مہنگائی کی ماری عوام اور قرضے
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
دوسری طرف حال یہ ہے کہ روزگار نہ ہونے کے برابر ہیں- تاجر وں کے پاس تو کمائی ہے ان کی کمائی کروڑوں سے گر کر لاکھوں تک آگئی ہیں چلیں ان کے گھر بار تو چل رہے ہیں لیکن دیہاڑی دار مزدور کیا کرے ، بازار بند ہیں ، روزگار ہے نہیں ، حکومت ریلیف نہیں دے رہی ، بجلی ، گیس ، ضروریات زندگی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے ہر ایک شہری کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے کہ ضرورتیں کیسے پوری ہو. ان حالات میں حکومت اور ریاستی اداروں کی بے حسی بھی قابل غور ہے.
|
|
پشتو زبان کی ایک مثل ہے " یو دا لوگے مری او بل ئی سر تہ پراٹھے گوری" جس کا لفظی ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ایک بندہ بھوک سے مر رہا ہوتا ہے اور دوسرے اس کے سرہانے پراٹھے دیکھنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہوتا ہے. پشتو زبان کے اس مثل سے آغاز کرنے کا مقصد تبدیلی والی سرکار کے ایک ارسطو کی طرف آنا ہے جس کا نام اسد عمر ہے اور کراچی سے اسی کا تعلق ہے . ارسطو کا یہ بیان سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائرل ہوا جس میں انہوں نے فرمایا کہ " لوگ عید کیلئے خریداری ابھی سے کریں عید کا انتظار نہ کریں" یعنی موصوف کا خیال یہ ہے کہ اس ملک کے عوام اب عید کیلئے خریداری ابھی سے کریں جیسے کہ حکومت نے سب کچھ فری کردیا ہو. اور عید کی خریداری مفت میں ہو اس لئے لوگوں کو کہا جارہا ہے کہ ابھی سے مفت مال لے لیں.
جس دن کراچی سے تعلق رکھنے والے اس ارسطو کا بیان وائرل ہوا اسی دن کراچی میں ایک شخص نے غربت اور بیروزگاری سے تنگ آکر اپنے آپ کو قبرستان میں پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی جسے بعد میں امدادی ٹیمیں اٹھا کر لے گئی -یہ حال ہے کراچی شہر کا ، کروڑوں کی آبادی رکھنے والے اس شہر میں جہاں پر ہر صوبے سے لوگ آکر روزگار کرتے ہیں اور اپنا پیٹ پالتے ہیں اگر وہاں پر یہ حال ہے تو پھر دیگر صوبوں میں کیا حال ہوگا. اسے دیکھنے کیلئے نظر ہونی چاہئیے وہ بھی "ارسطو یا ان کے ساتھیوں کی نہیں" نہ ہی روٹی کپڑا مکان والوں کی اور نہ ہی "ووٹ کو عزت دو " کے بیانیے کو بیان کرنے والوں کی . بلکہ نظر ہونی چاہئیے عام لوگوں کی جن کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہیں-گذشتہ دنوں ایک رپورٹ بھی شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ پاکستان جنوبی ایشیاء میں مہنگائی کے لحاظ سے ٹاپ پوزیشن پر آگیا ہے ، آئی ایم ایف کے شرائط پر جی سر کرنے والے حکمرانوں نے حال ہی میں فی یونٹ چھ روپے اضافہ کیا ہے جیسے کہ عوام کے " گھروں سے "نوٹ نکل رہے ہوں .
کرونا نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے کوئی اس حوالے سے سروے نہیں کررہا ہے کہ بیروزگاری کی شرح کہاں پر پہنچ گئی ہیں ، گھروں میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد کتنی بڑھ گئی ہیں ، گھروں سے نکل کر روزگار کیلئے نکلنے والی خواتین کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوا ، کم عمر بچوں کے روزگار کیلئے نکلنے کی شرح کتنی فیصد بڑھ گئی ہیں-اگر اس حوالے سے کوئی بات کرتا ہے تو پھر سوال کرنے والوں کو " طنز "کا سامناکرنا پڑتا ہے کہ فلاں دور حکومت میں یہ تھا اس وقت آپ کہاں سوئے ہوئے تھے اور کیوں بات نہیں کررہے تھے-یعنی اگر وہ غلط تھے تو موجودہ بھی غلط کریں تو کوئی اس پر بات نہ کرے-حکمران رو رہے ہیں کہ پچھلے چور تھے ، پچھلے والے کہتے ہیں کہ موجودہ چور ہیں. سارا دن اس پر بحث ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کو چور چور کہا جاتا ہے لیکن عوام کی بنیادی مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی -
دوسری طرف حال یہ ہے کہ روزگار نہ ہونے کے برابر ہیں- تاجر وں کے پاس تو کمائی ہے ان کی کمائی کروڑوں سے گر کر لاکھوں تک آگئی ہیں چلیں ان کے گھر بار تو چل رہے ہیں لیکن دیہاڑی دار مزدور کیا کرے ، بازار بند ہیں ، روزگار ہے نہیں ، حکومت ریلیف نہیں دے رہی ، بجلی ، گیس ، ضروریات زندگی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے ہر ایک شہری کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے کہ ضرورتیں کیسے پوری ہو. ان حالات میں حکومت اور ریاستی اداروں کی بے حسی بھی قابل غور ہے.
