ایک کروڑ میرے بیڈ کے نیچے ہے اس
احساس نے کافی دیر تک سونے نہیں دیا کروٹیں بدلتے بدلتے نہ جانے کس وقت
نیند آگئی ،صبح نماز کے وقت اُٹھا تو دیکھا ریاض کا بستر خالی تھا میں نے
سوچا شاید نماز کے لیے مسجد گیا ہو گا ،کافی دیر تک جب وہ نہ آیا تو میں نے
ظفیر سے پوچھا جو تھوڑ ی دیر پہلے اُٹھ کر واش روم سے واپس آیا تھا، کیوں
بھئی صبح کے نو بجنے والے ہیں اور ریاض بھائی ابھی تک مسجد سے نہیں لوٹے ؟
اس نے تھوڑا مسکراتے ہوئے کہا ،انکل وہ مسجد نہیں صبح چار بجے اُٹھ کر
مچھلی مارکیٹ جاتے ہیں ابھی تھوڑی دیر میں آ جائیں گے میں آپ کے لیے ناشتہ
تیار کر کے لاتا ہوں آپ ہاتھ منہ دھو لیجئے۔میں اچھا کہتے ہوئے واش روم سے
برش وغیرہ کر کے لوٹا تو جام بٹر کے ساتھ ڈبل روٹی اور انڈے فرائی ٹیبل پر
سجا کر ظفیر میرا انتظار کر رہا تھا،آئیے انکل ریاض کی فکر نہ کریں وہ وہیں
سے ناشتہ کر کے آتا ہے، تھوڑی دیر بعد ریاض جب لوٹا تو اُس کی حالت دیکھ کر
مجھے ایسا لگا جیسے وہ کوئی گٹر وغیرہ صاف کر کے آیا ہو، میلی شرٹ کے نیچے
لنگی پر جگہ جگہ کچرا لگا ہوا حالانکہ کیچڑ سے لت پت ربڑ کے لانگ شوز وہ
گیٹ کے باہر اتار کر آیا تھا پھر بھی بدبو کا ایک جھونکا اُس کے ساتھ ہی ا
ندر آ گیا، آتے ہی وہ بغیر کسی سے بات کیے باتھ روم میں گھس گیا اور جب ذرا
دیر بعد باہر نکلا تب وہ اپنے اصلی روپ میں تھا، میرے قریب آ کر معذرت کرتے
ہوئے کہنے لگا ،انکل یہ تو میرا روز کا کام ہے مچھی مارکیٹ میں تو ہر طرف
کیچڑ اور بدبو ہوتی ہے مچھلی سے لدے ہوئے ٹرکوں پر چڑھ کر مال دیکھ کر بھاﺅ
تاﺅ کرنا پڑتا ہے بدبو سے دماغ خراب ہو جاتا ہے مگر کیا کریں روزی روٹی کا
معاملہ ہے،آپ بتائیں آپ نے ناشتہ کر لیا ؟ میں نے کہا ہاں بھئی ظفیر نے بہت
اچھے سے ناشتہ کھلایا ہے اور میں تو آپ محنت دیکھ کر قائل ہو گیا ہوں واقعی
تم جتنی جدوجہد کر رہے ہو بہت کم لوگوں کو ایسا کرتے دیکھا ہے،میرے منہ سے
اپنی تعریف سن کر اُس نے سینہ تانتے ہوئے ظفیر کی طر ف طنزیہ نگاہوں سے
دیکھا پھر اُسے جتانے کے لیے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا، انکل اِس کی طرح رات
گئے تک ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر انڈین فلمیں دیکھوں گا تو کاروبار کیا خاک
کروں گا، میں نے اُس کی بات کو اُچکتے ہوئے کہا، ہاں بھئی کاروبار کی بات
پر مجھے یاد آیا کہ میں بھی یہاں اسی کام سے آیا ہوں اب مجھے بانس کی کوئی
