گاندھی نگر کے سردار پٹیل اسٹیڈیم کو نریندر مودی کا نام
دیئے جانے پر لوگ عجیب عجیب اعتراض کررہے ہیں مثلاً یہ پوچھا جارہا ہے کہ
آخر وزیر اعظم کا کرکٹ سے کیا تعلق ؟ اس طرح کا سوال کرنے والے سادہ لوح
لوگ یاتو کرکٹ سے نابلد ہیں یا مودی جی سے کونہیں جانتے یا دونوں سےناواقف
ہیں ۔ کرکٹ دنیا کا واحد کھیل ہے جس میں دونوں جانب ایک ہی ٹیم کھیلتی ہے ۔
فٹبال اور ہاکی وغیرہ میں مخالف حریف ٹیموں کی گول پوسٹ سمت میں ہوتی ہے
لیکن کرکٹ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں دونوں طرف سے یکے بعد دیگرے مودی جی
اور شاہ جی جیسے ایک ہی ٹیم کے کھلاڑی گیند بازی یا بلہ بازی کرتے ہیں۔
مودی جی نے جب منموہن سرکار کے زمانے کی سرکاری اسکیموں کو اپنے نام سے پیش
کرنا شروع کیا تو لوگوں کو ’رام رام جپنا ، پرایا مال اپنا‘ والا محاورہ
یاد آگیا ۔ اسی طرز عمل کا ارتقائی مرحلہ ہے کہ انہوں نے سردار پٹیل
اسٹیڈیم کی ملکیت اپنے نام کرلی۔
مودی جی کا کرکٹ سے تعلق تلاش کرنے والے نہیں جانتے کہ وہ شعیب اختر سے بھی
زیادہ تیزی سے پھینکتےہیں ۔ اب نئے اسٹیڈیم میں وہ امبانی کی طرف پھینکیں
گے اور اڈانی کی جانب سے شاہ جی گیند بازی کریں گے ۔ اس طرح ’ہم دو ہمارے
دو‘کا عملی مظاہرہ دیکھ کر اسٹیڈیم میں براجمان ایک لاکھ دس ہزار شائقین
اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کروڈوں بھکت تالی پیٹیں گے ۔ اس ملک میں
بھکتوں کے تالی پیٹنے سے کوروناچلا جاتا ہے تو سردار ولبھ بھائی پٹیل کی
کیا بساط کہ وہ نہ جائیں ؟ کچھ نادان دوست یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ مودی جی
کو آخر ایسی جلدی کیا تھی ۔ ان کی پارٹی تو اب صدیوں تک حکومت کرنے کے لیے
اقتدار میں آچکی ہے اس لیےآگے والے کوئی اس سے بھی بڑا اسٹیڈیم تعمیر
کردیتے لیکن وزیر اعظم اپنے پریوار کی پرمپرا سے خوب واقف ہیں ۔ انہیں یقین
ہے کہ جو سلوک انہوں نے اپنے گرو کے ساتھ کیا ہے ان کے ساتھ چیلے بھی وہی
کریں گے ۔
موٹیرا اسٹیڈیم فی الحال شاہ جی کے حلقۂ انتخاب میں ہے ۔ وہ اس علاقے کے
شہنشاہ ہیں اس لیے چاہتے تو اسٹیڈیم اپنے نام کرلیتے لیکن عظیم تر مصالح کے
پیش نظر انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔ وہ سوچ رہے ہوں گے اگر مودی جی موقع ملنے
پر اپنے گرو سردار ولبھ بھائی پٹیل کی وراثت پر غاصبانہ قبضہ کرسکتے ہیں تو
میں کیوں نہیں کرسکتا ؟ یہ تو وقت اور موقع کی بات ہے اس لیے چند سال
انتظار کر کے پہلے اقتدار پر قبضہ کیا جائے اور پھر اس کے بعد اپنے من کی
بات اوراپنی من مانی ہوگی ۔ افتتاح کے موقع پر وزیر داخلہ امیت شاہ نے
بتایا کہ یہ مودی جی کا خواب تھا لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کا کیا
خواب ہے جسے وہ شرمندۂ تعبیر کرنا چاہتے ہیں؟ ویسے اپنے نورچشمی اجئے شاہ
کو بی سی سی آئی کا سربراہ بنا کر انہوں نے اس کی جانب اشارہ تو کر ہی دیا
ہے۔
جئے شاہ اور امیت شاہ کے درمیان گرو چیلا کا تعلق نہیں بلکہ باپ بیٹے کا
