عدالت کا” متبادل“ کیا ہمارے پاس نہیں؟؟

کبھی جمیعت العلماءہند (اول)کاکوئی قضیہ سرخیوں میں ہوتا ہے تو کبھی جمیعت العلماءثانی کا ۔ کبھی مرکزی جمیعت العلماءکا کوئی مسئلہ سامنے آتا ہے تو کبھی ماحی کفر وضلالت ، پیکر علم ومعرفت یعنی علماءکی دیگر فلاحی تنظیموں کا ۔ الغر ض ہر دورمیںعلماءاسلام اور اربابِ مدارس کا کوئی نہ کوئی تنازع موضوع بحث رہتا ہے ۔ ان دنوں مظاہر علوم وقف اورجامعہ مظاہر علوم آمنے سامنے ہے ، ان کا قضیہ موضوع بحث ہے ۔ جس سے مدارس اور علماءکی جگ ہنسائی ہورہی ہے ۔

ہندوستان کے مایہ ناز دینی ادارہ کے قضیہ کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔ 1988سے ہی وقف اور رجسٹریشن کے تنازعات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہےں ۔ ان دنو ں جو قضیہ موضوع بحث ہے وہ دراصل قابل کاشت زمین کا ہے ۔ سہارنپور کے مخیر علاؤ الدین نے 1950میں تحصیل یہٹ کے گاؤں تڑفورہ میںتقریباً ڈیڑ ھ سو بیگھہ زمین مظاہر علوم کے نام وقف کیاتھا ۔ چونکہ شدید اختلاف کے بعد مظاہر علو م وقف کا قیام عمل میں آیا ، اس لئے اس زمین پر پہلی دفعہ تنازع 2004میں ہوا تھا ۔ مگر ان دنوں پھر یہ مسئلہ زوروں پر ہے ۔فریقین آمنے سامنے ہیں ۔ ان دونوں کی دعویداری سے قابل کاشت زمین پربرسوں سے کاشت نہیں ہو رہی ہے ۔ چنانچہ اس تنازع کے حل کے لئے جمعیت العلماءہند (اول یا ثانی) کے سہارنپور ضلع صدر مولوی ظہور نے پہل کی اور13جو ن کو گاؤں تڑفور ہ کے مدرسہ ہدایت الاسلام میں ایک پنچایت کا انعقاد کیا گیا ۔ جس میں قرب جوار کے تقریباً 25گاؤں کے سرکردہ مسلمانوں نے شرکت کیں ۔ یہاں دونوں فریق کو مدعو کیا گیا تھا مگر جامعہ مظاہر علوم کے ذمہ داران نے شرکت نہیں کیں ۔پنچایت کے شرکاء نے اس قضیہ کو فیصل کئے جانے کے لئے دارالعلوم دیوبند سے فتویٰ لینے پر اتفاق کیا ہے ۔یعنی جس فریق کی تائید میں فتویٰ ہو گا ڈیڑ ھ بیگھہ کی ملکیت اسی کی ہوگی ۔ حاجی علاؤ الدین کے وارث محمد ارشد چودھری نے بھی اس فیصلہ کی تائید کی ہے ۔

آج مدارس پر غیروں کی ترچھی نگاہیں ہیں ۔ غیر تو غیر اپنو ں کے دلوں میں بھی مدارس کے تعلق سے اب کوئی اچھی رائے نہیں رہ گئی ہے ۔ وہ بھی علماءاور علم دین حاصل کرنے والوں سے متنفر یا بدظن ہیں ۔ اس صورتحال میں ارباب مدارس کا گتھم گتھا ہونا کس قدر مضحکہ خیز ہے ، اس پرگفتگو کی قطعی ضرورت نہیں ۔ یہ بات کس قدر قابل توجہ ہے کہ کبھی لو گ علماء کے پاس اپنے مسائل حل کروانے جاتے تھے مگر آج وہ علمائے کے درمیان صلح کرانے آرہے ہیں۔ باوجود اس کے فریقین کوکوئی پروا نہیں ،طبقہ علماءکی کوئی فکرنہیں ، مدارس کی شرمساری سے انہیں کوئی مطلب نہیں ، ان کی چاہے جگ ہنسائی ہو،ہم کریں گے اپنی ”انا“کی ۔ ہائے ہائے شرم ہم کو مگر نہیں آتی؟؟۔

اسلامی لحاظ سے اس قضیہ کا ایک خطرناک پہلو یہ بھی ہے کہ عدالتوں کی خاک چھاننے کے بعد قرآن وحدیث (فتویٰ)کی طرف رجو ع کیا جارہے ۔ یعنی یہ مقدمہ ہائی کورٹ اور وقف بور ڈ لکھنو میں رہا ۔(اس کے علاوہ ان کے کئی مقدمات اوربھی زیر سماعت ہیں)ظاہر بات ہے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ کرے گی، ایسا ہی ہوا کہ 2008 میں جامعہ مظاہر علوم کے حق میں فیصلہ ہوا ، مگر پھر بھی شکست خوردہ گروہ مزاحم ۔ اس مزاحمت کا جواز کیا ؟اب پنچایت کا انعقاد ہوا اورفتویٰ کا فیصلہ ہوا ۔ مطلب واضح کہ قرآن و فقہ سے زیادہ اہمیت عدالت کی رہی ، اس لئے تو فتویٰ سے قبل عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا یا گیا۔ اگر فتویٰ کی اہمیت ہو تی تو پہلے اس کی طرف ہی رجوع کرکے مسئلہ حل کرلیاگیا ہوتا ، مدارس جگ ہنسائی نہیں ہوتی اوراپنے طورپر فیصلہ ہوجاتا ہے ، مگر اب کیوں فتویٰ کی یا د آرہی ہے ؟ کیا فتویٰ والوں سے سانٹھ گھانٹھ ہوگئی ہے ؟مقدمہ بازی میں خوب مزہ آیا ، لاکھوں روپئے دونوں نے پھونک ڈالے ، قوم کے سرمایوں کو طلباء پر صرف کرنے کے بجائے ”مدارس کی جگ ہنسائی کی بارات میں “لٹوا دیا گیا ۔ اب یاد آئی فتویٰ کی ؟ ؟ ۔

