی قومی
بحالی کی اسکیموں میں ضم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
اپنے محل وقوع کی وجہ سے مشرق وسطیٰ روڈاینڈبیلٹ کیلئےاہم ہے۔یہ تین
براعظموں ایشیا،افریقااوریورپ سمیت پانچ سمندروں بحیرۂ روم،بحیرۂ
کیسپین،بحیرۂ احمر،بحیرۂ عرب،بحرالکاہل،بحیرۂ اسودکے سنگم پرواقع
ہے۔مزیدبرآں یہ خطہ آبنائے باسفورس، باب المندب،تنگنائے ہرمزاورڈارڈینلز
جیسے اہم بحری راستوں کوبھی ملاتاہے۔
چین نے رواں برس کے اوائل میں روڈاینڈ بیلٹ پروگرام کے تحت دوسوسے
زائدشراکت کاری کے منصوبوں پردستخط کیے۔ شریک ملکوں کی جانب سے رسمی
استقبال سے بڑھ کربی آرآئی میں دکھائی جانے والی دلچسپی اس بات کی غمازی
کرتی ہے کہ منصوبہ ان کیلئےتیزرفتارمعاشی ترقی کے متنوع مواقع فراہم
کرتاہے۔چین تعمیری شراکت کاری کے ذریعے سیاسی مداخلت سے گریزاورعملیت پسندی
کی پالیسی پرعمل پیراہے۔ سعودی عرب اورایران کے درمیان جاری تنازع میں چین
کی متوازن پالیسی اس کی عملی مثال ہے۔مغربی دنیااب تک فوجی مداخلت کی مدد
سے جمہوری عمل کوخطرات کم کرنے کاذریعہ سمجھتی رہی ہے جبکہ چین کاروڈاینڈ
بیلٹ پروگرام علاقائی سکیورٹی اورہمہ جہت ترقی کاایک نیا نمونہ پیش کرتاہے۔
مشرق وسطیٰ کی ریاستیں،ان کی بندرگاہیں اورصنعتی پارکس چین کے ساتھ تعاون
میں پیش پیش رہے ہیں۔متحدہ عرب امارات کی خلیفہ بندرگاہ، عمان کی دقم
بندرگاہ،سعودی عرب کی جازان بندرگاہ اورمصرکی بندرگاہ سیداس تعاون کی عملی
مثالیں پیش کررہی ہیں۔تعمیرات کے ضمن میں چینی کمپنیاں قطر کے شہرلوسیل میں
کھیلوں کے اسٹیڈیم اورسعودی عرب کے اندرتیزرفتارحرمین ریلوے کے ضخیم منصوبے
پرکام کررہی ہیں۔ جنگ سے تباہ حال افغانستان،عراق اورشام میں بحالی کے
کاموں میں چینی کاروباری ادارے امکانی طورپراہم کردارکرسکتے ہیں۔
حالیہ برسوں کے دوران چین اورمشرق وسطیٰ کے ملکوں کے درمیان تجارت میں
خاطرخواہ اضافہ ہواہے۔2019۔2018ءکے درمیان صرف تجارت کاحجم77فیصدرہاہے۔یہ
بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ توانائی کاشعبہ خطے کے ساتھ چینی تعلقات کی
ترویج میں بنیادی اہمیت کاحامل ہے۔ 2019 ۔2013ءکی مدت کے دوران75/ارب
ڈالرمالیت کی چینی سرمایہ کاری توانائی کے شعبوں میں رہی ہے۔یہ چین کی کل
سرمایہ کاری کے 56فیصدکے مساوی تھا۔انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی پیش گوئی،کہ
چین2035ءتک مشرق وسطیٰ سے تیل درآمدات کودوگناکرے گا،کودیکھتے ہوئے اس
رحجان کے جاری رہنے کی امیدہے۔
ادھرچینی حکومت نے ملک کے سب سے بڑے فیصلہ سازادارے”چینی کیمونسٹ
پارٹی”میں”ون روڈون بیلٹ”کی تکمیل کیلئے ترجیحی پلان کااعلان کرتے ہوئے حال
ہی میں کئی بڑی تبدیلیاں کرتے ہوئے متعلقہ کمیٹی کے سارے اختیارات چینی
صدرکوسونپ دیئے ہیں جنہوں نے فیصلہ کن تبدیلیوں کے ساتھ اپنی ساری توجہ اس
پراجیکٹ کی طرف مبذول کررکھی ہے جس کی تکمیل سے یقیناًدنیامیں جہاں معاشی
انقلاب آئے گاوہاں اقوام عالم کی60 فیصدتجارتی منڈیوں میں چین کی اجارہ
