کورونا وائرس نے یوں تو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے
رکھا ہے ،اس وائر س کی وجہ سے 60سال سے زیادہ عمر رسیدہ افراد متاثر ہوئے
اور بہت سی خواتین و حضرات کی موت واقع ہوئی ۔دنیا کے بڑے ممالک میں شرح
اموات بہت زیادہ رہی اس کے مقابلے میں پاکستان میں اس کی شرح زیادہ
تشویشناک نہیں رہی کیونکہ یہاں کے عوام میں دیگر ممالک کے مقابلے میں قوت
مدافعت زیادہ پائی گئی ۔گذشتہ تقریباً سوا سال کے عرصے میں کورونا وائرس نے
بڑوں کے مقابلے میں بچوں کوتھوڑے مختلف طریقے سے متاثر کیا بلکہ اگر یوں
کہا جائے کہ اس وباء سے بچے کافی حدتک محفوظ رہے تو یہ غلط نہ ہوگا ۔امریکہ
میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق بچوں میں کورونا وائرس کے امکانات بڑوں کے
مقابلے میں تقریباً 10فیصد کم ہوتے ہیں، امریکہ میں متاثرہ بچوں کی شرح
10فیصد سے کم رہی ۔جبکہ پاکستان میں صرف ایک بچے کے متاثر ہونے کی اطلاع کی
بھی بعد ازاں تصدیق نہیں ہو سکی تھی ۔اس سے یہ بات واضح ہے کہ پاکستان میں
بچے کورونا سے محفوظ رہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں میں مختلف وجوہات کی
بناء پر اس مرض کے انفیکشن کے امکانات کم ہوتے ہیں۔مثلاً بچوں کی ناک کی
ساخت سمیت کچھ دیگر وجوہات کی بناء پر وہ اس مرض سے کم متاثر ہوتے ہیں۔
اسرائیل میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق بڑوں کی نسبت بچوں میں کورونا کے
امکانات 50فیصد سے بھی کم ہوتے ہیں ۔plosنامی غیر ملکی جریدے سمیت دیگر
رسائل میں شائع شدہ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ 20سال سے کم عمر کے افراد
کورونا سے کم ہی متاثر ہوتے ہیں ۔اور بفرض محال کسی بچے کو کورونا ہو بھی
جائے تواس کے اثرات کم شدید ہوتے ہیں ۔ماہرین کے مطابق بچوں کے ذریعے
انفیکشن کے پھیلنے سے نقصانات کم ہوتے ہیں۔
سٹونی بروک چلڈرن ہسپتال اورتحقیقی ادارے کے سربراہ ڈاکٹرشیرون نیچ مین(Dr.
Sharon Nachman) کا کہنا ہے کہ بچوں کا اندرونی دفاعی نظام کورونا کے خلاف
زیادہ موثر ہوتا ہے ۔کیونکہ ان میں قدرت کی طرف سے ایک خاص قسم کا
’’مدافعتی نظام ‘‘کوروناکے خلاف جسم میں موجود ہوتا ہے ،یہی وجہ سے بچے اس
نظام کے باعث کورونا سے محفوظ رہتے ہیں ۔وہ تما م افرادجن کا’’ پی سی
آر‘‘ٹیسٹ کیا گیا ،ساتھ ہی ان کے مختلف سریالوجیکل ٹیسٹ کئے گئے ۔ان کی
رپورٹس کے مطابق بچوں میں بالغ افرادکی نسبت کورونا کے امکانات صرف 43فیصد
ہوسکتے ہیں ۔اور بچوں میں PCRٹیسٹ +positiveہونے کے چانسز کم ہوتے ہیں۔سچ
تو یہ ہے بچے جسم میں موجود مدافعتی نظام کے باعث کورونا وائرس کا بہتر طور
پر مقابلہ کر سکتے ہیں ۔
پاکستان میں بچوں کو کوروناسے محفوظ رکھنے کے لیے حکومت نے تمام تعلیمی
ادارے طویل عرصہ بند رکھے ،اسی بناء پر بچوں کا بہت زیادہ تعلیمی نقصان ہوا،
گو کہ حکومت اور تعلیمی اداروں کی طرف سے بچوں کو ’’آن لائن‘‘پڑھانے کی
حکمت عملی اپنائی گئی لیکن طلبہ وطالبات کی اکثریت’’آن لائن سسٹم ‘‘ سے
نابلد تھے ،دیہات میں انٹرنیٹ سروسز نہ ہونے کی وجہ سے ایک کثیر آباد ی
’’آن لائن ‘‘ تعلیم سے مستفید نہ ہو سکی ، المیہ یہ رہا کہ بچے کمپیوٹر پر
’’آن لائن تعلیم ‘‘ سے استفادے کی بجائے’’ پب جی‘‘ ٹائپ گیمز اور سوشل
میڈیا کے ہو کر رہ گئے ۔گویا کورونا وائرس نے انسانی جانوں کے زیاں سے
زیادہ تعلیمی شعبے کو نقصان پہنچایا ۔اس طرح ہونے والی بربادی کا ازالہ
آئندہ کئی برس تک ممکن نہیں رہا ۔
پاکستان بھر میں گذشتہ تقریباًسوا سال کے دوران کورونا سے بچوں کے متاثر
ہونے کی کوئی اطلاع نہیں پائی گئی ۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم وباء کے
دوران بچوں کے معاملے میں احتیاطی تدابیر کو اہمیت نہ دیں ۔اب جبکہ حکومت
یکم مارچ سے ملک بھر میں کورونا کے حوالے عائد پابندیاں اٹھانے کا ارادہ
رکھتی ہے اور تعلیمی ادارے بھی کھولے جا رہے ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ
ہم از خود عالمی ادارہ صحت کی جاری کردہ ہدایات کے مطابق احتیاط کا دامن
ہاتھ سے نہ چھوڑیں ۔تعلیمی سرگرمیاں بندریج بحال کئے جانے سے بہتری آئے گی
۔ہم سب یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ تعلیمی اداروں کی بندش سے کتنا نقصان
ہوچکا ہے ۔ اب اس نقصان کے ازالے کے لیے جہاں بچوں کو اپنی تعلیم پر زیادہ
سے زیادہ توجہ دنیا ہو گی ،وہاں اساتذہ کرام کو بھی چاہئے کہ وہ بچوں کو
ایک بار پھر تعلیم کی جانب راغب کرنے کے لیے اقدامات پر دھیان دیں ۔بچوں کا
مستقبل تعلیم سے وابستہ ہے ،بیماریاں تو انسان کے لیے آزمائش ہوا کرتی ہیں
،کورونا ہو یا کوئی اور بیماری ان سے ہمیں خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے ۔ہر
بیماری کا علاج ممکن ہے ۔لیکن ہم اگر بیماری کا ’’خوف‘‘ اپنے دل و دماغ میں
بٹھا لیں گے تو اس سے ہماراسارا جسمانی نظام تباہ ہو سکتا ہے ۔’’خوف‘‘کی
وجہ سے ہمیں اور بہت ہی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔بچوں کو بھی کسی بیماری
سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہئے ۔اور انہیں اپنی تمام تر توجہ حصول علم پر
مرکوز رکھنا چاہئے ۔کیونکہ جدید علوم اور ٹیکنالوجی سے آگاہی کے بغیر زندگی
میں کامیابی و کامرانی ممکن نہیں ۔
|