کشمیر کا مسئلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا پاک وہند کی اپنی
عمر ہے ۔انگریز بہادرجب دوسری عالمی جنگ ہار چکا اور وہ اس قابل نہ رہا کہ
وہ اپنے مفتوح علاقے پر اپنا کنٹرول قائم رکھ سکے اس نے سب علاقے آزاد کرنے
کا فیصلہ کرلیا جس کی روح سے اس نے اپنے کنٹرول علاقے آزاد کر دیے جس میں
پاک وہند کے علاوہ چین انڈونیشیا لیبیا عرب علاقے اسٹریلیا کنیڈااور بھی
بہت سے علاقے شامل تھے۔ ان ملکوں کو آزاد کرتے وقت اس نے یہ خیال رکھا کہ
میرے یہاں سے جانے کے بعد یہ ملک مجھے پریشان نہ کریں بلکہ مجھے سلام کرتے
رہیں جیسے چین کو دو حصوں میں تقسیم کر گیا عرب علاقے آٹھ نوں ملکوں میں
تقسیم کیے گئے پاک وہند کو دو ملکوں میں ایسے تقسیم کی کہ پاکستان کا ایک
حصہ دوسرے سے ایک ہزار میل( سولہ سو کیلومیٹر ) کے فاصلے پر رکھا گیا اور
پھر کشمیر کو غیر منقسم چھوڑ دیا گیاتاکہ یہ لوگ امن سے نہ رہ سکیں جیسے دو
کتوں کے درمیان ایک ہڈی ۔ اس کے علاوہ طے یہ ہوا تھا کہ مسلم اکثریت والے
علاقے پاکستان کا حصہ ہونگے ۔اس میں بھی ڈنڈی ماری گئی مسلم اکثریت والے
تین اضلاع ہوشیار پور فیروز پور اور جالندھر جن سے پاکستان کے راستے کشمیر
کو جاتے تھے اور کشمیر سے منسلک تھے انڈیا کو دے دیے گئے ان تین اضلاع کے
انڈیا کے ساتھ جانے سے کشمیر ایسے ہو گیا جیسے انڈیا نے بغل میں لے لیا
ہواس کے علاوہ تین دریا راوی بیاس اور ستلج نکلتے تو کشمیر سے ہیں مگر ان
تین ضلاع سے ہو کر انڈیا والے پنجاب سے ہو کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں یہ
تین اضلاع اور تین دریاؤں کے انڈیا کے ساتھ ملنے سے پاکستان کے لئے پانی کا
مسلہ بھی پیدا ہو گیا جسے ۱۹۶۰ میں پاکستان کے جنرل اور صدر ایوب خان نے
سندھ طاس معاہدے سے کچھ حل کیا ۔
تقسیم پاک وہند کے فوراً بعد ۱۹۴۸ میں ہندوستان نے کشمیر پر فوج کشی کر دی
اس وقت پاک آرمی کے کمانڈر انچیف ایک انگریز جنرل ڈگلس گریسی تھے قائد اعظم
محمد علی جناح گورنر جنرل تھے اس نے آرمی چیف کو دفاع کرنے کا حکم دیا
کمانڈر انچیف نے فوج بھیجنے سے انکار کر دیا ۔ اس وقت قبائلی علاقے کے
لوگوں نے ہندوستان کی فوج کا مقابلہ کیا اور اسے نہ صرف روکا بلکہ پیشے
ہٹنے پر مجبور کر دیا ۔ جب ہندوستان نے ساراکشمیر اپنے ہاتھ سے جاتے دیکھا
تو یو این او میں حق خود ارادیت کی ْ قررا داد پیش کر دی جسے ہندوستان کے
حامیوں ملکوں نے فوراً منظور کر لیا۔ اس بعد ہندوستان اپنی ہی پیش کردہ
قرار داد پرعمل درامد سے مکر گیا وہ قرار داد اب بھی یو این او کے اجنڈھے
پر موجود ہے لیکن دینا کے سب چوہدری ملک مل کربھی اس قرارداد پر عمل درآمد
سے کتراتے ہیں کیونکہ اس سے مسلمانوں کو فائدہ ہو جائے گا جب مسلہ حل ہو
گیا ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کے ہمسائے ہو جائیں گے ان کی دشمنیاں
