پنجاب میں 14 فروری کو 117 بلدیاتی انتخابات کا انعقاد
ہوا۔ ان میں 109 چھوٹے اور متوسط شہروں کی نگرپالیکا پریشد اور نگر
پنچایتیں شامل تھیں ۔ اس کے ساتھ 8بڑے شہروں کے نگر نگمکا بھی الیکشن ہوا۔
ان تمام 8 کی 8میونسپل کارپوریشن پر کانگریس نے قبضہ کر لیا ۔ کرکٹ کی زبان
میں اسے کلین سویپ اور ممبیا میں سپڑا صاف کہا جاتا ہے۔ ان انتخابی نتائج
کی ایک خاص بات یہ ہےکہ4 مقامات پر بی جے پی اور عآپ اپنا کھاتہ تک نہیں
کھول سکی اور موہالی میں تو بیچاری اکالی دل بھی زیرو پر آوٹ ہوگئی۔ سنی
دیول کے گرداسپور کی ساری نشستیں کانگریس نے جیت لیں اور ۵۳ سال کے بعد
بھٹنڈا کے اندر شرومنی اکالی دل کو کانگریس نے شکست فاش سے دوچار کردیا۔
بھٹنڈا میں کانگریس کو 47، اکالی دل کو 3، بی جے پی و عآپ کو کوئی سیٹ
نہیں ملی ۔ پچھلی بار اکالی دل کی 26 اور بی جے پی کے علاوہ8؍ 8 کانگریس
اور آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے تھے لیکن اس بار کایا پلٹ بدل گئی ۔
بٹالہ نگر نگم میں کانگریس کے پاس2005میں 6نشستیں تھیں اس بار 35 ہو گئیں۔
اکالی دل جو18پر کامیاب ہوئی تھی گھٹ کر 6پر آگئی۔ بیچاری بی جے پی جو11
پر تھی اب کی بار4نشستوں پر سمٹ گئی۔ عآپ کو 3 اور آزاد امیدوار کو ایک
سیٹ ملی ۔ کپورتھلا نگر نگم میں کانگریس 13سے چھلانگ لگاکر 43 پر پہنچی ،
اکالی دل9 سے گھٹ کر 3پر آیا۔ بی جے پی جو6 پر تھی گدھے کے سر سے سینگ کی
طرح غائب ہوگئی جبکہ 2 سیٹیں آزاد امیدواروں کو بھی ملیں ۔پٹھان کوٹ نگر
نگم بی جے پی کا گڑھ مانا جاتا تھا وہاں پر اس کی 30نشستیں تھیں لیکن اس
بار وہ11 پر آگئی۔ کانگریس کے11 کونسلرس تھے اب یہ تعداد بڑھ کر 37 پر
پہنچ گئی ہے۔ اکالی دل جو پچھلی بار صفر پر تھی اب ایک نشست جیتنے میں
کامیاب ہوگئی۔ ، بی جے پی کا ایک امیدوار کامیاب ہو ااور ایک آزاد بھی
جیتا جبکہ پہلے ان کی تعداد9 تھی ۔ہوشیار پور نگر نگم میں بھی بی جے پی سب
سے بڑی پارٹی تھی اور اس کے پاس22کونسلرس تھے جو اب4 ہوگئے ہیں ۔کانگریس
جو17 پر تھی 31پر چلی گئی ہے۔ عآپ کو 2 سیٹیں حاصل ہوئیں اور بیچارہ اکالی
دل 10 سے صفرپر آگیا ۔
ابوہر نگر نگم میں کانگریس کو 50 میں سے 49 نشستوں پر غیر معمولی کامیابی
ملی جبکہ پچھلےالیکشن میں اسے صرف 13سیٹیں ملی تھیں۔ اکالی دل 4سے ایک پر
آگیا اور 12سیٹیں جیتنے والی بی جے پی صفر پر آگئی۔ موہالی نگر نگم میں
37 نشستوں پر کانگریس کامیاب ہوگئی اور 13 پر آزاد امیدوار جیتے اکالی دل،
بی جے پی اور عآپ کوئی نشست نہیں جیت سکے۔موگا واحد ایسا شہر ہے جہاں
کانگریس اکثریت نہیں حاصل کرسکی لیکن وہ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ۔
گزشتہ مرتبہ کی ایک سیٹ کے مقابلے اس بار وہ 20پر ہے ، اکالی دل جو41 سیٹ
جیتنے میں کامیاب ہواتھا اس بار 15پر پہنچ گیا ۔6سیٹ جیتنے والی بی جے پی
ایک پر آگئی ۔ عآپ کو 4مقامات پر کامیابی ملی اور10 آزاد امیدوار بھی
جیتے جبکہ پچھلی بار ان کی تعداد صرف2 تھی۔ کسانوں نے کانگریس کا ہاتھ تھام
کر پہلے تو اکالی دل کے ترازو کو توڑا اور پھر کمل پر ٹریکٹر کے بجائے
بلڈوزر چلا دیا ۔ اس کے بعد عآپ سے جھاڑو چھین کر سارا کچرا صاف کردیا۔ بی
جے پی اگر قمر جلالوی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے کسانوں سے نظر نہیں پھیرتی
تو اس کا یہ انجام نہیں ہوتا؎
