بالآخر 12 مارچ کی شام ایوان بالا یعنی سینٹ آف پاکستان
کے انتخابات کا مرحلہ بظاہر پایہ تکمیل کو پہنچا،جس کے نتیجہ میں
برسراقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدوار صادق سنجرانی
کامیاب ہو کر دوبارہ چیرمین سینٹ منتخب ہوگئے، دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں
کے اتحاد پاکستان ڈیموکرٹیک مووومنٹ کے نامزد کرد ہ سابق وزیراعظم یوسف رضا
گیلانی کو شکست ہوئی۔اسی شام ڈپٹی چیرمین سینٹ کا انتخاب بھی ہوا، جس میں
پاکستان تحریک انصاف کے نامزدہ امیدوار مرزا محمد آفریدی نے PDM کے نامزد
کردہ امیدوار عبدالغفور حیدری کو شکست دی۔غالب امکان تو یہی تھا کہ 12 مارچ
کی شام کو چیرمین اور ڈپٹی چیرمین منتخب ہونے کے بعد گزشتہ چند ماہ سے جاری
و ساری جوڑ توڑ کے معاملات، خفیہ یا اوپن ووٹنگ پر بحث و مباحثہ، ہارس
ٹریڈنگ کے الزامات وغیرہ وغیرہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں گے اوروطن عزیز
میں 13 مارچ سے نئے موضوعات سننے دیکھنے کوملیں گے، مگر ایسا بالکل بھی
نہیں ہوا۔سب سے پہلے تو 12 مارچ کی صبح سینٹ ہال میں نئے سینٹرز کی حلف
براداری کی تقریب کے موقع پر پاکستان مسلم لیگ ن کے ڈاکٹر مصدق ملک اور
پاکستان پیپلز پارٹی کے مصطفی نواز کھوکھر کی جانب سے پولنگ بوتھ اور اسکے
آس پاس لگے خفیہ کیمروں کی نشاندہی اور برآمدگی سے اک طوفان بھرپا ہوگیا،
اپوزیشن جماعتیں ان کیمروں کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیا جبکہ حکومتی
ترجمان شبلی فراز صاحب نے انتہائی مضحکہ خیز انداز میں ان خفیہ کیمروں کی
تنصیب کا ذمہ وار اپوزیشن پارٹیز کو قرار دے دیا۔ بہرحال 12 مارچ کی سہ پہر
چیرمین سینٹ کے انتخابات پھر مسترد ووٹوں کی بناء پر تنازعہ کا شکار
ہوگئے۔صادق سنجرانی کو پڑنے والے ووٹوں کی تعداد 48 نکلی جبکہ انکے مدمقابل
یوسف رضا گیلانی کے ووٹوں کی تعدا د42 نکلی اسکے ساتھ ساتھ یوسف رضا گیلانی
کو پڑنے والے 07 ووٹوں کو مسترد کردیا گیا۔یعنی اگر یوسف رضا گیلانی مسترد
ووٹوں کو بھی شامل کیا جائے تو یہ تعداد 49 بنتی ہے، جس سے انکی یقینی
کامیابی بنتی تھی۔اپوزیشن کی طرف سے تعینات پولنگ ایجنٹ فاروق ایچ نائیک نے
پریزائڈنگ آفیسر سے 07 ووٹوں کو مسترد کرنے کی بناء پر بھرپور احتجاج کیا
اور اپنے دلائل سے پریزائدنگ آفیسر کو مسترد شدہ ووٹوں کو یوسف رضا گیلانی
کے حق میں شامل کرنے کی استدعاء کی، جو مسترد کردی گئی اور بالآخر صادق
سنجرانی کی فتح کا اعلان کردیاگیا۔ اپوزیشن اتحاد نے صادق سنجرانی کی فتح
کے اعلان کو مسترد کردیا اور اعلان کیا کہ وہ صادق سنجرانی کی کامیابی کو
عدالت میں چیلنج کریں گے۔آنے والے وقتوں میں سینٹ کی چیرمین شپ والا اونٹ
کس کروٹ بیٹھتا ہے، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ بہرحال جو ہوا وہ پاکستان کے
جمہوری سیاسی نظام کے لئے ٹھیک نہیں ہوا۔کیونکہ سیدھے سادھے انتخابات کو
تنازعہ کی شکل مل چکی ہے۔07 مسترد شدہ ووٹوں کی کہانی کیا ہے؟ اس پر اک نظر
دوڑاتے ہیں۔ سینٹ ہال میں چیرمین سینٹ کے انتخابات کے حوالہ سے چسپا ہدایت
نما کی شق نمبر 1 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ”بیلٹ پیپر امیدواروں کے نام