گذشتہ سال کرونا کی وجہ سے سکول بند ہوگئے ، سرکاری سکولوں کے اساتذہ تو خوش ہیں کہ چلو انہیں گھر پر تنخواہیں مل رہی ہیں لیکن پرائیویٹ سکولوں کے مالکان کے پیٹوں میں درد ہے اور وہ تعلیم کی بندش کے نام پر احتجا ج کررہے ہیں کہ تعلیمی اداروں کو بند نہ کریں کیونکہ ان کی روزی روٹی لگ ہوئی ہے عجیب بات یہ ہے کہ آٹھ ماہ سے زائد سکول بند رہے ٹرانسپورٹ بند رہی لیکن سکول مالکان نے بچوں کے والدین سے فیسیں وصول کرلیں اور و ہ بھی حکومتی سرپرستی میں ، بھائی کس چیز کی فیسیں لے رہے ہوں ، انگریزی پرائیویٹ سکول کے مالکان کو تو چھوڑیں ان میں ایسے سکول بھی شامل ہیں جو" اللہ او ررسول "کا نام لیتے ہیں اور قرآن کو حفظ کروانے کا دعوی بھی کرتے ہیں بڑے بڑے دعوے بھی ہیں لیکن وہ بھی "مال حرام"کوپیٹوں میں بھرنے کیلئے تیار ہیں-اور یہ سب کچھ حکومتی سرپرستی میں ہورہا ہے.
آٹے کا تھیلا آٹھ سو پچاس سے تیرہ سو روپے تک پہنچ گیا ، چینی 55 روپے سے 105 روپے تک پہنچ گئی ،گھی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا. فرق پڑا ہے تو صرف غریب عوام کو ، موجودہ حکمرانوں سے پہلے والے بھی چور تھے لیکن ایسے چور تھے کہ گھر میں کچھ نہ کچھ چھوڑدیتے تھے کہ چلو عوام کچھ تو گزارہ کریں گے لیکن موجودہ حکمرانوں نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے-ہاں فرق نہیں پڑا تو حکمرانوں کو نہیں پڑا ، نہ ہی ان کے کاسہ لیسوں کو ، نہ ہی بیورو کریٹس کو اور نہ ہی سرکاری ملازمین ، جن کی لگی بندھی تنخواہیں ہیں جو وہ غریب عوام کے ٹیکسوں سے وصول کررہے ہیں. حالانکہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ غریب عوام کیا مٹی کھا رہے ہیں. یاان کی ضروریات نہیں.یہ سوچ کسی کے پاس نہیں بس ڈنڈا ہر کوئی اٹھاتا ہے اور غریب عوام پر برسانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں
کیا موجودہ ملکی حالات میں حکمران اور ان کے کاسہ لیس بشمول صحافی سیاست دانوں کو چھوڑ کر ایسے معاملات پربات کرسکتے ہیں یاا ن کو سلجھانے کیلئے کوششیں کرسکتے ہیں.کیونکہ عام لوگوں نے اپنے اخراجات کم کردئیے ہیں " دن کو کما لیا اور رات کو کھالیا"کی پوزیشن پر آگئے ہیں کیا اس ملک کے حکمران بشمول ریاستی ادارے اور ٹیکسوں پر پلنے والے سرکاری ملازمین اپنے اخراجات کم کرسکتے ہیں . ہیلی کاپٹروں کے اخراجات سے لیکر ٹی اے ڈی اے کم کرسکتے ہیں . تو صورتحال کسی حد تک چل سکتی ہے ورنہ تو یہ حال ہے کہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ اب عوام بھی قرضوں پر اتر آئی ہیں اورقرضوں کا یہ بوجھ انہیں کہاں لے جائیگا. اس بارے میں کسی کو پتہ ہی نہیں.
رہی پتہ کرنے کی بات تو حکمرانوں کو لانے والے اس انتظار میں ہیں کہ اپوزیشن اسے ہٹا دے ، اور حکمران اس انتظار میں ہے کہ لانے والے مجھے ہٹا دے جبکہ عوام میں ہٹانے کی سکت ہی نہیں.
|