سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنا ترپ کا پتہ پھینک
دیا اور پیپلز پارٹی کے استعفوں کو سابق وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی
سے مشروط کردیاپی ڈی ایم میں زرداری کی سیاست پر بعد میں لکھوں گا پہلے
اتنا بتا دوں کہ بے نظیر والی غلطی نواز شریف بھی کر بیٹھے ہیں وہ کیسے ؟
1993 میں جب وزیراعظم نوازشریف اور صدر غلام اسحاق کے درمیان چپقلش شروع
ہوئی تو بینظیر نے اپنا سارا وزن غلام اسحاق کے پلڑے میں ڈال دیا یہ وہی
غلام اسحاق تھا جو 1990 میں بینظیر کی حکومت کو کرپشن کے الزامات پر برطرف
کرچکا تھا نوازشریف نے جسٹس نسیم حسن شاہ کو چمک دکھا کر اپنی حکومت سپریم
کورٹ سے بحال کروالی لیکن اس کے باوجود پنجاب میں چٹھہ لیگ علیحدہ ہو کر پی
پی سے مل کر منظور وٹو کو اپنا وزیراعلی بنوا چکی تھی وٹو نوازشریف دور میں
سپیکر ہوا کرتا تھا اور بہت کم گو اور شریف انسان سمجھا جاتا تھا لیکن
وزیراعلی بننے کے بعد اس کا ایک نیا روپ سامنے آیا اور اس نے نوازشریف کو
ناکوں چنے چبوا دیئے بہرحال نوازشریف کو حکومت چھوڑنا پڑی نئے انتخابات
ہوئے اور پنجاب میں کسی جماعت کو اکثریت نہ مل سکی وٹو لیگ کے پاس اٹھارہ
رکن اسمبلی تھے جن کے بغیر نہ تو ن لیگ حکومت بنا سکتی تھی اور نہ ہی پی پی
چنانچہ بینظیر نے نوازشریف سے پنجاب چھیننے کی خاطر اپنی سیاسی تاریخ کا
اہم ترین فیصلہ کیا اور قربانی دیتے ہوئے وٹو کو وزارت اعلی کی پیشکش کردی
یوں منظور وٹو صرف 18 ووٹوں کی بدولت پنجاب کا وزیراعلی بن گیا بینظیر نے
اپنے تئیں یہ بہترین سیاسی فیصلہ کیا تھا لیکن اس فیصلے کا دور رس انجام یہ
ہوا کہ پنجاب سے پیپلزپارٹی کا خاتمہ ہوگیا۔ 1993 کے بعد ہر الیکشن میں
پیپلزپارٹی اپنا ووٹ بنک گنواتی گئی اور 2018 کے الیکشن میں جو اس کا حال
ہوا وہ سب کے سامنے ہے میرے نزدیک اس انجام کی بنیادی وجہ 1993 میں اقلیتی
جماعت کے ہاتھ میں قیادت دینا تھی آج 28 سال بعد وہی کام ن لیگ کررہی ہے
پہلے یوسف گیلانی کو اپنا متفقہ امیداربنایا اور تینوں صوبوں سے کوئی ایک
سینیٹ کی سیٹ بھی ن لیگ نہ جیت سکی اور پنجاب میں ق لیگ کے ساتھ پینگیں
پروان چڑھائی جارہی ہیں بات صرف وزارت اعلی تک رکی ہوئی ہے سپیکر پنجاب
اسمبلی چوہدری پرویز الہی خود وزیر اعلی پنجاب بننا چاہتے ہیں جبکہ ن لیگ
حمزہ شہباز کو وزیر اعلی دیکھنا چاہتی ہے اگرچوہدری پرویز الہی کی وزارت
اعلی پر مک مکا ہوجاتا ہے تو پھرمستقبل میں مسلم لیگ ن بھی پیپلز پارٹی کی
طرح فارغ ہوجائیگی کیونکہ جب ایسے فیصلے ہوتے ہیں توپھر آپ پیغام دے رہے
ہوتے ہیں کہ اب آپ کی حیثیت اس اتحاد میں جونئیر پارٹنر کی سی ہے، اور جب
ایک مرتبہ جونئیر بن جائیں تو پھر واپس آنا مشکل ہوتا ہے بلکل جس طرح ن لیگ
اور زرداری نے مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ میں اپنی رکاب تھما کر اپنی سیاست
کا جنازہ نکال لیا ہے جس کا اندازہ شائد آصف علی زرداری کو ہوگیا ہے کہ وہ
خوامخواہ مریم نواز شریف کو لیڈر بنانے میں لگے ہوئے ہیں اس کے باوجود
بہرحال انہوں نے اپنے سخت ترین سیاسی حریف نواز شریف کی بیٹی سے وہ کام لے
لیا جو شائد ایک دوسرے کے مخالف ہوتے ہوئے نہ لے سکتے تھے اب آتے ہیں آصف
علی زردای کی پی ڈی ایم میں سیاسی چال کے حوالہ سے وہ بیان جو انکی راہیں
جدا کردیگا انہوں نے پیپلز پارٹی کے استعفوں کو سابق وزیراعظم نواز شریف کی
وطن واپسی سے مشروط کردیا کہ میاں صاحب واپس آئیں گے تو ہم انہیں اپنے