مارکیٹ دکھاﺅ یا کسی ایسے سپلائر سے ملواﺅ جو ہمیں وہ مال سپلائی دے سکے جس
کے لیے میں یہاں آیا ہوں ، میرے پاس صرف پندرہ دن کا ویزا ہے، اس پر ریاض
شیخی بگھا رنے والے انداز میں بولا، انکل آپ کا کام تو ایک ہفتے میں ہو
جائے گا آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں سب مجھ پر چھوڑ دیجئے میں آج ہی اپنے آدمی
اس کام کے لیے لگا دیتا ہوں بس آپ ان کو اتنا سمجھا دیجئے کہ آپ کو کیا چیز
چاہئے باقی کا کام وہ خود کر لیں گے۔ میں نے تھوڑا تعجب کرتے ہوئے کہا ،بھئی
میرے سامنے کوئی چیز آئے گی تو میں بتا سکوں گا کہ مجھے کس کوالٹی کے مال
کی ضرورت ہے۔اتنے میں دو نوجوان لڑکیاں مسکراتی ہوئی آفس میں داخل ہوئیں
جنہیں دیکھ کر ریاض نے ہنستے ہوئے کہا لیجئے آپ کا کام کرنے والے بھی آ
گئے،دونوں لڑکیوں نے برمی لباس یعنی پھولدار اسکرٹوں کے نیچے کمر پر عجیب
طرح سے لنگیاں لپیٹ رکھی تھیں بے بی کٹ بال سر دوپٹوں سے بے نیاز ، ریاض نے
تعارف کراتے ہوئے کہا، انکل یہ مس فریدہ ہے جو ہمارے ایکسپورٹ کا سارا کام
سنبھالتی ہے اور دوسری کی طرف اشارہ کر تے ہوئے اور یہ نی تایہ جو ہمارا
حساب کتاب ٹھیک رکھتی ہے ، میرا مطلب ہے اکاﺅنٹ۔ پھر فریدہ کو انگلش میں
سمجھاتے ہوئے میری طرف اشارہ کر کے کہا، فریدہ ہی از مائی انکل فرام
پاکستان ، ہی وانٹ تو امپورٹ بیمبو ،سو یو گائیڈ ہِم، اس دوران فریدہ بڑے
غور سے اُس کی باتیں سن کر سر ہلاتی رہی جیسے سب سمجھ رہی ہو، دیکھنے میں
دونوں لڑکیاں بغیر دوپٹے کے بھی شرم و حیا سے مبرا نہیں تھیں،ریا ض کی بات
ختم ہوئی تو فریدہ نے بڑے احترام سے اسلام و علیکم کہتے ہوئے میری طرف
دیکھا میں نے بھی مشفقانہ سلام کا جواب دیتے ہوئے انگلش میں ہی اُس سے بات
کرنا شروع کی کیونکہ ریاض نے بتایا کہ وہ اردو بالکل نہیں جانتی، فریدہ
مسلمان تھی جبکہ دوسری بدھ مت سے تعلق رکھتی تھی، دونوں ایک ساتھ پڑھنے سے
سہیلیاں بن گئی تھیں ، فریدہ نے مجھے بانس کے متعلق بتایا کہ ٹاکیڈہ مارکیٹ
میں ایک دو بانس کی دوکانیں ہیں میں وہاں آپ کو لے چلتی ہوں آپ دیکھ کر بتا
دینا کہ کونسا مال آپ کو خریدنا ہے باقی لوکل آدمیوں سے بات چیت کر کے میں
آپکو انگلش میں ٹرانسلیٹ کر کے سب ریٹس وغیرہ میں بتا دوں گی،ریاض نے یعقوب
کو فون کر کے بلا یا جو صورتی میمن مسلمان تھا رنگون میں ٹیکسی چلا کر اپنی
فیملی کے ساتھ خوش تھا ریاض نے اُسے منتھلی پے منٹ پر انگیج کر رکھا تھا جب
بھی ضرورت پڑتی وہ آجاتا ،اُسکے آنے تک کچھ مچھلی والے جو پیمنٹ لینے آئے
