جس روز اپوزیشن کی مختلف نظریات پر کاربندـ" گیارہ"
پارٹیوں کااتحاد معرض وجود میں آیا،میں نے اس دن کہا تھا اس کاکوئی ایک
مرکزی دھڑاکسی وقت بھی" نودوگیارہ" اوریہ اتحاد دھڑام سے زمین بوس ہوسکتا
ہے۔جس اتحاد کی دیواریں "رواداری"اور"بردباری" کی بجائے "ریاکاری" ، مفاہمت
کی بجائے منافقت ،"بداعتمادی" اور"بدگمانی" کے "گارے" سے تعمیر کی گئی ہوں
وہ کسی وقت بھی منہدم ہوسکتی ہیں۔جس متحدہ اپوزیشن کے پرچم بردار اورترجمان
نیب زدگان ہوں ان سے زیادہ دیر تک استقامت اورمزاحمت کی امید کرنابے سود ہے
۔ اقتدار جس کی کمزوری بن جائے وہ کسی صورت طاقتور نہیں ہوسکتا تاریخ میں و
ہ زندہ رہتا ہے جوتدبر اورتدبیر سے اپنی اوراپنوں کی تقدیربنائے۔جس انسان
کے اندرباہر "غرور"ہواس کا"چکناچور"ہونااٹل ہے۔اگرفرعون مصر میں غرقاب ہوا
تھا توپھر پاکستان میں اس کی باقیات کہاں سے آئی ہیں۔سنا ہے سیاست کے سینے
میں دل نہیں ہوتالیکن ہمارے تو سیاستدانوں کے سینے میں بھی دل نہیں بلکہ ان
کی گردنوں میں سریا ہوتا ہے ۔اگرپاکستان میں کوئی سیاسی قیادت دیکھے تومجھے
اس کے نام اورکام سے ضرورآگاہ کرے۔پاکستان میں سیاسی قیادت تودرکنار دوچار
کے سوا دوردور تک سیاستدان بھی نہیں ہیں۔بلوچستان کے سابق انتھک وزیراعلیٰ
،سلجھے اوراجلے سیاستدان نواب غوث بخش باروزئی، پاک سرزمین پارٹی کے مرکزی
چیئرمین اورشہرقائدؒ کے معمارسیّد مصطفی کمال سے نیک نام سیاستدانوں
کامنتخب ایوانوں سے باہرہونانظام کی ناکامی ہے، پی ایس پی کے باصلاحیت
اورباکمال چیئرمین سیّد مصطفی کمال کا این اے249میں 29اپریل کوہونیوالے
ضمنی الیکشن کیلئے میدان میں اترناخوش آئند ہے ،پی ایس پی برطانیہ کے صدر
چوہدری محمدالطاف شاہد بھی اپنے قائدکی کامیابی وکامرانی کیلئے کوشاں ہیں
،دیکھتے ہیں این اے249 کا ووٹر کیافیصلہ کرتا ہے۔سرمایہ دار اشرافیہ کے
نزدیک سیاست محض منفعت بخش تجارت ہے جبکہ ان کی وفاداریاں اس ریاست کے ساتھ
ہوتی ہیں جہاں ان کاسرمایہ پڑا ہو ۔کوئی باشعورآصف زرداری کوسیاستدان نہیں
سمجھتا کیونکہ ایک جہاندیدہ " ڈیلر "کامیاب" لیڈر"نہیں ہوسکتا،موصوف کوڈھیل
اورڈیل کافن ضرور آتا ہے ،پاکستانیوں کو"سیاست دان" اور"سیات کار" میں فرق
سمجھناہوگا۔ زراورزور سے حکومت ہتھیائی یاگرائی جاسکتی ہے لیکن صلاحیت
،قابلیت اورقیادت کسی بازار سے نہیں ملتی ۔ہمارے زیادہ ترسیاستدانوں کے
پاس" شہرت" توبہت ہے لیکن وہ عفت ، رفعت اور عزت سے محروم ہیں۔پاکستان میں
جو"اصولی سیاست "کرتے تھے وہ باری باری حق رحمت سے جاملے اب توہر طرف"