درج ہیں بیلٹ پیپر پر اپنی پسند کے امیدوار والے خانے کے اندر مہر لگائیں“
جبکہ مسترد شدہ ووٹوں کی تصاویر جو میڈیا کے ذریعہ سے دیکھنے کو ملیں اس کے
مطاق ان تمام 07 ووٹوں کو مسترد تصور کیا گیا کہ جن پر ووٹ ڈالنے والے
سینٹرز نے یوسف رضا گیلانی کے نام کے اوپر مہر ثبت کی تھی۔بظاہر ان ووٹوں
کو مسترد کرنے کا کوئی جواز تو نہیں بن رہا تھا، مگر پریزائڈنگ آفیسر کی
رولنگ یعنی فیصلہ نے ان ووٹوں کو مسترد کردیا اور یوسف رضا گیلانی کی یقینی
جیت شکست میں بدل گئی۔ اسی طرح میڈیا پر اک وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا
ہے کہ سینٹ سیکرٹری سینٹرز حضرات کو بتا رہے ہیں کہ چیرمین امیدوار کے باکس
میں کسی بھی جگہ پر مہر لگائی جاسکتی ہے۔اپوزیشن کے شورشرابہ کے باوجود
بھیPresiding Officer مظفر علی شاہ نے اپنے دوٹوک بیان میں کہا ہے کہ ”اگر
سمجھتے ہیں میرا فیصلہ درست نہیں تو عدالت کھلی ہے عدالت چلیں جائیں“ انہوں
نے مزید کہا کہ یوسف رضا گیلانی کے نام پر مہر لگاکر جان بوجھ کر ووٹ خراب
کئے گئے ہیں۔صادق سنجرانی کی فتح کے اعلان کے بعد ٹی وی سکرینوں پرسب سے
بڑا موضوع مسترد شدہ ووٹوں کا ہی دیکھنے کو ملا۔سینیٹ الیکشن میں مسترد
ووٹوں کے حوالے سے ماہرین نے رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ نام پر مہر لگا دی
گئی ہے تو مسترد ہونا بنتا نہیں ہے اگر دائیں بائیں نیچے اوپر لگ جاتی تو
ووٹ مسترد ہوجاتا، قومی اسمبلی یا سینیٹ کی کارروائی عدالت میں چیلنج
ہوسکتی ہے یا نہیں اس بارے میں آئینی ماہر سلمان اکرم راجا کا کہنا ہے کہ
برطانوی قانون کا اصول رہا ہے ایسی کارروائی عدالتیں نہیں دیکھ سکتیں، سابق
سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ پریذائیڈنگ افسر کی رولنگ
سپریم کورٹ میں چیلنج ہوسکتی ہے۔سابق اٹارنی جنرل انور منصور کا کہنا ہے کہ
سینیٹ یا کسی بھی اسمبلی کی کارروائی عدالت میں چیلنج نہیں کی جاسکتی۔ماہر
آئین و قانون سلمان اکرم راجا کا کہنا ہے کہ یہ پیچیدہ معاملہ ہے 73ء کے
آئین کے تحت یہ معاملہ کسی حد تک میاں نواز شریف کے کیس میں اٹھا تھامگر
میں سمجھتا ہوں کہ پوری طرح یہ معاملہ نہیں دیکھا گیا۔ صدیوں سے برطانوی
قانون کاایک اصول رہا ہے کہ فلور آف دی ہاؤس پرکوئی بھی معاملہ ہوعدالتیں
اسے نہیں دیکھ سکتیں۔پیچیدہ معاملہ ہے اس میں کوئی واضح جواب دینا شاید
ممکن نہیں ہے۔ لیکن امکانات کی جانب اشارہ کیا جاسکتا ہے کہ عدالت میں اس
نوعیت کی بحث دونوں طرف سے ہوسکتی ہے۔
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا کہ پریزائڈنگ آفیسر نے خود ہی
لائن آف ایکشن دیا ہے کہ الیکشن ٹریبونل میں جائیں، ابھی پریزائڈنگ کی
رولنگ سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج ہوسکتی ہے بادی النظر میں تو فاروق
ایچ کے دلائل میں وزن تھا کیونکہ پریزائڈنگ آفیسر نے ان کے دلائل مسترد کر
دئیے اور ساتھ یہ اشارہ دیا کہ آپ الیکشن ٹریبونل میں چلے جائیں، الیکشن
ٹریبونل نہیں ہوتا اس کا سپریم کورٹ آف پاکستان میں فیصلہ ہوگا۔ اگر نام پر
