بہت زیادہ میٹھا۔۔زہر ہوتا ہے - چوتھی قسط

میرے اس انداز کو دیکھ کر ریاض نے ایک اور تجویز میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا،انکل اگر آپ ضرور کچھ دینا ہی چاہتے ہیں تو یہ کام مل کر کر لیتے ہیں اگر کچھ نفع ہوگا تو بانٹ لیں گے اور خدا نخواستہ کچھ نقصان ہو ا تو آپ اکیلے کیوں برداشت کریں اُس میں بھی شیئر کر لیں گے،کیا کہتے ہیں آپ ؟ میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا نہیں بھائی آپ تو بڑے لوگ ہیں کروڑوں میں کام کرنے والے اور میں تو ایک معمولی بانس کا تاجر ہوں میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ میں آپ سے پارٹنر شپ کرنے کا سوچوں!! میری بات کے جواب میں ریاض نے وہی شیخی والا انداز اپناتے ہوئے کہا، انکل آپ پیسوں کا فکر کیوں کرتے ہیں ،آپ ایک پیسہ بھی نہ لگائیں پوری سرمایہ کاری کراچی میں بھی اور یہاں بھی ہم کریں گے آپ کی نگرانی میں کام ہوگا نفع نقصان میں برابر کے حصہ دار ہوں گے،اب تو آپ کو کوئی اعتراض نہیں ؟میں نے اپنے آپ پر ذرا طنز کرتے ہوئے جواب دیا، میرے ابھی ایسے حالات نہیں ہوئے کہ میں بالکل ہی مُفت کی کھانے والا بن جاﺅں ہاں میں کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ میں آپ کے برابر پیسہ لگاﺅں گا مگر تھوڑ بہت جو کچھ مجھ سے ہو سکے گا میں بھی حصہ ڈال دوں گا ، ریاض نے جلدی کہا، تو بات طے ہو گئی کہ ہم لوگ مل کر کام کریں گے اُس کی اس بات سے مجھے ایسے لگا کہ جیسے اُس کے دل کی مراد پوری ہو گئی ہو،جیسا کہ اُس نے بعد میں مجھے بتایا کہ اُس کی دلی خواہش تھی کہ میرا بھی کراچی سے کوئی اپنا ذاتی کام ہو جو اس مچھلی کے کام کے علاوہ میں کر سکوں اس کی میں نے ایک بار کوشش بھی کی ،مگر ناکام رہا، میں نے جب پوچھا کہ تمہارے ’‘ BOSS “ کواس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا ؟ تو اس نے بتایا کہ میں ان کی اجازت سے یہ کام کر رہا ہوں اس سے پہلے بھی میں نے ایک کونٹینر چنا‘ کراچی بھیجا تھا جس میں ناتجربہ کاری اور میرا چھوٹا بھائی جس نے ایم بی بی ایس کر کے ابھی ابھی اپنا اورنگی ٹاﺅن میں کلینک شروع کیا ہے اس کی عدم توجہی سے نقصان اٹھانا پڑا ، آپ سے مل کر کام کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ آپ کا تجربہ اور مارکیٹ سے لنک ہمارے لیے انشاللہ بہت فائدہ مندہو گا، اور ہم لوگ کھل کے کام کر سکیں گے، ایک اور بات جو میں آپ کو بتانا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ کہ آپ نے شروع میں جس پارٹی کو یہاں خط لکھا تھا اُس پارٹی سے میرا دوستانہ ہے ، اُس کو جس وقت آپ کا خط ملا میں اس کے پاس بیٹھا تھا ، ایک پاکستانی پارٹی نے اس سے کسی وجہ سے کام کرنا چھوڑ د یا جس سے وہ دل برداشتہ ہو گیا کہ اب کسی پاکستانی سے کام نہیں کروں گا ، اُس نے وہ خط مجھ سے پڑھوایا اور میں نے جب خط کا جواب دینے کو کہا تو اس نے وہ خط مجھے دیتے ہوئے کہا کہ آپ ہی اس سے کام کر لیں مجھے تو پاکستان سے کام کرنے میں اب کوئی دلچسپی نہیں، لہذا آپ کے خط کا جواب بھی میں نے ہی دیا تھا اُس پارٹی سے بھی کسی دن آپ کو ملوائیں گے ۔

