بھارت پر مسلمانوں نے800سال تک حکومت کی تھی،ان کی سلطنت
افغانستان کی سرحدوں سے لیکر برماکی سرحدوں تک پھیلی ہوئی تھی،راجا
مہاراجاان مسلم حکمرانوں سے پناہ بھیک مانگا کرتے تھے تو بعض راج مہاراج
مسلم حکومتوں میں شان سے ہی رہا کرتے تھے،لیکن ان کی کوئی بساط نہ تھی کہ
وہ مسلم حکمرانوںکے سامنے سر اٹھا کر چلیں۔تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک میں
مسلمانوں نے اپنے بل بوتوں پر شان وشوکت سے حکومتیں قائم کی تھی،نہ انہوں
نے حکمت کے نام پر عیسائیوں سے مدد لی تھی اورنہ ہی بھارت کے غیر مسلم
قوموں سے حکومت قائم کرنے کیلئے ساتھ مانگاتھا،لیکن آج مسلمانوں کی حیثیت
سلطنت قائم کرنے کی تو دور وقف بورڈکے صدر بننے کیلئے حکومت کے تلوے چاٹنے
پڑرہے ہیں جو مسلمان افغان سے لیکر برماتک کی سلطنت قائم کیا ہواتھا ،آج
وہی مسلمان مسجد کاصدر ،سکریٹری یا زیادہ سے زیادہ نوجوان کمیٹی کا نمائندہ
بننے کا طلبگار ہوگیاہے۔ حکمرانی کا جو مزاج مسلمانوں میں تھا وہ مزاج اب
غلامی میں بدل چکاہے۔یہی وجہ ہے کہ بیشتر مسلمان سیاسی پارٹیوںمیں
مائناریٹی شعبہ میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کیلئے نامزدہوئے ہیں اور
ان کی صلاحیتیں صرف اور صرف ویزٹینگ کارڈ تک ہی محدود دکھائی دیتی ہیں۔
ہندوستان بھر کا جائزہ لیں تو مسلمانوں کوسرے سے خارج کیاجارہاہے،نہ بی جے
پی کو مسلم ووٹ کی ضرورت ہے نہ دیگر سیاسی پارٹیوں کو مسلمانوں کیلئے حق
دینے کاخیال ہے،کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مسلمان اُس ہاتھی کےمانند ہیں جو دو
گززمین میں دھنسے ہوئے ڈنڈے سے بندھا ہواہے،اگر یہ ہاتھی چاہے تو اس ڈنڈے
کو جھٹکے کواُکھاڑ سکتا ہے لیکن بچپن سے اُسے اس ڈنڈے سے باندھ کر اُس کے
ذہن کو اس بات پر آمادہ کردیاجاتاہے کہ یہ ڈنڈا مضبوط ہے اور ٹوٹنے والا
نہیں ہے۔ یہی حال مسلمانوں کا ہے کہ جس پارٹی کے ساتھ وہ جڑے ہوئے ہیں اُس
سے اگر کنارہ کشی کرلیں تو ان کی زندگی نا ممکن ہے۔ہر شعبہ میں نظر ڈالیں
تو مسلمان پسماندگی کا شکارہیں اور اگر انہیں قیادت کیلئے آگے آنے کی
دعوت دی جاتی ہے تو ان کے ذہن میں سوائے ایم ایل اے و کارپوریٹر بننے کی
اور کوئی بات نہیں آتی۔ سنگھ پریوارکی بات لے لیں تو آج سنگھ پریوارکی
نمائندگی ہر شعبہ میں ہے،ان کی جانب سے قائم کردہ تنظیمیں ہر زمرے میں ہیں۔
تجارت، سیاست، مذہب، تعلیم ،روزگار،مزدور،بینکنگ،عدالت،صحافت،پولیس وفوج ہر
جگہ پر ان کے لوگ موجود ہیں اور باقاعدہ وہ اپنی اپنی قوموں کی قیادت کررہے
ہیں،جس کا فائدہ سنگھ پریوار حکومت میں اٹھارہاہے۔بتائیے کہ ہندوستان میں
مسلمانوں کی کتنی تجارتی تنظیمیں ہیں،کتنے لوگ وکالت میں ہیںاور وکالت میں
ہیں بھی تو کیا مسلمانوں کی مضبوط وکلاء کی تنظیم ہے،کیا مسلمانوں کے
ڈاکٹروں کی کوئی تنظیم ہے اگر ہے بھی توانہوں نے کیاکام کیاہے؟یہ سب سوچنے
سمجھنے کی باتیں کہ آخر ہم کس راہ پر گامزن ہیں۔قیادت کا مطلب ایم ایل اے
یا کارپوریٹر بننانہیں ہے بلکہ ہراُس شعبہ حیات میں قیادت کی ضرورت ہے،جہاں
پر اجتماعی نفع پہنچے۔لیکن مسلمان ان باتوں کو سمجھنے کیلئے تیارہی نہیں
ہیں۔ان کے نزدیک سچ ،حق اور ایمانداری کی باتیں کرنےو الا لیڈرنہیںبلکہ
جھوٹ وباطل اور بے ایمانی کا سہارالیکر جذباتی تقریریں کرنے والاشخص ہی
لیدرہے۔ قول ہے کہ"جب برائی زیادہ بڑھنے لگی تو یہ نہ سوچیں کہ باطل طاقتور
ہورہاہے،بلکہ یہ سمجھ لیں کہ حق بولنے والے کمزور ہورہے ہیں"۔اگر ہمیں کچھ
کرناہے تو ہمارے لئے مایوسی کا لفظ حرام ہے،کیونکہ مایوسی ایمان والوں کی
نشانیوںمیں سے نہیں ہے۔
|