جمہوریت اور عدم برداشت

ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر

ہفتہ کے دن، جب قومی اسمبلی کے ایوان میں وزیر اعظم پر اعتماد کے ووٹ کی کاروائی جاری تھی، صرف چند میٹر کے فاصلے پر ایک نا خوشگوار واقعہ بھی ٹیلی ویژن کی سکرینوں پہ دکھایا جا رہا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ ایوان کے اندر کی کاروائی سے کہیں ذیادہ ایوان سے باہر میدان میں ہونے والا تماشا لوگوں کی دلچسپی کا سامان بنا ہوا تھا۔ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی۔ڈی۔ایم نے اسمبلی کی کاروائی کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ اتحاد کے راہنما پریس کانفرنس کر رہے تھے کہ حکمران سیاسی جماعت کے کارکنوں نے ان کے آس پاس جمع ہو کر شدید نعرہ بازی شروع کر دی۔ اس شور و غل میں کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا کہ اپوزیشن راہنما کیا کہہ رہے ہیں۔ پھر نوبت ہاتھا پائی اور دھکم پیل تک آگئی۔ کسی نے احسن اقبال کی طرف جوتا اچھال دیا۔مریم اورنگ زیب کیساتھ بدتمیزی کی گئی۔ پولیس نے بہت دیر بعد مداخلت کی۔ تب تک، ایوان کے اندر ہونے والی کاروائی سے کہیں بڑی خبر بن چکی تھی۔ شام کے ٹاک شوز میں بھی وزیر اعظم کے اعتماد سے کہیں ذیادہ ایوا ن سے باہر ہونے والے ہنگامے کا تذکرہ رہا۔

چند ہی روز پہلے، اسلام آباد ہی میں، ہائیکورٹ پر وکلاء نے حملہ کر دیا۔ یہاں تک کہ چیف جسٹس کے چیمبر میں گھس کر انہیں یر غمال بنا لیا۔ عمارت کے شیشے توڑ دئیے گئے۔ چیف جسٹس چیمبر میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔ چیف جسٹس نے اس کا نوٹس لیا ۔ اب قانونی کاروائی جاری ہے۔ لیکن یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہ تھا۔ ایسے درجنوں افسوسناک واقعات ہو چکے ہیں اور وکلاء ، جو قانون کے محافظ سمجھے جاتے ہیں، قانون شکنی کا ہر اول دستہ بنے رہے۔ اسلام آباد میں ہائیکورٹ پر وکلاء کے حملے کا سبب یہ بنا کہ فٹ بال گراونڈ میں ان کے بنائے ہوئے خلاف قانون چیمبرز گرا دئیے گئے تھے۔ اب تو سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ بھی آگیا ہے کہ ایسے تمام چیمبرز گرا دئیے جائیں جو فٹ بال گراونڈ میں بنائے گئے ہیں۔

