قومی اسمبلی کا حلقہ این اے
49وفاقی دارلحکومت کے کچھ شہری اور زیادہ تر دیہی علاقوں پر مشتمل ہے ۔اس
حلقے میں کافی عرصہ پاکستان پیپلز پارٹی کے نیئر بخاری کا طوطی بولتا رہا
لیکن گزشتہ انتخابات میں اس حلقے کا نقشہ بالکل بدل کر رہ گیا اور غیر
متوقع طور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نامزد امیدوار ڈاکٹر طارق فضل چودھری
اس حلقے سے فاتح قرار پائے ۔ڈاکٹر طارق چودھری الیکشن کی دوڑ میں تیسرے
نمبر پر تھے لیکن حادثاتی طور پر جیت ان کا مقدر بن گئی ۔حادثاتی طور پر اس
لیے کہ الیکشن کی دوڑ میں کھوکھر خاندان کے جواں سال چشم وچراغ مصطفیٰ نواز
اور پاکستان پیپلز پارٹی کے نیئر بخاری کے مابین اصل مقابلہ تھا ۔نیئر
بخاری بھارہ کہو اور گردونواح میں ذاتی اثر ورسوخ بھی رکھتے ہیں اور پیپلز
پارٹی کا روایتی اور نظریاتی ووٹ بھی انہی کے حصے میں جانا تھا جبکہ کھوکھر
خاندان دوسری اطراف کے دیہی علاقوں میں خاصی مضبوط پوزیشن کا حامل ہے ۔
حاجی نواز کھوکھر اور تاجی کھوکھر کی مصطفٰی نواز کی پشت پر موجودگی بھی ان
کی پوزیشن کے لیے استحکام کا باعث تھی لیکن کورال چوک میں پاکستان مسلم لیگ
(ن)کے جلوس پر فائرنگ اور مسلم لیگ کے کارکنان کے قتل نے اس حلقے میں وہی
کیفیت پید اکر دی جو گزشتہ انتخابات میں ملکی سطحی پر محترمہ بے بھٹو کے
قتل کے بعد پیدا ہوئی ۔پاکستان پیپلز پارٹی کے حق میں جو ہمدردی کی لہر
اٹھی اس نے پیپلز پارٹی کو حکمران جماعت بنا دیا اسی طرح این اے 49میں جلوس
پر فائرنگ کے نتیجے میں پاکستان مسلم لیگ (ن ) کے حق میں ہمدردی کی جو لہر
اٹھی اس نے ڈاکٹر طارق فضل چودھری کو قسمت کا سکندر بنا ڈالا۔ ڈاکٹر طارق
فضل چودھری کی کامیابی کا ایک اہم عنصر مذہبی طبقے اور شرفاء کی طرف سے ان
کی خاموش حمایت بھی تھی ۔کئی مساجد سے جمعہ کے خطبات میں ان کے حق میں بات
کی گئی اور پھر وہ روایتی حلقے جہاں سے ہمیشہ ان کے مخالف امیدوار کامیاب
قرار پاتے وہاں سے بھی ڈاکٹر طارق کے ووٹ اپنے مخالف امیدواروں کے مقابلے
میں دوگنا نکلے ۔
یہ تو گزشتہ انتخابات کا ایک جائزہ تھا جبکہ اس وقت اس حلقے کا منظر بالکل
بدل چکا ہے ۔ڈاکٹر طارق چودھری ایک مرتبہ پھر مقابلے کی دوڑ میں تیسرے نمبر
پر چلے گئے ہیں ۔ ڈاکٹر طارق چودھری بلا شبہ ایک پڑھے لکھے ،خوش اخلاق
،باصلاحیت اور اچھے خاندانی پس منظر کے حامل ہیں ۔ اگر ان کا عام
سیاستدانوں سے موازنہ کیا جائے تو یقیناً ان کا دم غنیمت محسو س ہو گا۔ اگر
وہ اس حلقے سے کامیاب قرار پا کراپنے حلقے کے مسائل ومشکلات پر توجہ دیتے
،عوام کی فلاح وبہبود کو اپنی ترجیحات میں شامل کرتے اور علاقے کی تعمیر
وترقی کے لیے سنجید ہ ہوتے تو یقیناً وہ اس علاقے میں ایک انقلاب برپا کر
