ابو بکر ، عمر ،عثمان و علی کو
ہم اپنی جان کا سلام لکھیں گے
کتاب دل کے ہر ورق پرہم اپنے حسنِ ،حسین کی شان لکھیں گے
اگر ہمیں آسمان کی حکومت مل جائے تو
ہر ستارے پر کاتب وحی امی معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام لکھیں گے
کاتب وحی، صحابی رسول،خلیفةالمسلمین جرنیل اسلام، فاتح عرب وعجم، امام
تدبیر وسیاست، محسن اسلام حضر ت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ وہ خوش نصیب انسان ہیں جن کو جلیل القدر صحابی ہونے کے ساتھ
کاتب وحی اور پہلے اسلامی بحری بیڑے کے امیر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے
کئی دفعہ دعائیں اور بشارتیں نکلیں ، آپ رضی تعالیٰ عنہ کی بہن حضرت سیدہ
ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ
محترمہ اور ام المومنین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
آ پ نے 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل یعنی آدھی دنیا پر حکومت کی، تاریخ
اسلام کے روشن اوراق آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کردار و کارناموں اور فضائل
ومناقب سے بھرے پڑے ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
مل جاتا ہے۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رضی تعالیٰ عنہ سروقد ، لحیم وشحیم،
رنگ گورا، چہرہ کتابی ،آنکھیں موٹی گھنی داڑھی، وضع قطع، چال ڈھال میں
بظاہر شا ن وشوکت اورتمکنت مگر مزاج اور طبیعت میں زہد و تواضع، فرونتی،
حلم برد باری اور چہرہ سے ذہانت اور فطانت مترشح تھی۔
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنے اسلام
قبول کرنے کا اعلان کیا تو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مبارکبا د
دی اور ''مرحبا۔۔۔۔۔۔'' فرمایا ''(البدایہ والنہایہ)
' حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے
سابقہ حالات زندگی اور ان کی صلاحیت و قابلیت سے آگاہ تھے اس لئے انہیں خا
ص قرب سے نوازا ۔ فتح مکہ کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی رہے اور تمام غزوات میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی قیادت و معیت میں بھرپور حصہ لیا۔
قرآن مجید کی حفاظت میں ایک اہم سبب ''کتابت وحی'' ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر مشتمل
ایک جماعت مقرر کر رکھی تھی جو کہ '' کاتب وحی '' تھے ان میں حضرت معاویہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چھٹا نمبر تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے
ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کو کا تب وحی بنایا تھا۔۔۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کو کاتب وحی
بناتے تھے جو ذی عدالت اور امانت دار ہوتا تھا (ازالتہ الخفا ازشاہ ولی
اللہ)
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ خوش قسمت انسان ہیں جن کو کتابت
وحی کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطوط تحر یر کرنے کی
سعادت حاصل ہوئی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضورصلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے یہاں تک کہ سفرو خضر میں بھی خدمت کا موقع
تلاش کرتے۔
چنانچہ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں تشریف لے گئے تو سیدنا
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیچھے پیچھے گئے۔ راستہ میں حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وضو کی حاجت ہوئی پیچھے مڑ ے تو دیکھا، معاویہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ پانی لئے کھڑے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے متاثر
ہوئے چنانچہ وضو کیلئے بیٹھے تو فرمانے لگے '' معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
تم حکمران بنو تو نیک لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا اور برے لوگوں کے ساتھ درگزر
کرنا ''۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اسی وقت مجھے
امید ہو گئی تھی کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشن گوئی صادق آئے گی۔
حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی خدمت اور بے لوث محبت سے اتنا خوش تھے