کیا عدم برداشت، تلخی اور لا قانونیت ہمارا قومی مزاج بن چکی ہے؟ یہ انتہائی اہم سوال ہے۔ ہمارے دانشوروں کو سنجیدگی سے اس کا جائزہ لینا چاہیے۔ اگر ہم جمہوریت کے نام لیوا ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور ہمارا آئین بھی جمہوری خطوط پر بنا ہے تو پھر جمہوریت ہمارے مزاج اور ہمارے رویوں کا حصہ کیوں نہیں بنتی؟ عدالتوں میں جھگڑے، قانون ساز ایوانوں میں لڑائیاں، درس گاہوں میں ہنگامے، سڑکوں پر تصادم، ہر طرف عدم برداشت کے مظاہرے دکھائی دیتے ہیں۔ایسا کیوں ہے؟ جمہوریت کا بنیادی اصول رائے کی آزادی ہے۔ قانون کا احترام اور اس پر عمل بھی اس سے جڑا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بات سنی جائے، ہماری رائے کا احترام کیا جائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم دوسروں کی بات بھی سنیں اور اس کا احترام کریں۔ ایسا نہیں ہو رہا۔ مسلم معاشرہ ہوتے ہوئے ہمارے ہاں دوسرے کے عقیدے، مسلک اور نظریے کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ یہاں تک کہ اس سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔ دوسروں کی عبادت گاہوں کو بھی معاف نہیں کیا جاتا۔ بد قسمتی سے عدم برداشت کا یہ رجحان کم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ جوں جوں تعلیم کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ توں توں ہم میں عدم تحمل کی بیماری بڑھتی جا رہی ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نظام تدریس و تعلیم اور نصاب میں اخلاق و کردار کی تعمیر اور جمہوری سوچ کی تشکیل کا کوئی حصہ نہیں؟ نوبت تو یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کالجوں اور جامعات میں طلبہ،قومیت اور نسل کی بنیادوں پر تقسیم ہو چکے ہیں اور آئے روز ان میں تصادم ہوتا رہتا ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے گھروں کے اندر بھی محبت، ایک دوسرے کے احترام اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا ماحول نہیں رہا۔ تلخیاں اور ناچاقیاں بڑھ رہی ہیں ۔طلاق کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس ماحول میں پلنے بڑھنے والے بچوں میں بھی اس طرح کی سوچ کا پیدا ہونا فطری سی بات ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے قومی راہنماوں کا لب ولہجہ بھی محبت ، باہمی احترام اور رواداری والا نہیں رہا۔ ایسے الفاظ اب روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں، جو ماضی میں سیاستدانوں کی زبانوں پر کم ہی آتے تھے۔ چور، ڈاکو، لٹیرے، اچکے، غنڈے ، بد معاش اور ایسے ہی غیر مہذب الفاظ ہمارے نہایت سینئر راہنماوں اور حکمرانوں کی زبانوں پر رہنے لگے ہیں۔ پیٹ چاک کریں گے، گھسیٹیں گے، جیلوں میں ڈالیں گے، عبرت کا نشان بنا دیں گے ، کے نعرے معمول بن چکے ہیں۔ بڑوں کے اس طرز عمل نے کارکنوں میں بھی عدم برداشت اور اشتعال کے منفی جذبات ابھار دئیے ہیں۔ ساری دنیا میں سیاست دان موجود ہیں۔ سیاسی سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف انتخابات بھی لڑے جاتے ہیں۔ ہار جیت بھی ہوتی ہے۔ لیکن وہ کچھ نہیں ہوتا جو ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔ امریکہ خود کو مہذب جمہوری ملک کہلاتا ہے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے دور میں ایسا رویہ اختیار کیا اور اس طرح کی زبان بولنے لگے جو امریکی تہذیب کا حصہ نہ تھی۔ ٹرمپ نے مخالف سیاستدانوں اور صحافیوں کا تمسخر اڑایا۔ ان کے خلاف نا زیبا ریماکس دئیے۔

لیکن امریکی عوام کی اکثریت نے اسے پسند نہ کیا۔ مبصرین کے خیال میں ٹرمپ کی شکست کا ایک بڑا سبب اس کا یہی غیر مہذب رویہ تھا۔ ٹرمپ نے اس کا مظاہرہ ہارنے کے بعد بھی کیا جب اس نے اپنے حامیوں کو پارلیمنٹ ہاوس کے باہر جمع کیا اور وہ پارلیمنٹ کے اندر داخل ہو کر توڑ پھوڑ کرنے لگے۔ اس رویے کی قومی سطح پر مذمت کی گئی۔ خود ٹرمپ کی جماعت، ری پبلکن پارٹی کے راہنماوں نے بھی اس پر تنقید کی۔

سیاست میں عدم تحمل اور عدم برداشت کے رویے ختم نہ ہوئے تو معاشرہ بری طرح تقسیم ہو جائے گا۔ گھر گھر لڑائیاں شروع ہو جائیں گی۔ سیاسی راہنماوں کا فرض ہے کہ وہ خود بھی اپنے انداز بیان کو بدلیں۔ تلخ اور توہین آمیز الفاظ کے استعمال سے گریز کریں۔ اچھے سماجی تعلقات قائم کریں ۔ حال ہی میں سینٹ کی ایک نشست کے لئے پی۔ڈی۔ایم اور پی۔ٹی۔آئی کے دو امیدواروں کے درمیان ایک سنسنی خیز مقابلہ ہوا۔لیکن ووٹنگ اور پھر گنتی کے دوران، دونوں مخالف امیدوار حفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے خوش گپیاں کرتے رہے۔ وہ ایوان میں ایک دوسرے سے گرم جوشی سے ملے۔ حفیظ شیخ نے یوسف رضا گیلانی کو جیت کی مبارک باد دی۔ ایسے مناظر ہی جمہوریت کا حسن ہیں۔ جب سیاستدان اوپر کی سطح پر اس طرح کی رواداری کا مظاہرہ کریں گے تو ان کے کارکنوں تک بھی بہت اچھا پیغام جائے گا۔ اور اگر اس بیماری پر قابو نہ پایا گیا تو صورتحال بے قابو ہو سکتی ہے۔ ہم نے ڈسکہ انتخابات میں بھی یہی کچھ دیکھا تھا جہاں دو افراد جانوں سے گئے۔ وقت آگیا ہے کہ سیاستدان مل بیٹھیں اور ممکن ہو تو ایک ضابطہ اخلاق پر اتفاق کریں اور جمہوریت کو جمہوریت بنانے میں مدد دیں۔

Sidra Malik
About the Author: Sidra Malik Read More Articles by Sidra Malik: 164 Articles with 101470 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.