رشتہ ہے اس لیے وہ اپنے والد کے ساتھ اس طرح کی بے وفائی تو نہیں کرسکتا
جیسا کہ مودی جی نے اپنے گرو سردار پٹیل اور لال کرشن اڈوانی دونوں کے ساتھ
کی ہے ۔ پٹیل کے ساتھ اڈوانی کا ذکر اس لیے آیا کیونکہاتفاق سے دونوں کو
بی جے پی والے مردِ آہن کہتے ہیں ۔ سردار پٹیل کا جس وقت انتقال ہوا تو
مودی جی صرف تین ماہ کے تھے لیکن اڈوانی جی جب نائب وزیر اعظم بنے تو اس
وقت مودی جی سیاست میں ہاتھ پیر پسار چکے تھے ۔ اڈوانی جی کے حلقہ انتخاب
گاندھی نگر میں مودی جی ان کا پرچار کیا کرتے تھے ۔بعد میں وہ حلقہ امیت
شاہ کی نذر کردیا گیا اور اب اسٹیدیم کا نام رکھائی کے وقت کسی کو ان کا
وچار (خیال) تک نہیں آیا ۔ اڈوانی جی سوچ رہے ہوں گے کہ صدر نہ بنایا تو
نہ سہی کم ازکم اسٹیڈیم ہی میرے نام کردیتے لیکن خیر ان کے امیت شاہ سے
تعلقات پر راحت اندوری کا یہ شعر ترمیم کےساتھ صادق آتا ہے ؎
جو آج صاحبِ حلقہ ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی دوکان تھوڑی ہے
وزیر اعظم کا ایک خواب تو یہ تھا کہ گاندھی نگر کا اسٹیڈیم سردار پٹیل کے
بجائے ان کے نام ہوجائے جس کو شاہ جی نے شرمندۂ تعبیر کردیا ۔ یہ کام اگر
2014 میں کردیاجاتا تو ممکن ہے ہنگامہ کھڑا ہوجاتا اور پٹیل برادری احتجاج
شروع کردیتی اس لیے پہلے سردار پٹیل کو اپنایا گیا ۔ ان کی یاد میں اتحاد
کا مجسمہ تعمیر کیا گیا ۔یہ دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ ہے ۔ 2019کے انتخاب
سے قبل 2018 میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کے ۱۴۲ ویں یوم پیدائش پر وزیر اعظم
نے اس مجسمہ کی نقاب کشائی کی اور ہیلی کاپٹر سے اس پر پھول برسائے۔ کورونا
کے بعد پچھلے سال پہلی بار سردارپٹیل کا یوم پیدائش منانے کے لیے وہ گجرات
گئے اور مجسمۂ اتحاد کے پاس جاکر اپنا خراج عقیدت پیش کیا اور ساری قوم کو
اتحاد کی دوڑ میں شامل ہونے کی دعوت دی ۔ اس سال (2021) جنوری میں وزیر
اعظم نے سیاحوں کی مجسمۂ اتحاد تک رسائی کے لیے 8 نئی ریل گاڑیوں کا اعلان
کیا اور اس کے چالیس دن بعد خاموشی سے سردار ولبھ بھائی پٹیل اسٹیڈیم کو
اپنے نام کرلیا ۔ اس کو کرکٹ کی زبان میں گوگلی کہتے ہیں ۔ یعنی فریب کاری
گیندجو گرتی کہیں ہے اور پھر کسی دوسری جانب نکل جاتی ہے ۔ اس طرح بلے باز
دھوکہ کھاکر آوٹ ہوجاتا ہے۔ ملک کی عوام کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ وزیر اعظم
نے تیز گیند بازی کرتے کرتے ایک گوگلی پھینک دی اور سردار کو آوٹ کر کے
پویلین روانہ کردیا۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مجسمۂ اتحاد کی مانند اسٹیڈیم کو دنیا
کا سب سے بڑا کھیل کا میدان کیوں نہیں کہا جارہا ہے بلکہ کرکٹ گراونڈ کہنے
پر کیوں اکتفاء کیا جارہا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مودی جی کے مشیروں کو
غالباً شمالی کوریا نامی ملک کا علم ہی نہیں تھا جہاں انہیں کی مانند
نرگسیت کا شکار ایک جابر فرنروا حکومت کررہا ہے ۔شمالی کوریا کے دارالخلا
پینگ یانگ میں واقع رنگراڈو اسٹیڈیم کے اندر ڈیڑھ لاکھ شائقین کے بیٹھنے کی