وصولی سیاست" کادوردورہ ہے ، ہمارے ہاں پارٹی ٹکٹ بکتا ہے اورضمیر نیلام
ہوتے ہیں۔کچھ لوگ جس ووٹ کوعزت دوکانعرہ لگاتے ہیں وہ ووٹ بھی فروخت ہوتا
ہے۔میں وضاحت کردوں اس ووٹ کی قیمت کون اورکس طرح وصول کرتا ہے ،انتخابی
ٹکٹ کے نام پرکروڑوں روپے کاپارٹی فنڈ درحقیقت اس حلقہ میں مقیم ووٹرزکے
ووٹ کی نقد قیمت ہوتی ہے۔امیدوارکامیاب ہونے کے بعد بھی پارٹی کی مختلف
سرگرمیوں کیلئے فنڈز فراہم کرتے ہیں ۔زیادہ تر منتخب نمائندے ووٹر کی عزت
نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے ان کے ووٹ کی بھاری قیمت اداکی ہوتی ہے ۔ہماری
سیاسی پارٹیوں میں "نظریات" نہیں "مالیات" اور" امانت" نہیں "اعانت"
کواہمیت دی جاتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کے درمیان نوے کی دہائی والی سیاست ہماری قومی
تاریخ کاسیاہ باب ہے۔دونوں طرف سے ماضی میں ایک دوسرے کوجوکچھ کہا گیا وہ
ہرگز دوہرایا نہیں جاسکتا۔جوسیاسی طورپرضیائی آمریت کی پیدوار ہیں وہ
پرویزی آمریت کیخلاف مزاحمت کااستعارہ بن بیٹھے جبکہ ضیائی آمریت اورپرویزی
آمریت کے دوبڑے متاثرین نے لندن میں میثاق جمہوریت کرلیاجس کو اب" مذاق
جمہوریت" کے نام سے یادکیاجاتا ہے۔مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کے "رانجھے
"ایک بار پھر اپنے "سانجھے" بدترین "حریف" عمران خان سے نجات کیلئے "حلیف "
بن گئے ہیں، جس طرح ماضی میں ان دونوں پارٹیوں کوپرویزمشرف سے چھٹکارے
کیلئے اے آرڈی کے گھاٹ میں ایک ساتھ پانی پیتے دیکھا گیا تھا ان دنوں
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نامی اتحاد ان دونوں پارٹیوں کامحورومرکز ہے۔ اے
آر ڈی نامی اتحاد توپرویزمشرف کے ساتھ رخصت ہوگیا تھا لیکن پی ڈی ایم عمران
خان کوہٹاتے ہٹاتے خودسیاسی منظر سے" ہٹ" اوربری طرح "پٹ" جائے گا۔مجھے
تبدیلی سرکار کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں لیکن اس کیخلاف شورمچانے والے چور
الٹا ناکام اوربدنام حکومت کے استحکام اوردوام کیلئے کام کررہے ہیں،کپتان
آئینی" مدت" پوری کرے گاخواہ اس کے بعد خدانخواستہ ریاست کی" عدت" شروع
ہوجائے۔اے آر ڈی کی باگ ڈوربابائے جمہوریت اورباکردار نوابزادہ نصراﷲ خان
مرحوم کے ہاتھوں میں تھی جبکہ پی ڈی ایم کی کمانڈ فضل الرحمن کررہے ہیں
لہٰذاء ان دونوں ـ"کرداروں" میں یقینا" کردار"کافرق واضح ہے ۔اے آرڈی کے
دنوں میں بینظیر بھٹو پیپلزپارٹی کا"چہرہ "تھیں جبکہ پی ڈی ایم کے پلیٹ