ہوئے تھے اُن کو نپٹایا میں نے دیکھا کہ ریاض بھی برمی اچھی خاصی بول لیتا
تھا جو مقامی لوگوں سے ڈیل کرنے میں اُسے دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ،
ورنہ تو برمی زبان مجھے اتنی مشکل لگی کہ اُن کی باتوں کا ایک لفظ بھی کم
از کم میرے پلے نہیں پڑا بس یوں لگا جیسے رک رک کر کوئی توتلا آدمی بول رہا
ہو، یعقوب نے نیچے آ کر ہارن بجایا تو ہم لوگ اتر کر اُس کے ساتھ ٹاکیڈا
مارکیٹ کی طرف روانہ ہوئے ، فریدا فرنٹ سیٹ پر بیٹھی یعقوب سے برمی میں بات
کر رہی تھی تو لگ رہا تھا جیسے دونوں جھگڑا کر رہے ہوں میں اور ریاض پیچھے
سیٹ پر خاموش بیٹھے دائیں بائیں دیکھ رہے تھے، ریاض جو اپنے خیالوں میں یا
یوں کہیے کہ مچھلی کے حساب کتاب میں کھویا ہوا تھا میں نے اُس سے بات کرنے
کی غرض سے کہا ، یہاں کے لوگوں کا لباس اتنا سادہ اور عجیب ہے کہ دیکھ کر
ہنسی آتی ہے ٹی شرٹ کو لنگی میں ایسے گھسا لیتے ہیں جیسے انگریز پینٹ میں
شرٹ اور پھر پیچھے پاکٹ کی جگہ لنگی میں پرس ٹانگ لیتے ہیں ، کیا یہاں جیب
کترے نہیں ہیں جو یہ لوگ اتنی لاپرواہی سے پیسے رکھتے ہیں ؟ ریاض جو کسی
حساب کتاب کے چکر میں کھویا ہوا تھا میرے سوال پر چونک کر خالی خالی نظروں
سے میری طرف دیکھنے لگا، جبکہ یعقوب جس نے خود بھی ایسا ہی لباس پہن رکھا
تھا مڑ کر میری بات کا جواب دیتے ہوئے کہنے لگا، انکل یہاں چوری ڈکیتی پاکٹ
ماری جیسی کوئی بیماری نہیں ہے اور اس کی وجہ یہاں کا سخت قانون ہے اگر
کوئی چھوٹی موٹی چوری بھی کرتا ہوا پکڑا جائے تو سات سال کے لیے جیل جانا
پڑے گا کہ اس سے کم کوئی سزا برما کے قانون میں نہیں، یہ سن کے مجھے اسلامی
قوانین کی صداقت کا احساس ہوا کہ قانون جتنے سخت ہوں گے جرائم اتنے ہی کم
ہوں گے ، ریاض نے ہماری طرف متوجہ ہو کر کہا ، انکل کیا پوچھ رہے تھے آپ ؟میں
نے اس کی دماغی غیر حاضری کو سمجھتے ہوئے کہا ،کچھ نہیں، تم بتاﺅ تمہارا
مچھلی کا کام کیسا چل رہا ہے اور تم اس کی پروسیسنگ کہاں کرتے ہو، اُس نے
مشکورانہ انداز میں الحمدوللہ پڑھتے ہوئے کہا اچھا چل رہا ہے ماشااللہ ہر
مہینے ایک دو کنٹینر لوڈ ہو جاتے ہیں ایک دن آپ کو کولڈ اسٹور بھی لے جا کر
اس کی تیاری ہوتے ہوئے دکھا ﺅں گا، آپ کا تو ماشااللہ تجربہ ہم سے زیادہ ہے
آپ سے کوئی مفید مشورہ ہی مل جائے گا، اُس کے منہ سے ماشااللہ اور بات بات
پہ الحمدوللہ کے الفاط سن کر مجھے اُس کی خدا خوفی کا یقین سا ہو گیا، اور