میرے پوچھنے پر اُس نے اپنی فیملی کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ چار بہن بھائی ہیں بڑے بھائی اور بہن شادی شدہ ہیں جبکہ میری اور ڈاکٹر فیاض کی ابھی شادی نہیں ہوئی آپ کی طرح محنتی باپ ہیں جنہوں نے ہمارے کہنے پر بھی کہ اب آپ آرام کریں کام کرنا نہیں چھوڑا صبح سائیکل پر انڈوں کے کریٹ لاد کر نکل جاتے ہیں اور دوکانوں پر سپلائی کر کے شام کو وصولی کرنے چلے جاتے ہیں، ماں بھی آپ ہی کی طرح شوگر کی مریضہ ہیں سب لوگ ایک ہی گھر میں اورنگی ٹاﺅن کے سیکٹر گیارہ میں رہتے ہیں اس دفعہ کراچی جانے سے آپ ہمارے گھر پر ہی رکیے گا میں بھائی کو فون کر دوں گا وہ آپ کو لینے ائرپورٹ آ جائے گا، اس کی ان باتوں نے میرے دل میں رہے سہے شک و شبہات بھی دور کر دیئے جو اس سے مل کر کام کرنے میں ہچکچاہٹ تھی سب دور ہو گئی اور میں نے بھی اپنا دل مضبوط کر لیا کہ اس کے فیملی بیک گراﺅنڈ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بھی آٓگے بڑھنا چاہتا ہے جو کبھی مجھ سے دھوکہ نہیں کرے گا، لہٰذا میں نے پوری توجہ سے بانس کی تیاری شروع کروا دی جس میں فریدہ کو مال کی خریداری اور لیبر کی ذمہ داری سونپ دی گئی میرا کام تھا صبح سے شام تک گودام میں مزدوروں کے سر پر رہ کر ان کو کٹائی اور پیکنگ کی ہدایات دیتے رہنا،وہاں کی لیبر جس میں عورتیں بھی کام کرتی ہیں ہمارے ہاں کی طرح کام چور نہیں ایک دفعہ سمجھا دینا ہی کافی تھا، جیسا کہ میں پہلے بھی تحریر کر چکا ہوں کہ بانس کی ہر کوالٹی مختلف کاموں میں استعمال ہوتی ہے ، چھوٹی بڑی پتنگ میں لگانے کے لیے انہی سائزوں کی کٹنگ جس میں بانس کی لچک کا خاص خیال رکھا جاتا ہے،اس کے علاوہ ٹینٹ میں لگانے والا بانس اور حقہ کی نے میں استعمال ہونے والا یہ الگ الگ قسم کے بانس ہوتے ہیں ،سب سے پہلے ہم نے پتنگ کے سائز کٹوانے شروع کئے باقی قسمیں چونکہ رنگون میں دستیاب نہیں تھیں سو ان کے لیے ایک نور محمد نامی بنگالی جو مچھلی کی پیکنگ کے لیے کارٹون سپلائی کرتا تھا، اُس نے بتایا کہ اس کے گاﺅں کے پاس پہاڑوں میں اس کوالٹی کا بانس بہت ہوتا ہے ، ہم نے اس سے سیمپل لانے کو کہا جس میں اس نے دس دن بعد جو نمونہ لا کر دکھایا وہ ہماری منشاء کے مطابق نہیں تھا اس لیے دوبار ہ اُس کو سمجھا کر بھیجنا پڑا ، اتنے عرصہ میں میرا پندرہ دن کا ویزا ختم ہو گیا ، ریاض نے بتایا کہ آپ کا ٹورسٹ ویزا ہے اس لیے اس کے بڑھانے کا کوئی چانس نہیں ، ہاں اگر آپ اوور اِسٹے یعنی مزید رکنا چاہیں تو یہاں کی امیگریشن کا قانون ہے کہ آپ کو ایک دن کے لیے تین ڈالر جرمانے کے طور پر بھر کر جو آپ کو جاتے وقت ائر پورٹ پر ادا کرنے پڑیں گے، جتنے دن چاہیں رک سکتے ہیں کوئی رکاوٹ نہیں، میں نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا ،واہ بھئی واہ کیا بات ہے ، اسی لیے ویزا بڑھانے پر پابندی ہے کہ ڈالر ملتے رہیں، اور کیا کیا قانون ہیں یہاں غیر ملکی کے لیے ذرا پتہ تو چلے اب تو یہاں آنا جانا لگا رہے گا، ریاض نے مسکراتے ہوئے کہا ،انکل یہاں کا باوا آدم نرالا ہے ، ایک طرف قانوں اتنے سخت ہیں کہ کوئی بندہ چاہے یہاں کا ہو یا پردیسی بغیر پولیس کو اطلاع دیے نہ کہیں آ سکتا ہے اورنہ جا سکتا ہے آپ کو جو ہم نے اپنے گھر پر رکھا ہے یہ بھی غیر قانونی ہے مگر ہم نے چونکہ اس علاقے کا جو پولیس کا مخبر ہے اُس کے ساتھ تعلقات اچھے رکھے ہوئے ہیں اس لیے ہمیں کوئی پوچھنے نہیں آیا ورنہ تو اگر کوئی داماد بھی اپنے سسرال میں ایک دن کے لیے آئے تو اُسے پولیس میں رپورٹ کرنی پڑتی ہے اور جائے وقت ایگزٹ پرمٹ نہیں لینے سے پولیس سسرال والوں کو پریشان کرتی ہے کہ بندہ کہاں ہے اسے حاضر کرو ، میں نے حیران ہو کر پوچھا ، اور تم لوگ جو سالہا سال یہاں رہتے ہو ، جواب ملا، ہمارا بھی ویزا نہیں بڑھتا ہم لوگ ایک بنکاک کا چکر لگا کر وہاں سے مزید تین مہینے کا ویزا لے کر آتے ہیں،میرے لیے یہ معلومات نئی تھیں جب میں نے یہ کہا کہ اس طرح تو آپ کو تھائی لینڈ آنے جانے کے اخراجات سے یہ بہت مہنگا پڑتا ہوگا کہ ہر تین مہینے بعد آ پ اتنا خرچہ کرتے ہیں، اس پر ظفیر جو پاس بیٹھا خاموشی سے ہماری گفتگو سن رہا تھا بے اختیار بول اُٹھا ، انکل اس میں بھی فائدہ ہے، جبکہ ریاض نے اُسے گھور کر خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا، انکل ایسا ہے کہ ہماری کمپنی کا ایک آفس بنکاک میں بھی ہے اور ٹکٹ بھی صرف ڈیڑھ سو ڈالر کا ہے اس لیے ہمیں آسانی رہتی ہے،ظفیر کی بات نے مجھے کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہو نہ ہو دال میں ضرور کچھ کالا ہے،بہر حال مجھے ان کے کاموں سے کیا لینا دینا ، دنیا میں لوگ ایسے ایسے دھندے کر رہے ہیں کہ سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے، ریاض نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کرواتے ہوئے کہا، انکل پرسوں سے یہاں واٹر فیسٹیول شروع ہو رہا ہے جو ہر سال پندرہ اپریل سے اٹھارہ تک یہاں ہمارے عید کے تہوار کی طرح منایا جاتا ہے تین دن کی سرکاری طور پر چھٹی ہوتی ہے مگر لوگ اس کو دس دن تک کھینچ لیتے ہیں گلیوں میں بازاروں میں عورتیں مرد مل کر ایک دوسرے پر پانی ڈالتے ہیں نوجوان لڑکے لڑکیا ں تو حد سے گزر جاتے ہیں جو باقائدہ بڑے بڑے منچ بنا کر پریشر پمپ سے ایک دوسرے پر پانی کی زوردار برسات کرتے ہیں ،ان تین دنوں میں یہاں کا کوئی آدمی کام کو ہاتھ لگانا جیسے گناہ سمجھتا ہے، آپ یہ سب دیکھیں گے تو حیران ہوں گے کہ ان تین دنوں میں یہاں کے لوگ کتنی آزاد ی سے ایک دوسرے کو نہلاتے ہیں ، ان کا ماننا ہے کہ اس سے ان کے گناہ دُھل جاتے ہیں۔

(جاری ہے)
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 78366 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.