کہیں میکشوں سے ساقی نہ نگاہ پھیر لینا
کہ انھیں کے دم سے قائم ہے ترا شراب خانہ
14فروری کےان انتخابات میں عوام نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا اور70
فیصد سے زیادہ رائے شماری ہوئی ۔ جملہ 2302وارڈوں میں سے 1480 مقامات پر
کانگریس کو فتح ملی جبکہ اس کو 68.3% ووٹ ملے ۔ اس کے مقابلے چوتھے نمبر پر
آنے والی بی جے پی کو صرف 58 نشستیں مل سکیں اور اس کے ووٹ کا تناسب محض
2.67%رہا ۔ اس کراری ہار کے بعد کانگریس مکت بھارت کا نعرہ لگانے والے امیت
شاہ کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے۔ بی جے پی کو طلاق دینے والے اکالی
دل نے 322 وارڈوں میں کامیابی کا پرچم لہرایا اور اسے 14.87% ووٹ ملے ۔ وہ
تو خیر بی جے پی سے ناطہ توڑ لینے کے سبب یہ عزت بچی ورنہ کون جانے اس کا
کیا حشر ہوتا ؟ کانگریس کا الزام ہے کہ اکالی دل اور بی جے پی نے جدائی کا
ڈھونگ کیا اور آپس میں نورا کشی لڑی ۔ یہ بات اس لیے درست لگتی ہے کہ جہاں
کانگریس نے کل 2 ہزار37 مقامات پر انتخاب لڑا وہیں اکالی دل نے صرف 1 ہزار
569نشستوں پر الیکشن لڑا نیز بی جے پی نے 1 ہزار 3 جگہوں سے قسمت آزمائی
کی ۔ اس سے ان کے درمیان خفیہ سمجھوتے کا اندیشہ ہوتا ہے جس کو لوگ سمجھ
گئے اور پرکاش سنگھ بادل کے ذریعہ پدم وبھوشن لوٹانے کے جھانسے میں بھی
نہیں آئے ۔
اسمبلی کے اندر سب سے بڑی حزب اختلاف یعنی عام آدمی پارٹی نے بھی ایک ہزار
606امیدوار کھڑے کیے لیکن کوئی خاص اثر نہیں دکھا پائی۔ اس کو کل 66 وارڈوں
میں کامیابی ملی جو بی جے پی سے کچھ ہی زیادہ ہے ۔ عام طور پرعام آدمی
پارٹی مرکزی حکومت کے ساتھ مصالحت کے ساتھ چلتی ہے لیکن اس بار اس کے رکن
پارلیمان سنجے سنگھ نے حکومت کی خوب دھنائی کی ۔ اروند کیجریوال نے کسانوں
کی حمایت میں بڑے بیان دیئے اورمنیش سسودیہ نے تو کسانوں کا دل جیتنے کے
لیے بارڈر کا دورہ بھی کیا ۔ اسی کے ساتھ عآپ نے دہلی جیسی ترقی کا بھی
خواب بیچنے کی سعی کی لیکن بات نہیں بنی اور 82 دنوں سے دہلی کی سرحد پر
جاری کسان تحریک نے کانگریس کو بلدیاتی انتخابات میں کامیابی سے ہمکنار
کردیا ۔
کانگریس نے اس بار زبانی حمایت پر اکتفا کرنے کے بجائے ٹھوس اقدامات کیے
مثلاً اس نے تحریک کے دوران درج کیے جانے والے سارے مقدمات واپس لے لیے
یہاں تک کہ یوم جمہوریہ کے دن جو مقدمات بنے ہیں ان کی پیروی کے لیے بھی
70وکلاء کی ٹیم کو میدان میں اتار دیا۔ جب کوئی صوبائی حکومت دلیری کا
مظاہرہ کرتے ہوئے عملی اقدامات کرے تو عوام پر اس کا اثر ہوتا ہے۔ آئندہ
سال پنجاب اور یو پی میں اسمبلی انتخابات ہیں ۔ کسان تحریک کا مغربی
اترپردیش میں بھی پنجاب جیسا اثر ہے ۔ مظفر نگر فساد کے بعد یہ علاقہ بی جے
پی کا گڑھ بن گیا تھا دیکھنا یہ ہے کہ اس بار کسانوں سے ناروا سلوک کی بی
جے پی کو کیا قیمت چکانی پڑتی ہے۔ وزیر اعظم نے کسان رہنماوں کو ’پر جیوی‘
یعنی طفیلی کہا تھا ۔ پنجاب کے انتخابی نتائج نے ثابت کردیا کہ وہ خود
ریاست کے اندر اکالی دل کے طفیل زندہ تھی اور کسان نے اس بارزہریلی بیل کے
ساتھ اس پر پلنے والے پیڑ کو بھی اکھاڑ پھینکا ہے ۔ کسانوں کی جائز فریاد
سے منہ موڑنے والی بے حس سرکار پر باقی صدیقی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
چال ایسی غم زمانہ چلا، پھر نہ آگے ترا فسانہ چلا
آج کیسی ہوا چلی باقیؔ، ایک جھونکے میں آشیانہ چلا
|