کہ بعض اہم خدمات آپ کے سپرد فرمادی تھیں ۔ علامہ اکبر نجیب آبادی'' تاریخ
اسلام'' میں رقمطراز ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے باہر سے
آئے ہوئے مہمانوں کی خاطر مدرات اور ان کے قیام وطعام کا انتظام واہتمام
بھی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کر دیا تھا۔ حضورصلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد خلیفہ اول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کے دور میں آپ نے مانعین زکوٰة، منکرین ختم نبوت صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم ، جھوٹے مدعیان نبوت اور مرتدین کے فتنوں کے خلاف بھرپور حصہ لیا
اور کئی کارنامے سر انجام دیئے ۔
عرب نقاد رضوی لکھتا ہے کہ حضرت امیرر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی کا
خون بہانا پسند نہیں کرتے تھے مگر آپ اسلامی ہدایات کے مطابق مرتدین کے قتل
و قتال میں کسی کے پیچھے نہ ہوتے، ایک روایت کے مطابق مسلیمہ کذاب حضرت
معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وار سے جہنم رسید ہوا۔
خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جو
فتوحات ہوئیں اس میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نمایاں حصہ
اور کردار ہے ،جنگ یرموک میں آپ بڑی بہادری اور دلیری کے ساتھ لڑے اس جنگ
میں غرضیکہ آپ کا پورا خاندان جنگ میں حصہ لے رہا تھا۔
خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں
سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جہاد وفتوحات میں مصروف رہے
اور آپ نے رومیوں کو شکست فاش دیتے ہوئے طرابلس ، الشام، عموریہ، شمشاط،
ملطیہ، انطاکیہ، طرطوس، ارواڑ ، روڑس اور صقلیہ کو حدود نصرانیت سے نکال کر
اسلامیر سلطنت میں داخل کردئیے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان
علاقوں کی فتوحات کے بعد اب یہ چاہتے تھے کہ اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر
مذہب ہے اس کو اب سمندر پار یورپ میں داخل ہونا چاہئے ''فتح قبرص'' کی
خواہش آپ کے دل میں مچل رہی تھی یورپ وافریقہ پر حملہ اور فتح کیلئے بحری
بیڑے کی اشد ضرورت تھی۔
بحرروم میں رومی حکومت کا ایک بہت بڑا بحری مرکز تھا جو کہ شام کے ساحل کے
قریب ہونے کے باعث شام کے مسلمانوں کیلئے بہت بڑا خطرہ تھا اسے فتح کیے
بغیر شام ومصر کی حفاظت ممکن نہ تھی اس کے علاوہ سرحدی رومی اکثر مسلمانوں
سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے مسلمانوں کو تنگ کرتے رہتے تھے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے بحری بیڑے کو تیار کرنے کی
اجازت ملنے کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے جوش خروش
کے ساتھ بحری بیڑے کی تیاری شروع کردی اور اپنی اس بحری مہم کا اعلان کردیا
جس کے جواب میں جزبہ جہاد سے سرشار مجاہدین اسلام شام کا رخ کرنے لگے۔
28ہجری میں آپ پوری شان وشوکت تیاری وطاقت اور اسلامی تاریخ کے پہلے بحری
بیڑے کے ساتھ بحر روم میں اترے لیکن وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کے ساتھ
صلح کرلی لیکن بعد میں مسلمانوں کو تنگ کرنے اور بدعہدی کرنے پر حضرت امیر
معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوری بحری طاقت اور عظیم الشان بحری بیڑے کے
ساتھ جس میں تقریبا پانچ سو کے قریب بحری جہاز شامل تھے قبرص کی طرف روانہ
ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے قبرص کو فتح کرلیا۔
اس لشکر کے امیروقائد خود امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے آپ کی قیادت
میں اس پہلی بحری لڑائی اور فتح قبرص کیلئے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام
رضوان اللہ تعالیٰ علیم اجمعین جن میں حضرت ابو ایوب انصاری ، حضرت
ابوذرغفاری، حضرت ابودردا، حضرت عبادہ بن صامت اور حضرت شداد بن اوس، سمیت
دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین شریک ہوئے۔
اس لڑائی میں رومیوں نے بڑے جوش وخروش سے حصہ لیا، تجربہ کار رومی فوجوں
اور بحری لڑائی کے ماہر ہونے کے باوجود اس لڑائی میں رومیوں کو بد ترین