ختم ہو جائیں گیں ان کو فوج محدود مقدارمیں رکھنے کی ضرورت ہو گی ان کی
ضرورت کے لئے غیر مسلموں نے جو سامان جنگ کے لئے اسلہ فکٹریاں لگا رکھیں
ہیں وہ بند ہو جائیں گیں وہ ممالک منافع کی بجائے خسارے میں چلے جائیں گے ۔
دھوکا
یہ لفظ ویسے تو چھوٹا سا ہے مگر اس کے اثرات بہت برے ہیں ایک انسان سے لے
کر پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اسکے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا
کہ وہ دھوکا دیتے ہیں، نہیں دھوکا دیتے مگر اپنے آپ کو۔ یعنی جو کوئی بھی
دھوکا دیتا ہے بظاہر تو کسی کو دھوکا یا چکر دے رہا ہوتا ہے مگر اصل میں
اپنے آپ کو ہی دھوکا دے رہا ہوتا ہے جیساکہ کہا جاتا ہے کہ جو شخص بھی کسی
کے لئے گڑھاکھودتا ہے ایک دن وہی اس گڑھے میں گرتا ہے دھوکا کئی طرح سے دیا
جاتا ہے ملاوٹ کر کے،اچھی چیز دیکھا کر نکمی چیز دے کر ،جھوٹ بول کرجسے آج
کل موبائل پر کہا جا تا کہ میں تو اس وقت گھر سے کافی دور ہوں جبکہ بولنے
والا گھر میں ہی ہوتا ہے ،جعلی چیک دے کر رشوت لے کر زبان بدل کر عبارت بدل
کر گھر میں پانی نہ آنے پربھی بل پورا لے کر، پی ٹی سی ایل والے جب کنکشن
دیتے ہیں تو نیٹ کی ڈیوائس کی قیمت لے لیتے ہیں مگر کنکشن کاٹنے کا کہا
جاتا ہے تو اس وقت تک کنکشن نہیں کاٹتے جب تک دیوائس واپس نہیں لے لیتے ۔
بجلی کے بل میں مختلف قسم کے ٹیکس درج کر کے اصل بجلی کی قیمت سے زیادہ
قیمت وصول کر تے ہیں ۔ یہ سب کچھ کنزیومر کے ساتھ دھو کا ہو رہا ہوتا ہے اس
کے نتیجے میں محکمے خود دھوکے میں آجاتے ہیں اور پورا ادارہ بیٹھ جا تا ہے
تھانے میں ضمنی لکھنے والا جھوٹے پرچے کی ایسی ضمنی لکھتا ہے کہ اصل معاملہ
منظر سے ہٹ جاتا ہے ۔ رشوت لینے والا یہ سمجھتا ہے کہ اس نے مال اکٹھا کر
لیا لیکن نتیجے میں گھر میں کوئی بیماری آجاتی ہے اس پر خرچ ہو جاتا ہے
کوئی بچہ خراب نکل جاتا ہے رشوت لینے والا بعد میں پچھتا تا ہے ۔ عدالت میں
ہزاروں وکلا ہیں ایک آدمی کے ساتھ فراڈ ہوتا ہے وہ عدالت جاتا ہے ایک وکیل
صاحب اس کے ساتھ ہوتا ہے فراڈکرنے والے کے ساتھ بھی ایک وکیل صاحب ہوتا ہے
دونوں ایک دوسرے پر قانون کے مطابق بحث کر تے ہیں ایک حق پر دوسرادھوکے
پر۔بڑی مل یا فیکٹری والے سیلز ٹیکس کے نام پر عوام سے ٹیکس اکٹھا کر کے
حکومت کو دیتے ہیں یہ ٹیکس مل یا فیکٹری سے نکلنے والے مال پر حکومت وصول
کر تی ہے مل یا فکٹری والے ایک ٹرک ٹیکس ادا کر کے نکالتے ہیں باقی کئی ٹرک
حکومتی نمائندوں سے مل کر بغیر ٹیکس ادا کئے نکال لیتے ہیں جسے ٹیکس چوری
کہتے ہیں یہ عوام اور حکومت دونوں سے دھوکا کر تے ہیں ۔یہ ایک بہت بڑی
معاشرتی برائی ہے جس سے اگر ہم سب بچ جائیں تو ہماری دنیا اور آخرت دونوں
درست ہو سکتیں ہیں اﷲ تعالیٰ سے دعاہے کہ ہمیں اس سے بچنے اور سیدھے راستے
پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
|