فارم سے پیپلزپارٹی کی کامیابی کا"سہرا" آصف زرداری کے سر ہوتا ہے،تاہم
نومنتخب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے مقابلے میں ـ "متحدہ" اپوزیشن کے"
متفقہ" امیدوار یوسف رضاگیلانی کی ناکامی کاڈس کریڈٹ بھی آصف زرداری کوجاتا
ہے جو عبدالحفیظ شیخ کی طرح صادق سنجرانی کوبھی انڈراسٹیمیٹ کررہے تھے ۔جس
طرح سینیٹ کیلئے اسلام آباد سیٹ سے یوسف رضاگیلانی کے مقابلے میں عمران خان
کاحسن انتخاب درست نہیں تھا اس طرح چیئرمین سینیٹ کے اہم ترین منصب کیلئے
صادق سنجرانی کامقابلہ کرنیوالے یوسف رضاگیلانی ہرگزموزوں نہیں تھے کیونکہ
ہار جیت میں امیدوار کی ذاتی شخصیت اور شہرت بھی کلیدی کرداراداکرتی
ہے،صادق سنجرانی کے مدمقابل"ہار" والے "ہار" گئے۔راقم نے 8مارچ 2021ء کو
شائع ہونیوالے اپنے کالم" رفیق اورفریق" میں لکھا تھا ،"میں زرداری کے
زراورزور کامقابلہ کرتے ہوئے نیک نام صادق سنجرانی کو دوسری بارچیئرمین
سینیٹ منتخب ہوتاہوادیکھ رہا ہوں"۔ماضی قریب میں جب صادق سنجرانی کیخلاف
تحریک اعتماد پیش کی گئی تھی تواس وقت بھی میں نے کئی روزقبل تحریک عدم
اعتماد کی ناکامی کونوشتہ دیوار قراردے دیاتھا۔اگرخدانخواستہ چیئرمین سینیٹ
کے حالیہ انتخاب میں صادق سنجرانی ناکام ہوجاتے توجمہوری نظام درہم برہم
ہوجاتااورقومی معیشت کوشدید دھچکا لگتا۔ حکمران اتحاد کی شکست کے نتیجہ میں
ہمارا ملک شدیدبے یقینی اوربے چینی کامتحمل نہیں ہوسکتا تھا۔سینیٹ میں
اپوزیشن کاچیئرمین منتخب ہونے سے حکومت کی سیاسی پوزیشن مزید بدتر
ہوجاتی۔متحدہ اپوزیشن نے چندروزقبل اپنے ہاتھوں سے جوبویا تھا وہ کاٹ لیا،
مسلم لیگ (ن)اورپیپلزپارٹی کے درمیان بداعتمادی نے یوسف رضاگیلانی کی شکست
کاراستہ ہموارکیا ۔
نوازشریف بھی 11پارٹیوں کے اتحادکاایک کردار بلکہ12واں پلیئر ہے ،جس نے
گیارہ مارچ کواپنے ایک اشتعال انگیز ویڈیوبیان کے بل پر یوسف رضاگیلانی کی
شکست پر مہرتصدیق ثبت کردی تھی کیونکہ مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کے
باضمیراورمحب وطن ارکان اسمبلی کسی قیمت پر" ریاست" کیخلاف منفی " سیاست"
کاحصہ نہیں بن سکتے۔نوازشریف کی یاداشت کیلئے بتاتاچلوں وہ شخص جس کے اشارے
پرشہرقائدؒچندگھنٹوں میں بندہوجایاکرتا تھا آج پاکستان میں اس کی" آواز"بند
ہے ۔ نوازشریف کانام نہادبیانیہ جمہوری" اقدار" نہیں بلکہ محض" اقتدار"
کیلئے ہے ،اس نے ریاست اورمسلم لیگ (ن) کی سیاست کو اپنی نجی جنگ میں جھونک
دیا۔نوازشریف کاووٹ کوعزت دوکابیانیہ عوام کومتاثرکرنے میں ناکام رہا کیو