شکست ہوئی اور مسلمانوں کو تاریخی فتح حاصل ہوئی۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث میں دو اسلامی لشکروں کے بارے میں
مغفرت اور جنت کی بشارت وخوشخبری فرمائی ان میں سے ایک وہ لشکر جو سب سے
پہلے اسلامی بحری جنگ لڑے گا اور دوسرا وہ لشکر جو قیصر کے شہر میں جنگ
کریگا۔
پہلی بشارت سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں
پوری ہوئی جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
سب سے پہلی بحری لڑائی لڑتے ہوئے قبرص کو فتح کر کے رومیوں کو زبردست شکست
دی تھی اور دوسری بشارت سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں اس وقت پوری ہوئی جب لشکر اسلام نے قیصر
کے شہر قسطنطنیہ پر حملہ کرکے اس کو فتح کیا۔اس جنگ میں حصہ لینے کیلئے شوق
شہادت اور جذبہ جہاد سے سرشار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین
وتابعین دنیا کے گوشہ سے دمشق پہنچے، ان میں حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت بن
عمر، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت سیدنا حسین بن علی، اور میزبان رسول صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حضرت ابو ایوب انصاری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم
اجمعین، اور دیگر مدینہ منورہ سے تشریف لاکر اس لشکر میں شریک ہوئے جس کے
بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی بشارت وخوشخبری فرمائی
تھی۔
32ھ میں آپ رضی اللہ عنہ نے قسطنطنیہ کے قریبی علاقوں میں جہاد جاری رکھا۔
35ھ میں آپ رضی اللہ
عنہ کی قیادت میں غزوہ ذی خشب پیش آیا۔ 42ھ میں غزوہ بحستان پیش آیا اور آپ
رضی اللہ عنہ ہی کے دور خلافت میں سندھ کا کچھ حصہ بھی مسلمانوں کے زیرنگیں
آیا۔ 42ھ میں کابل فتح ہوا اور مسلمان ہندوستان میں قدابیل کے مقام تک پہنچ
گئے۔ 43ھ میں ملک سوڈان فتح ہوا اور بحستان کا مزید علاقہ مسلمانوں کے قبضے
میں آیا۔ 45ھ میں افریقہ پر لشکر کشی کی گئی اور ایک بڑا حصہ مسلمانوں کے
زیرنگیں آیا۔ 46ھ میں صقلیہ(سسلی) پر پہلی بار حملہ کیا گیا اور کثیر تعداد
میں مال غنیمت مسلمانوں کے قبضے میں آیا۔ 47ھ میں افریقہ کے مزید علاقوں
میں جہادجاری رکھا۔ 49ھ میں آپ رضی اللہ عنہ نے قسطنطنیہ کی طرف زبردست
اسلامی لشکر روانہ فرمایا، جو مسلمانوں کا قسطنطنیہ پر پہلا حملہ تھا۔ 50ھ
میں قبستان جنگ کے بعد قبضہ میں آیا۔ 54ھ میں آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت
میں مسلمان دریائے جیجون کو عبور کرتے ہوئے بخارا تک جا پہنچے۔ 56ھ میں
غزوہ سمر قند پیش آیا۔سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے رومیوں کے
خلاف سولہ جنگیں لڑی حتی کہ آخری وصیت بھی یہی تھی کہ روم کا گلا گھونٹ
دو۔خلاصہ یہ کہ حضرت سیدناامیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک عظیم
جرنیل،سپہ سالاراورمیدان حرب کے نڈرشہسوارتھے،یہی وجہ ہے کہ سیدنا حضرت
امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور حکومت فتوحات اور غلبہ اسلام کے
حوالہ سے شاندار دور حکومت ہے ایک طرف بحر اوقیانوس اور اور دوسری طرف سندھ
اور افغانستان تک میں اسلام کی فتح کے جھنڈے گاڑ دیئے۔
اس کے ساتھ ساتھ سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلفائے
راشد ین کے تر قیاتی کاموں کو جاری رکھتے ہوئے اس مندرجہ ذیل نئے امور کی
داغ بیل ڈال کر اس کو فروغ دیا۔
1 ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے
پہلاا قامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔
2 ۔سب سے پہلے اسلامی بحریہ قائم کیا، جہاز سازی کے کارخانے بنائے اور دنیا
کی زبردست رومن بحریہ کو شکست دی۔
3 ۔آبپاشی اور آبنوشی کیلئے دور اسلامیر میں پہلی نہر کھدوائی۔
4 ۔ ڈاکخانہ کی تنظیم نو کی اور ڈاک کا جدید اور مضبوط نظام قائم کیا۔
5۔ احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد
کیا۔
6۔ آپ سے پہلے خانہ کعبہ پر غلافوں کے اوپر ہی غلاف چڑھائے جاتے تھے آپ نے
پرانے غلافوں کو اتار کر نیا غلاف چڑھانے کا حکم دیا۔
7 ۔ خط دیوانی ایجاد کیا اور قوم کو الفاظ کی صورت میں لکھنے کا طریقہ پیدا
کیا۔
8 ۔ انتظامیہ کو بلند تر بنایا اور انتظامیرہ کو عدلیہ میں مداخلت سے روک
دیا۔