استعفے دیں گے صرف میں ہی نہیں سب کو جیل جانا ہوگا نوازشریف جنگ کیلئے
تیار ہیں تو آئیں نواز شریف اسحاق ڈار کو اپنے ہمراہ وطن واپس لائیں ہم مل
کر لڑیں گے یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوچکی
ہے زرداری تحریک عدم اعتماد لانا چاہتا ہے جبکہ ن لیگ استعفے دیکر لانگ
مارچ کرنا چاہتی ہے اور مولانا فضل الرحمن ابھی سوچ ر ہے ہیں کہ مجھے کیا
کرنا ہے کیونکہ ان دونوں کی وجہ سے مولانا صاحب کو کافی خفت بھی اٹھانا پڑی
ہے دوسروں کو یوٹرن کا طعنہ دینے والے اب خود بار بار یوٹرن لے رہے ہیں
جسکی وجہ سے اب صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ پیپلز پارٹی کے پاس سٹریٹ پاور
بالکل زیرو ہے اس لئے وہ پیسے سے بندے خرید کر تحریک عدم اعتماد لانا چاہتی
ہے اور اس صورت حال میں انٹرنل ونگ کا کردار بڑا اہم ہے جس سے پی ڈی ایم کو
انتہائی خطرہ ہے جبکہ دوسری طرف ن لیگ کے پاس بھی سٹریٹ پاور نہ ہونے کے
برابر ہے ایسے میں ن لیگ لانگ مارچ کے لیئے سٹریٹ پاور پرمولانا فضل الرحمن
پر تکیہ لگائے بیٹھی ہے کہ مولانا صاحب لانگ مارچ میں بندے لیکر آئیں گے
اور مولانا فضل الرحمن کے دماغ میں شائد کہیں نہ کہیں اس وقت یہ بات چل رہی
ہوگی کہ پچھلی دفعہ انہوں نے مجھے استعمال کرکے نواز شریف کو باہر
بھجوایاتھا توہوسکتا ہے کہ اس دفعہ مریم صفدر کو باہر بھجوانے کا پلان ہو
لہذا یہ چوہے بلی کا کھیل شروع ہوچکا ہے ایسے میں زرداری سینٹ چیئرمین کے
کیس کو سپریم کورٹ لے جانا چاہتے ہیں جس کے بارے میں 2 رائے ہیں ایک یہ کہ
الیکشن رولز آف بزنس کے تحت ہوا لہذا یہ کسی عدالت یا فورم میں چیلنج نہیں
ہوسکتا اگر بالفرض آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو
بنیاد بنا کر یہ پٹیشن سپریم کورٹ منظور کرلیتی ہے تو یوسف رضا گیلانی کی
سینٹ کی سیٹ بھی خطرے میں پڑجائے گی کیونکہ جو موقف زرداری اس کیس میں لے
گا اسی پر یوسف رضا گیلانی کی سینٹ کی سیٹ اڑ جائے گی رہی لانگ مارچ کی بات
اس میں میں پیپلز پارٹی کی دلچسپی نہیں جبکہ تحریک عدم اعتماد میں ن لیگ
اور مولانا فضل الرحمن کی دلچسپی نہیں اور اگر لانگ مارچ نہ ہوا تو ن لیگ
کے تاحیات نااہل صدر نواز شریف نے جو بیانات دے دیئے ان کی وجہ سے ن لیگ کا
سیاسی منظر میں دوبارہ آنا ناممکن ہے یہی وجہ ہے کہ لانگ مارچ ن لیگ کو سوٹ
کرتا ہے تاکہ ملک میں افراتفری مچا کر ایسا ماحول بنایا جائے جہاں ن لیگ
ریاست کو بلیک میل کرکے ان سے مستقبل کے لیئے اپنا حصہ وصول کرسکے جبکہ
عمران خان نے جو اعتماد کا ووٹ لیکر پتہ کھیلا ہے وہ انتہائی بہترین تھا
عمران خان نے اپوزیشن کی سیاست کرنے کے سارے راستے ہی بند کردیئے اب
اپوزیشن کے پاس کوئی بیانیہ باقی نہیں بچا صادق سنجرانی کو 48 ووٹ پڑنا اور
7 ووٹ کا ضائع ہونا سینٹ کا الیکشن بدلہ تھا اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ مرزا
محمد آفریدی کو 54 ووٹ کا ملنا اپوزیشن کو یہ بتانا تھا کہ مستقبل میں
تحریک عدم اعتماد لیکر آنے سے پہلے سوچ لینا کہ تمہارے 10 بندے ہمارے ساتھ
ہیں اور اب اگر صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد آتی ہے تو صادق
سنجرانی کی دفعہ کے 7 ووٹ اب ضائع نہیں ہوں گے بلکہ لیڈ میں ظاہر ہوں گے
رہی بات پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کی تو ان میں اس وقت چوہے بلی کا
کھیل شروع ہوچکا ہے ہر جماعت اپنے مفادات کے لیے دوسرے کی قربانی دینے کو
تیار ہے جس نے جتنا کسی کو استعمال کرنا تھا وہ کرلیا ہے ۔
|