نکہ موصوف نے ماضی میں بھی جدہ کے سرورپیلس میں جانے کیلئے پرویزی آمریت کے
ساتھ ڈیل اورڈھیل کامعاملہ کیا تھا اورپھر لندن سے لاہورآتے ہوئے ایک پریس
کانفرنس میں پرویزمشرف کے ساتھ تحریری ڈیل کوتسلیم کرلیا تھا ،آج
پھرنوازشریف لندن میں مقیم ہے اورموصوف وہاں بیٹھے بیٹھے تبدیلی سرکار سے
نجات کیلئے کسی تحریک کی قیادت نہیں کرسکتا،اس کیلئے اسے وطن واپس
آنااورمقدمات کاسامناکرناہوگا۔ نوازشریف اورشہبازشریف کے طرز سیاست میں
واضح فرق اورمسلم لیگ (ن) میں دودھڑوں سے کوئی انکارنہیں کرسکتا ۔بندگلی
میں کھڑے نوازشریف نے اپنے بھائی شہبازشریف کاراستہ بندکرنے میں کوئی
کسرنہیں چھوڑی ۔نوازشریف اورمریم نواز کے لہجے میں زہرپرویزرشید گھولتا ہے
، جس کادوست پرویزرشیدہواسے کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔مریم نواز
کواکسانااوربھڑکانا پرویزرشید کے فرض منصبی میں شامل ہے۔پرویزرشید کی
شخصیت،سیاست اوربات چیت Negativity سے عبارت ہے۔شیخوپورہ سے مسلم لیگ (ن)
کے پارلیمنٹرین جاویدلطیف نے نوازشریف اور مریم نواز کوخوش کرنے کیلئے
22کروڑ ہم وطنوں کاشدیدناراض بلکہ مشتعل کردیا،اس کی بدزبانی سے پاکستانیوں
کے قلوب چھلنی ہیں۔وہ افراد جو براہ راست ریاستی نظام میں شریک ہوں انہیں
ریاست کیخلاف راست اقدام کاارادہ ظاہرکرنے کاحق نہیں پہنچتا۔ جاویدلطیف کی
ریاست کیخلاف ہرزہ سرائی" کیا پدی اورکیاپدی کاشوربا"کے مصداق ہے۔ ہماری
صحافت کا معیار دیکھیں، جاویدلطیف کا یہ شرمناک بیان اسے اندرونی صفحات سے
صفحہ اول پرلے آیاہے ۔ نوازشریف اور جاویدلطیف سے ہزاروں کردارہماری ریاست
اوراس کے فرض شناس ریاستی اداروں کاکچھ نہیں بگاڑسکتے۔جس کواپنے مدمقابل کی
طاقت اورمزاحمت بارے درست معلومات نہ ہوں رسوائی ،پسپائی اور شکست فاش اس
کامقدر بن جاتی ہے ۔پاک فوج کوللکارنے والے سیاسی بونے یادرکھیں اگر کسی
شاہراہ پر جاتے ہوئے اچانک کوئی پتھرراہ میں آجائے تواسے ٹھوکرمارتے ہوئے
اِدھر اُدھر کیا جاسکتا ہے لیکن کسی چٹان سے ٹکراناخودکوہلکان کرنے والی
بات ہے۔پاکستان کی طاقتور افواج ایک زندہ حقیقت ہیں ،انہیں کسی سرکس کے"
شیر" اور مٹھی بھر شعبدہ بازو ں یا"تیر"اندازوں سے کوئی خطرہ نہیں۔سیاستدان
اپنے معاملات ایوان میں کیوں نہیں سلجھاتے ،جوسیاسی کرداربلندبانگ دعوؤں کے
باوجودایک دوسرے کوشاہراہوں پرنہیں گھسیٹ سکتے وہ ریاستی اداروں کوسیاست
میں گھسیٹنا بندکردیں ورنہ مضطرب عوام ان کامحاصرہ اورمحاسبہ کریں گے۔
|