9۔ آپ نے دین اخلاق اور قانون کی طرح طب اور علم الجراحت کی تعلیم کا
انتظام بھی کیا۔
10 ۔ آپ نے بیت المال سے تجارتی قرضے بغیر اشتراک نفع یا سود کے جاری کرکے
تجارت وصنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے کئے۔
11 ۔ سرحدوں کی حفاظت کیلئے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے
تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں۔
12 ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ہی سب سے پہلے
منجنیق کا استعمال کیا گیا۔
َ13 ۔بڑے بڑے اخلاقی مجرموں کے لئے خصوصی پولیس(سی ۔آئی۔ اے سٹاف)کی بنیاد۔
َ14 ۔دس بڑ ی بڑی سلطنتوں کے 5400علاقوں پر اسلامی پرچم لہرایاگیا۔
َ15 ۔دنیا کا سب سے بڑا شہر قیساریہ جس کے 300 بازار تھے اور جس کی حفاظتی
پولیس کی تعداد ایک لاکھ تھی، اس پر اسلامی حکومت قائم کی گئی ۔
َ16 ۔احادیث جمع کرنے اور دینی شعائر کے تحفظ کیلئے باقدہ محکمہ کا اجرا
َ17 ۔شکایات سیل کا قیام
َ18 ۔سرمائی اور گرمائی افواج کی تشکیل
َ19 ۔ حفاظتی قلعوں کی تعمیر
َ20 ۔پارلیمنٹ کا قیام
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
163احادیث مروی ہیں۔ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آئینہ اخلا ق
میں اخلاص ، علم وفضل، فقہ واجتہاد، تقریر وخطابت، غریب پروری، خدمت خلق،
مہمان نوازی، مخالفین کے ساتھ حسن سلوک، فیاضی وسخاوت، اور خوف الہی کا عکس
نمایاں نظر آتا ہے۔
22رجب المرجب 60ھ میں کاتب وحی، جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم ، فاتح شام و قبرص اور 19سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے
والے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 78 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔
حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق
کے باب الصغیر میں دفن کئے گئے۔
امیرشام!تیری جاہ ومنزلت کی قسم
تیرے وقارکاڈنکابجاکے دم لیں گے
حضرت سیدنا امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما احادیث کی روشنی میں:
رسول اللہ ۖ نے فرمایا:
اے اللہ! معاویہ کو ہدایت دینے والا اورہدایت یافتہ بنا دیجئے اوراس کے
ذریعہ سے لوگوں کو ہدایت دیجئے۔(جامع ترمذی)
رسول اللہ ۖ نے فرمایا:
اے اللہ! معاویہ کو حساب کتاب سکھا اور اس کو عذاب جہنم سے بچا۔(کنزالعمال)
رسول اللہ ۖ نے فرمایا:
معاویہ میرا رازداں ہے، جو اس سے محبت کرے گا وہ نجات پائے گا، جو بغض رکھے
گا وہ ہلاک ہو گا۔(تطہیرالجنان)
رسول اللہ ۖ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ قیامت کے دن معاویہ کو اٹھائیں گے ، تو ان پر نور ایمان کے
چادر ہوگی۔(تاریخ الاسلام حافظ ذہبی)
رسول اللہ ۖ نے فرمایا:
میری امت میں معاویہ سب سے زیادہ بردباد ہیں۔
حضرت سیدنا امیرمعاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما صحابہ کرام رضی اللہ
عنہم کی نظر میں:
سیدنا عمر فاروق بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
جب امت میں تفرقہ اورفتنہ برپا ہو، تو تم لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ کی اتباع
کرنا اور ان کے پاس شام چلے جانا۔(تطہیر الجنان )
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اے لوگوں! تم معاویہ رضی اللہ عنہ کی گورنری اور امارت کو نا پسند مت کرو،
کیونکہ اگر تم نے انہیں (معاویہ رضی اللہ عنہ) گم کر دیا تو دیکھو گے کہ سر
اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے، جس طرح ہنظل کا پھل اپنے درخت سے
ٹو ٹ کر گر تا ہے۔(البدایہ والنہایہ حافظ ابن کثیر )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
میں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کسی کو سردار نہیں پایا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بہتر حکومت کیلئے موزوں کسی کو نہیں پایا۔
(تاریخ طبری ص215)
حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اے لوگوں !معاویہ کا ذکر بھلائی کے ساتھ کرو، رسول اللہ ۖ نے ان کو ہادی
اور مہدی کے لقب سے نوازا(ترمذی باب فضائل معاویہ)
حضرت سیدنا امیررمعاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہمامشاہیرامت کی نظر میں:
امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ فرما تے ہیں:
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ میں
ابتدانہیں کی۔ (المنتقی )
امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
جو شخص صحابہ کرام رضی اس عنہم میں سے کو بھی خواہ وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ
، عمر رضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ، یا معاویہ رضی اللہ عنہ ، اور
عمروبن عاص رضی اللہ عنہ، انہیں برا کہے، تو اگر یہ کہے کہ وہ گمراہی پر یا
کفر پر تھے، و اسے قتل کیا جائیگا اور اگر اس کے علاوہ عام گالیوں میں سے
کوئی گالی دے تو اسے سخت سزا دی جائے گی۔ (شفاقاضی عیاض)
امام میمونی رحمتہ اللہ علیہ کہتے کہ امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:
لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی برائی کرتے
ہیں، ہم اللہ سے عافیت کے طلب گار ہیں اور پھر مجھ سے فرمایا کہ جب تم
دیکھو کہ کوئی شخص صحا بہ رضی اس عنہم کا ذکر برائی کے ساتھ کر رہا ہے،تواس
کے اسلام کو مشکوک سمجھو۔
ابراہیم بن سیرہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں:
میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کو کبھی نہیں دیکھا کہ کسی
کو خود مارا ہو،مگرایک شخص جس نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر سب
وشتم کی، اس کو انہوں نے خود کوڑے لگائے۔(الصارم المسلول)
امام ربیع بن نافع رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اصحاب رسول ۖ کے درمیان پردہ ہیں، جو یہ پردہ
چاک کرے گا، وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہ پر لعن طعن کی جرات کر سکے گا۔
حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
تم لوگ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے کردار و اعمال کو دیکھتے تو بے ساختہ
کہہ دیتے یہی مہدی ہیں۔ (حاشیہ العواصم )
پیران پیر شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے راستے میں بیٹھا رہوں (کہ سامنے ان کی
سواری آجائے) اور ان کے گھوڑے کے پیر کی دھول اڑ کر مجھ پر پڑ جائے ،تو میں
سمجھوں گا کہ یہی میری نجات کا وسیلہ ہے ۔ (خلاصہ غنیة الطالبین )
قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ حضور انور ۖ کے صحابی اور برادر نسبتی ہیں، کاتب
رسول اور وحی الہی کے امیرہیں، جو انہیں برا کہے اس پر خدا،رسول اور فرشتوں
کی لعنت۔(الشفا)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
تم لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ کی بدگمانی سے بچو کہ وہ ایک جلیل القدر صحابی
رضی اللہ عنہ ہیں او زمرہ صحابیت میں بڑی فضلیت والے ہیں۔
خبردار !ان کی بدگمانی میں پڑ کرگناہ کے مرتکب نہ ہونا ۔(ازالة الخفاء عن
خلافة الخلفائ)
حضرت سیدنا امیرر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما عہدحاضر کے علمائے
کرام کی نظر میں:
فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار ان ظیم المرتبت صحابہ رضی اللہ عنہم میں
ہوتا ہے، جنہوں نے آنحضرت ۖ کی خدمت سے منفرد حصہ پایا۔
حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
بعض لوگ غلط فہمی سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو جلیل القدرصحابہ رضی
اللہ عنہم سے الگ کر دیتے ہیں، ان کی یہ تقسیم سراسر نا انصافی پر مبنی ہے
۔
شیخ حضرت سید نذیر حسین دہلوی فرماتے ہیں:
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کفر کی حالت میں بھی کبھی اسلام کے خلاف
تلوار نہیں اٹھائی ،قبول اسلام کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام کی بے مثال
خدمت کی ۔
مولانا احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:
جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے، وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا
ہے، ایسے شخص کے پیچھے نماز حرام ہے ۔(احکام شریعت )
مولانا احمد علی رضوی بدایونی لکھتے ہیں:
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے والد ماجد حضرت ابو سفیان اور والدہ
ماجدہ حضرت ہندہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی تبرا ہے ، اس کا قائل
رافضی ہے(بہار شریعت ) |