کوئی آبلہ پا اس وادی پر خار سے گزرے

اقوام و ملک کا عروج و زوال ان کی قیادت سے وابستہ ہوتا ہے ۔تاریخِ عالم پر نظر ڈالیں یہ حقیت آشکار ہوتی ہے کہ اگر کسی جا ہل ا ور کاہل قوم کو بھی ایک ایماندار، محبِ وطن قیادت نصیب ہوئی تو اس نے عروجِ تام حاصل کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اقوا عالم میں نمایا ں ہوتی گئی اور ارتقاء کی منازل انتہائی سرعت کے ساتھ طے کرتی گئی۔چین اور ملائیشیا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔چین پاکستان سے ایک سال بعد آزاد ہوا چینی قوم اپنی روایتی کاہلی اور سستی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور تھی اسی فیصد لوگ نشہ کی لعنت میں غرق تھے مگر جب اسے مازﺅے تنگ کی ولولہ انگیز قیادت نصیب ہوئی تو اس نے ترقی اور ارتقا ءکا سفر اس تیزی سے طے کیا کہ اہلِ عالم انگشت بدنداں رہ گئے ۔ملائیشیا بھی بڑی تیزی سے اسی راہ پر گامزن ہے ۔

جبکہ وطن ِ عزیز ۳۶ برس کے بعد بھی منزل پر پہنچنا تو درکنار اپنی منزل کا تعین بھی نہیں کر پایا ۔ ہر شعبہ ، ہر ادارہ زوال پذیر ۔ اور یہ پاکستان سے مسائلستان کا روپ دھار چکا ہے ۔ لاکھوں لوگ جنہوں نے اپنی جان و مال اور اولاد کو قربان کرکے ایک آزاد ، خود مختار اور خوشحال ملک کا خواب دیکھا تھا ۔انکی آنکھیں اپنے خواب کی تعبیر دیکھنے کو ترس گئی ہیں ۔ اور ان کے وہ حسیں خواب نااہل ،کرپٹ اور ملک دشمن قیادت کی وجہ سے عذاب بن گئے ہیں ۔اور وہ سوچ رہے ہیں کہ کیا اسی پاکستان کے لیے انہوں نے اپنی اولاد کی ہڈیا ں اس وطن کی بنیادوں میں دفن کی تھیں ؟کیا وہ لہلاتے کھیت اس لیے چھوڑ کر آگئے تھے کہ یہاں ایک طبقہ تو دو وقت کی روٹی کو ترس جائے اور دوسرا سر تا پا عیش و عشرت کے مزے لوٹے ؟
اک طرف عیش میں ڈوبی ہوئی ہے زندگی
دوسری طرف پاﺅں میں جوتا تک نہیں

تاریخِ پاکستان پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ابتک ملک کی زمامِ اقتدار تین طبقوں (فوجی دکٹیٹروں ،سرمایا داروں اور جاگیرداروں) کے پاس رہی ۔اور ان تینوں طبقوں کا عام آدمی سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی ان کی سوچ جمہوری ہو سکتی ہے ہر فوجی ڈکٹیٹر کی نفسیات ہی یہ ہے ہر کوئی اس کے حکم کی تعمیل کرے وہ اختلاف رائے کو برداشت ہی نہیں کرتا کیونکہ اس کی ٹریننگ ہی ایسے ماحول میں ہوئی ہوتی ہے اور وہ ناں کا لفظ سننے کا عادی ہی نہیں ہوتا لہٰذا وہ ملک کو جمہوری انداز کی بجائے ایک بٹالین کی طرح چلاتا رہا ہے ۔ اور جاگیر دار جب کبھی ملک کا سربراہ بنا اس نے عوام کو اپنا مزارع اور ملک کو اپنی جاگیر سمجھا اور اسے اپنی جاگیر کی طرح چلاتا رہا ۔ اور رہا سرمایا دار تو اس کی بھی ایک ہی سوچ ہو تی ہے کہ ہر چیز ، ہر ادارے اور ہر شخص کو پیسے سے خریدا جا سکتا ہے اور جب کبھی وہ حکمران بنا اس نے بھی ملک کو ایک فیکٹری اور فونڈری کی طرح چلایا ۔ لہذا ان نام نہاد عوامی حکمرانوں نے جمہور کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جھوٹے نعرے لگاتے رہے ۔ عوام کو بےوقوف بنا کر ان پر حکومت کرتے رہے۔سب نے حسبِ توفیق ملک کو لوٹا اپنے بینک بھرے۔ملک و عوام کو کنگال اور خود کو خوشحال کیا۔اور ان نام نہاد حکمرانوں کے بطن سے اب تک سوائے دہشت گردی،بھوک ، افلاس، غربت ، فرقہ پرستی بے حسی اور قومی بے حمیتی کے کچھ برآمد نہیں ہوا۔اگر غور کریں تو یہ سب فوجی ڈکٹیٹر ، جاگیر دار ، سرمایا دار ،سردار اور زردار ایک ہی قبیلے کے افراد ہیں ۔ سب اپنی اپنی باریوں اور یاریوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ان کا ماضی اور حال مالا مال ہے۔

میری نگاہ میں ملکی حالات بدلنے کا صرف اور صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ عوام اب اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑی ہو۔اپنی ہی صفوں سے ایماندار، تعلیم یافتہ اور اہل قیادت کا انتخاب کرے ۔ ایسی قیادت جسے معلوم ہو کہ بھوک ہوتی کیا ہے؟ اور غربت کے دکھ کیا ہیں؟ ۔ میڈیا کا اس میں بہت اہم کردار ہے ۔ وہ بھی روایئتی صحافت کو ترک کرکے سوشل جرنلزم کی طرف آئے۔ متوسط طبقہ ہے اہل اور ایماندار لوگوں عوام سے روشناس کروائے۔ اور عوام میں اپنے حق کے لئے اٹھ کھڑا ہونے کا شعور بیدار کرے۔
دنیا میں اس سا منافق نہیں قتیل
جو ظلم تو سہتا ہے ،بغاوت نہیں کرتا

ان نام نہاد لیڈروں کے نعرے ، وعدے، سیرت ، کردار ، اعمال اور افعال سب دیکھ لیا ۔ اب تو لوگ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ قدرت کسی ایماندار ، مخلص اور محب وطن رہنما کو اس قوم کی قیادت کے لئے مقرر کرے۔
کانٹوں کی زباں پیاس سے سوکھ گئی یا رب
کوئی آبلہ پا اس وادی پرخار سے گزرے
Shahzad Ch
About the Author: Shahzad Ch Read More Articles by Shahzad Ch: 28 Articles with 30687 views I was born in District Faisalabad.I passed matriculation and intermediate from Board of intermediate Faisalabad.Then graduated from Punjab University.. View More