دل کو تسلی ہو گئی کہ اسقدر خدا پر یقین رکھنے والے کسی سے دھوکہ نہیں
کرسکتے۔
لیجئے ٹاکیڈہ مارکیٹ آگئی اور وہ سامنے بانس کی دوکان بھی ہے آپ جا کر
دیکھیں میں گاڑی میں ہی آپ کا انتظار کرتا ہوں یعقوب نے سڑک کے کنارے بریک
لگاتے ہوئے اعلان کیا، میں فریدہ اور ریاض تینوں اُس دکان میں گئے جہاں
لمبے اور موٹے بانسوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے، میں نے ایک ڈھیر کی طرف اشارہ
کرتے ہوئے فریدہ کو اس کا ریٹ معلوم کرنے کو کہا جو اُس نے لوکل زبان میں
دوکاندار سے بات کر کے بتایا کہ ساڑھے تین سو چٹ ایک بانس کی قیمت ہے، میں
نے ریاض سے پوچھا بھئی یہ حساب لگا کر بتاﺅ کہ پاکستانی کرنسی میں یہ کتنے
کا پڑے گا،اُس نے جیب سے کیلکولیٹر نکال کر اُس پر انگلیاں چلاتے ہوئے کہا
،تقریباً پچیس روپے کا، میں نے خوش ہوتے ہوئے کہا، ریٹ تو مناسب ہی لگتا ہے
اب اس پر دوسرے اخراجات کا حساب کرنا پڑے گا جس میں کنٹینر کا فریٹ
ایکسپورٹ ڈیوٹی اگر کوئی ہے تو کلیرنگ فارورڈنگ اور کراچی کے اخراجات ملا
کر پتہ چلے گا کہ وہاں پہنچ کر ایک بانس کی لاگت کے بعد اس کی سیل پرائس
کیا ملے گی اور یہ کام آج رات کو بیٹھ کر ہو سکے گا جلدی میں حساب گڑ بڑھ
ہو سکتا ہے ، ریاض نے بھی میری تائید کرتے ہوئے واپس گاڑی کا رخ کیا،فریدہ
بھی دوکاندار کو آئندہ آنے کا کہہ کر ہمارے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی ۔
رات کو کھانے سے فارغ ہو کر ہم لوگ جب حساب کرنے بیٹھے تو میرا پہلا سوال
یہ تھا کہ ریاض بھائی آپ کو یہاں کے اخراجات کا تو اندازہ ہے ہی کیونکہ آپ
آل ریڈی یہاں سے ایکسپورٹ کر رہے ہیں مجھے تمام اخراجات کے ساتھ اپنا نفع
بھی بتا دیں کہ آپ ایک کنٹینر پر ہم سے کیا نفع چاہتے ہیں تو میں اپنا حساب
لگا کر دیکھوں گا کہ مجھے کام کرنا ہے یا خالی ہاتھ واپس جاناہ ے،میری بات
پر اُس نے ایک مصنوعی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، انکل آپ ایسا کیوں
سوچتے ہیں میں آپ کے بیٹے کی طرح ہوں اس کام میں مجھے کچھ نہیں لینا میں آپ
کا کام کر کے سمجھوں گا میں نے اپنے باپ کی خدمت کی ہے پلیز آئندہ آپ ایسی
بات نہ کریں مجھے دکھ ہوتا ہے، میں نے بھی فیصلہ کن انداز میں اس کی بات کا
جواب دیتے ہوئے کہا،اگر آپ کچھ نہیں لیں گے تو یقیناً مجھے خالی ہاتھ ہی
واپس جانا پڑے گا ، یہ میرے اصول کے خلاف ہے کہ میں کسی کو کچھ دیے بغیر
اپنا الو سیدھا کر کے چلتا بنوں ،نہ یہ تو ہر گز نہیں ہو گا۔
(جاری ہے) |