داری ہوجائے گی۔چین نے اب تک اپنے تجارتی روّیے سے یہ ثابت کیاہے کہ وہ
ملکوں کے داخلی معاملات میں قطعاً مداخلت کرنے کاخواہاں نہیں ہوتااورنہ ہی
اپنے مفادکیلئےاپنے ہی دوست ممالک کی قربانی دیتے ہوئےآنکھیں پھیرلینا اس
کی سرشت میں شامل ہے
چین کی تجارتی پالیسی جس نے اعتبارکے لحاظ سے اسے اہم مقام دیاہے،وہ اپنے
تجارتی شراکت داروں کے معاشی تحفظات کی “ریاستی ضمانت” ہے جس کی بناءپر”ون
روڈون بیلٹ”میں یورپی ممالک کی بھرپورشرکت کویقینی بنایاگیاہے اوریہی روّیہ
اس کا اپنے سب سے بڑے پارٹنرامریکاکے ساتھ بھی رہاہے لیکن امریکی سابقہ
صدرٹرمپ نے چین کی بڑھتی ہوئی معاشی ترقی پرقدغن لگانے کیلئے کبھی ٹیرف
کامسئلہ کھڑاکیااورکبھی اپنی شرائط پرچینی مصنوعات کاراستہ روکنے کیلئے
“بارٹرتجارت”کیلئے دباؤ ڈالا۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں جاری”سی پیک”
منصوبے کونقصان پہنچانےکیلئے پاکستان پرعالمی مالیاتی اداروں اوراپنے
اتحادیوں کے ذریعے دباؤ میں اضافہ بڑھایالیکن پاکستان کی طرف سے فوری جواب
نہ ملنے کی صورت میں مودی کوگودلیتے ہوئے براہ راست بھارتی دہشتگردی پراپنی
آنکھیں بندکررکھی ہیں جبکہ پاکستان نے امریکی دباؤ کے باوجود افغانستان سے
امریکی انخلاء کیلئے تاریخی کردار ادا کیاہے۔
بیجنگ اورایران کے درمیان معاہدہ،چین کی تازہ ترین حالیہ سرمایہ کاری
ہے۔چارسوارب ڈالرمالیت کے معاہدے میں توانائی،انفرا سٹرکچر،دفاعی تعاون ،انٹیلی
جنس کے تبادلے اورچین کوسستے داموں ایرانی تیل کی فراہمی جیسے منصوبے شامل
ہیں۔اس بات کا ذکرضروری معلوم ہوتاہے کہ روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے میں ایران کی
شمولیت مشرق وسطیٰ میں امریکی نفوذکوگزندپہنچائے گی، جس پرواشنگٹن کی جانب
سے شدیدردعمل کاامکان ظاہرکیاجارہا ہے۔ “سیزرایکٹ”کی شکل میں عایدکردہ
امریکی پابندیوں سے کسی بھی ملک کے شامی رجیم سے معاملات کی راہیں پہلے ہی
مسدودکی جاچکی ہیں۔اس طرح شامی وزارت مواصلات اورچین کی ہواوے کمپنی کے
درمیان2015ءکوطے پانے والامعاہدہ متاثرہونے کاامکان ہے۔
حالیہ دنوں میں جاری کووڈ۔19کی عالمی وبانے چین اورمشرق وسطیٰ کے ملکوں کے
درمیان باہمی یکجہتی کے اظہارکاموقع فراہم کیاہے۔خلیجی ممالک کی طرف سے چین
کوبھیجی جانے والی میڈیکل سپلائزکے جواب میں بیجنگ نے مشرق وسطیٰ میں
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے وقت ایسی ہی فراخدلانہ امداد کے ذریعے حساب
برابرکردیا۔
تیل کی قیمت میں مسلسل کمی کے جلومیں معاشی گراف میں تنزلی سے خطے میں بی
آرآئی کے منصوبے زیادہ دیرتاخیرکاشکار ہوسکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میںمذہبی،
لسانی اورپوشیدہ انسانی پیچیدگیاں موجودہیں۔روڈاینڈبیلٹ منصوبے کوسنوارنے
میں یہ تمام عناصر اہم کرداراداکریں گے،تاہم اس کے ساتھ ساتھ
سکیورٹی،اقتصادی اورثقافتی ایکسچینج پروگرام بھی چینی منصوبوں کاحصہ ہوں
گے۔
|