سکتے تھے بلکہ پورے ملک کے لیے ایک مثال قائم کر سکتے تھے ۔ ڈاکٹر طارق
چودھری ٹی وی ٹاک شوز پر تو مسلسل نظر آتے رہے لیکن اپنے حلقے کے عوام کو
کم ہی نظر آئے ۔انہوں نے الیکشن سے پہلے پاکستان مسلم لیگ کے ”قائدین “کی
خدمت ،میزبانی ، ا ن کے غیر ملکی دوروں کا اہتما م کر کے جس طرح ٹکٹ حاصل
کیا اسی طرح وہ آئندہ الیکشن کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کے حصول
کو ہی کامیابی کی معراج خیال کرتے ہوئے اپنی پارٹی کی وکالت اور ترجمانی تو
کرتے رہے لیکن اپنے حلقے کے عوام کی آواز نہ بن سکے بلکہ اگر یہ کہا جائے
تو بے جا نہ ہو گا کہ انہوں نے اپنے حلقے کے لوگوں کو خاطر میں لانے کی
زحمت ہی نہ فرمائی۔اس وقت ان کے حلقے کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ،پانی اور گیس کے
لیے ترستے عوام اور دیگر بنیادی ضروریات وسہولیات سے محروم لوگوں کو دیکھ
کر ان کے مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔دیہی علاقوں کو چھوڑئیے ایک
طرف ڈاکٹر طارق چودھری کے بالکل پڑوس بلکہ ان کے گھر میں واقع شہزاد ٹاؤن
چراغ تلے اندھیرے کا منظر پیش کر رہا ہے ۔شہزاد ٹاؤن کے لوگ اپنے مسائل کے
لیے عرصے سے دربدر ہیں لیکن مجال ہے جو کوئی ان کے مسائل حل کرنے کی طرف
توجہ دیتا ہو ۔باقی مسائل کا کیا رونا ایک یوٹرن کا مسئلہ پیچیدہ ہو کر
گویا کہ مسئلہ کشمیر کی شکل اختیار کر گیا ہے۔سی ڈی اے سے پی سی ون کی
منظوری کے باوجود عملی طور پر اس یوٹرن کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہو پایا
تو کسی بڑے مسئلے کے حل کی کیا امید کی جا سکتی ہے ؟
حلقہ این اے 49میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم
لیگ (ق ) کی مفاہمت کے نتیجے میں یہ حلقہ کھوکھر خاندان کے حصے میں آگیا ہے
۔نیئر بخاری چونکہ پہلے ہی ایوان بالا کا نہ صرف یہ کہ حصہ بلکہ قائد ایوان
بھی ہیں اس لیے پی پی اور ق لیگ کی مفاہمت کے بعد یہاں اگلے انتخابات میں
مصطفٰی نواز کھوکھر اتحادی امیدوار ہوں گے ۔ اگر پی پی اور ق لیگ کی دوستی
برقرار رہتی ہے تو اگلے انتخابات میں بظاہر اس حلقے میں فتح کا ہُما مصطفٰی
نواز کے سر بیٹھتا محسو س ہوتا ہے لیکن اگر پی پی اور ق لیگ کا اتحاد ٹوٹ
جاتا ہے تو اس کا فائدہ طارق چودھری کو ہونے کی بجائے جماعت اسلامی یا
تحریک انصاف کو ہو گا ۔اس حلقے میں ان دنوں سرگرمی کی ایک تازہ ترین مثال
جماعت اسلامی ہے۔جماعت اسلامی کے حلقہ این اے 49کے لیے نامز د امیدوار زبیر
فاروق نے ایسے انداز سے انتخابات کی تیاریاں شروع کر دی ہیں جیسے انتخابات
بالکل سر پر آپہنچے ہوں۔انہوں نے گزشتہ ہفتے اپنے عوامی رابطہ دفتر کے قیام