گنجائش ہے۔ اس تعداد کو گھٹا کر اب ایک لاکھ ۱۴ ہزار بتایا جارہا ہے۔
نریندر مودی اسٹیڈیم میں اگر مزید پانچ ہزار لوگوں کی گنجائش نکال لی جاتی
تو وہ دنیا کا سب سے بڑا اسٹیڈیم ہوجاتا لیکن چوک ہوگئی ۔ اب وہ دوسرے نمبر
پر ہے مگر دنیا میں دس ایسے اسٹیڈیم ہیں جن کے اندر ایک لاکھ سے زیادہ
شائقین کھیل مزہ لے سکتے ہیں ۔ ان میں سے ۷ امریکہ کے اندر ہیں اور ایک ایک
شمالی کوریا، ہندوستان اور آسٹریلیا میں ہے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ آخر کم جونگ کے بعد نریندر مودی کو ہی دنیا کا سب
سے بڑا اسٹیڈیم بنانے کا خیال کیوں آیا ۔ ویسے بعید نہیں کہ مودی کی پیروی
میں کم جونگ بھی اس اسٹیڈیم کو اپنے نام سے منسوب کرکے تاریخ میں اپنا نام
روشن کرلے ۔ کرکٹ کے معاملے میں ہندوستان نے یقیناً آسٹریلیا کے میلبورن
اسٹیڈیم کو تقریباً ۱۰ ہزار شائقین سے مات دے دی ہے لیکن کیا اس سے گجرات
میں کرکٹ کو فروغ حاصل ہوگا ؟ اس بات کا امکان کم ہے ۔ اس لیے وہاں کا
نوجوان سوچے گا کرکٹ میں محنت کرکے نام کمانے کے بجائے سیاست میں بغیر محنت
کے شہرت حاصل کرنا یا تجارت میں بدعنوانی سے دولت کما کر اسٹیڈیم اور اس کے
کناروں کو اپنے نام کرلینا فائدے کا سودہ ہے۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ مودی جی نے سب سے اونچا مجسمہ اور سب سے بڑا اسٹیڈیم
بنانے کے لیے اپنے آبائی صوبے گجرات کا ہی انتخاب کیا حالانکہ سردار ولبھ
بھائی پٹیل صوبہ گجرات کے نہیں بلکہ پورے ملک کے وزیر داخلہ تھے ۔ اس لیے
ان کے مجسمے کا گجرات کے کسی ویرانے میں ہونا ضروری نہیں تھا ۔ ولبھ بھائی
پٹیل نے اپنا اچھا خاصہ وقت احمد آباد میں گزارا تھا ۔ وہاں بھی مجسمہ
کھڑا کیا جاسکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ احمد آباد میں پہلے سے
موجود ولبھ بھائی پٹیل اسٹیڈیم کو اپنے نام کرلیا گیا ۔ایک سوال یہ بھی ہے
کہ وزیر اعظم نریندر مودی اگر گجرات سے نکل کر وارانسی سے انتخاب لڑ سکتے
ہیں اور بڑودہ کی نشست خالی کرکے وہاں کے رائے دہندگان کی نمائندگی کرسکتے
ہیں تو اتر پردیش میں دنیا کا سب سے بڑا کرکٹ اسٹیڈیم کیوں نہیں بناسکتے ؟
سچ تو یہ مودی جی کے سارے خواب گجرات تک محدود ہیں ۔ انہیں مجسمۂ اتحاد سے
لے کر میدانِ انتشار تعمیر کرنے تک کسی کارِ خیر کے لیے دوسرے صوبوں کا
خیال نہیں آتا ۔ ان کی بولیٹ ٹرین ممبئی سے چھوٹ کر کسی اور شہر کی جانب
نہیں بلکہ احمد آباد کی طرف دوڑ پڑتی ہے؟ وہ چین کے سربراہ کو احمد آباد
کے بجائے وارانسی میں بلانے کی کشادہ دلی نہیں دکھاتے ؟ انہیں ٹرمپ کو
نمستے کرنے کے لیے احمد آباد کے سوا ملک کا کوئی اور شہر نہیں ملتا ۔ ایسا
اس لیے ہوتا ہے کہ مودی جی ہنوز اپنے آپ کو عالمی رہنما تو دور قومی رہنما
بھی نہیں سمجھتے ۔ وہ سات سالوں تک وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان رہنے کے
باوجود خود کوسچا گجراتی اور پکا علاقائی رہنما خیال کرتے ہیں ۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|