مہر لگا دی گئی ہے تو مسترد ہونا بنتا نہیں ہے اگر دائیں بائیں نیچے اوپر
لگ جاتی تو ووٹ مسترد ہوجاتا۔سینیٹ کے اپنے Rules ہوتے ہیں پہلی دفعہ ایسا
ہوا ہے بیلٹ پیپر کو رجیکٹ کرنے کے لئے بڑی سوچ بیچار کرنا پڑتی ہے میری
نظر میں یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اس کا فیصلہ کریگی۔پاکستانی عدالتی
نظائر میں بیلٹ پیپر پر مہر کے بارے کچھ فیصلہ جات موجود ہیں ہیں جنکی بناء
پر اپوزیشن کوشش کرے گی کہ عدالت کے دروازہ پر دستک ضرور دیگی،جیسا کہ 2004
S C M R 1899 جس میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے بیلٹ پیپر پر مہر کے حوالہ سے
واضح ہدایات ملتی ہیں: Question of validity or otherwise of the ballot
papers could only be determined by ascertaining the intention of voters
and in that respect the manner of affixing mark / stamp was
material---If the mark or stamp was affixed upon the name of the
candidate instead of his symbol, there could not be any hesitation to
maintain that the voter had in fact shown his consent to cast vote in
favour of the candidate---Affixing of such stamp indicated that the
voters had exercised their right of votes in favour of the candidate
اسی طرح سے Election Rules 2017 کے Section 80 (a) (iv) میں درج ہے کہ
any mark from which it is not clear for whom the voter has voted,
provided that a ballot paper shall be deemed to have been marked in
favour of a candidate if the whole or more than half of the area of the
prescribed mark appears clearly within the space containing the name and
symbol of that candidate; and where the prescribed mark is divided
equally between two such paces, the ballot paper shall be deemed not to
show clearly for whom the voter has voted.
اس میں کوئی بعید نہیں ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی یقینی طور پر عدالت کا
دروازہ کھٹکٹائے گی اور عدالتی نظائر اور الیکشن رولز 2017 کے تحت اپیل
دائر کرے گی اور اگر عدالت سے فیصلہ یوسف رضا گیلانی کے حق میں نہ آیا تب
PDM یقینی طور پر صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر ضرور غور
کرے گی، اور یوسف رضا گیلانی کی مسترد شدہ ووٹوں کی وجہ سے شکست کو جیت میں
تبدیل کروانے کی پوری کوشش کرے گی۔اگر بغیر کسی تعصب کے مسترد شدہ ووٹوں کے
معاملہ کا تجزیہ لیا جائے، تو یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا کہ زیر نظر
مسترد شدہ ووٹوں کو مسترد کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا، بہرحال یہ فیصلہ تو
آنے والا وقت ہی کرے گا کہ صادق سنجرانی صاحب کی سنیٹ چیرمین شپ بچتی بھی
ہے یا نہیں؟ لگتا تو ایسے ہی ہے شاید اس مرتبہ بھی وہ اپنی تین سالہ مدت
پورا کرلیں گے۔بہرحال جب تک صادق سنجرانی کے خلاف ممکنہ عدالتی کاروائی یا
تحریک عدم اعتماد کی تلوار لٹکتی رہے گی تب تک یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں
ہے کہ صادق سنجرانی صاحب! PICTURE ابھی باقی ہے۔
|