کے موقع پر جس طرح ”شو آف پاور “کیا اسے اس حلقے میں بہترین ”انٹری “قرار
دیا جا سکتا ہے ۔چٹھہ بختاور اسلام آباد میں برلب سڑک اتنا عظیم الشان اور
منظم انتخابی اجتماع منعقد کرکے زبیر فاروق نے اس حلقے کے پرانے سیاسی
پنڈتوں کے لیے یقیناخطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں ۔جماعت اسلامی اسلام آباد
کے شہری حلقوں میں میاں اسلم کی قیادت میں مدتوں سے چھائے سیاستدانوں سے
ملک کی اہم ترین سیٹ جیت کر یہ ثابت کر چکی ہے کہ ان کے بے لوث کارکن،منظم
تنظیمی ڈھانچہ ،مقصدیت کی لگن اور باکردار رہنماء کسی بھی جگہ کی بازی الٹ
سکتے ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ جماعت کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کے جذباتی
، غیر سیاسی اور غیر دانشمندانہ فیصلے نے حلقہ این اے 48سے فتح کا پکا
پکایا پھل دوسروں کی گود میں گرا دیا ۔لیکن اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ جماعت
اسلامی تازہ دَم ہو کر اسلام آباد کے دونوں حلقوں میں جیت کی منزل تک
پہنچنے کے لیے سفر کا آغاز کر چکی ہے ۔شہری حلقے یعنی این اے 48 میں تو
شاید جماعت کو زیادہ مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے لیکن حلقہ این اے 49یعنی
دیہی حلقے میں اس وقت ایک طرف پی پی اور مسلم لیگ (ق) کاگٹھ جوڑ ہے ،پی پی
کے نظریاتی ووٹ ،کھوکھر خاندان کا اثر ورسوخ اور حکومتی سرپرستی چند ایسی
وجوہات ہیں جن کی بنا پر اس حلقے میں کامیابی حاصل کرنا نسبتاً مشکل ہو گا
۔اس حلقے میں ایسے مذہب پسند جو جماعت ِاسلامی سے وابستہ نہیں ان کا ایک
بڑا ووٹ بینک موجود ہے جس نے گزشتہ انتخابات میں ڈاکٹر طارق چودھری کی فتح
میں کلیدی کردار ادا کیا ۔اب کی بار کھوکھر خاندان کی بعض مذہبی طبقات
بالخصوص مولانا عبدالعزیز اور لال مسجد سے قربت کی وجہ سے یہ ووٹ مصطفیٰ
نواز کے حصے میں بھی جا سکتا ہے لیکن اگر جماعتِ اسلامی کے زبیر فاروق اس
خاموش مذہبی طبقے کے ووٹ کو حاصل کرنے کی حکمت عملی وضع کرلیتے ہیں اور
تحریک انصاف اور دیگر دائیں بازو کی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل کرنے میں
کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس حلقے میں اَپ سیٹ بھی ہو سکتا ہے۔جماعت اسلامی نے
جس جوش وخروش سے اس وقت رابطہ عوام مہم شروع کی ہے اگر یہ سلسلہ یونہی جاری
رہتا ہے تو عین ممکن ہے کہ جماعت اسلامی یہ سیٹ نکالنے میں بھی کامیاب ہو
جائے اور اگر اس مرتبہ کے الیکشن میں جماعت ِاسلامی یہ نشست حاصل نہ بھی کر
پائی توکم از کم مقابلے کی دوڑ میں دوسرے نمبر پر ضرور دکھائی دے گی اور
اگلے انتخابات میں زیادہ بہتر نتائج حاصل کر سکے گی۔ |