اس موقع سے قرآن شریف کی ایک آیت مع ترجمہ و تفسیر پیش کرنا مناسب معلوم پڑتا ہے ۔ لہٰذا اس آیت پر فریقین سوچیں اور دیگر علماء کے ساتھ ساتھ اہل ایمان بھی ۔

”کیا تو نے ان کو نہیں دیکھا جو گمان کرتے ہیں کہ وہ اس پر جو تیری طرف اتارا گیا اورجو تجھ سے پہلے اتارا گیا ، ایمان لاچکے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ”طاغوت“کو اپنا حاکم بنائیں ، حالانکہ ان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس کو نہ مانیں “(النسائ: ۰۶)

طاغوت لغت میں ہر اس کو شے کو کہتے ہیں جس کو خدا تعالٰی کو چھوڑ کر معبود بنایا جائے ”کل معبود من دون اللہ“اوراہل تفسیر نے شان نزول کا لحاظ کرکے بھی اس سے کاہنوں ، جادوگروں اورکبھی یہودی حاکموں کو مراد لیا ہے ، اس لئے اس کا مشترک مفہوم یہ ہواکہ اللہ تعالٰی کے سوا جس کے احکام کو قانون کا درجہ دے کر اطاعت کی جائے یا اس کے مطابق فیصلہ چاہا جائے ، وہ طاغوت ہے،قرآن مجید میں یہ لفظ سات جگہوں پر آیا ہے اورہر جگہ اس سے مراد حاکم باطل اور معبود باطل لیا گیا ہے ۔

قوانین الہی کو چھوڑ کر کسی اورقانون کے مطابق فیصلہ کرنا اور فیصلہ چاہنا فسق ہے اور اس کا مرتکب فاسق کہلائے گا ۔(سیرت النبی: جلد ہفتم ،صفحہ ۵۰۱)

یہاں صریح طور پر ”طاغوت “سے مراد وہ حاکم ہے جو قانون الہی کے سوا کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہو ،اور وہ نظام عدالت ہے جو نہ تواللہ کے اقتدار اعلیٰ کا مطیع ہواورنہ اللہ کی کتاب کو آخری سند مانتا ہو۔ لہٰذا یہ آیت اس معنی میں بالکل صاف ہے کہ جو عدالت ”طاغوت“کی حیثیت رکھتی ہو اس کے پاس اپنے معا ملات فیصلہ کے لئے لے جانا ایمان کے منافی ہے اور خدا اور اس کی کتاب پر ایمان لازمی کا اقتضا یہ ہے کہ آدمی ایسی عدالت کو جائز عدالت تسلیم کرنے سے انکار کردے ،قرآن کی رو سے اللہ پر ایمان اور طاغوت سے کفر ، دونوں لازم وملزوم ہیں ۔ اورخدا اورطاغوت دونوں کے آگے بیک وقت جھکنا عین منافقت ہے ۔ (تفہیم القرآن)

اس تفسیر کی رو سے آج کی ”عدالت“میں اہل ایمان کا اپنا مقدمہ لے جانا قطعاً صحیح نہیں معلوم پڑتاہے ۔ کیونکہ وہاں قرآن واحادیث تو کجا ، ملکی آئین کو بالکلیہ بروئے کا ر نہیں لایا جارہا ہے ۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ بیشتر قضیہ کے حل کے لئے ہمارے پا س متبادل ”شرعی دارلقضاء“ہے۔ یہاں فیصل کئے گئے مقدمات کی ملکی قوانین کی نگاہ میں اہمیت بھی ہے ۔ اس متبادل یعنی شریعت پر عمل نہ کرکے دوسرے قوانین یا بالفاظ دیگر دوسرے عدالت کا سہارا لینا کہاں کی عقلمندی ہے ؟اب یہ اشکال ہوسکتاہے جمہوری ملک کے باشندوں کے لئے جمہوری قانون کے تحت چلنی والی عدالتوں سے کنا رہ کش ہو جانا کیسا ہے ؟ کیا ان کا کنارہ کش ہونا ملکی آئین کو چیلنچ نہیں ہوگا ؟جمہوریت کو مد نظر رکھ کر اس کا جواب دو ٹوک ہے کہ اسی جمہوریت نے ہمارے لئے عدالت کے باوجود ”متبادل“کا حق دیا ہے ۔

ارباب مدارس بھی فی الفور اپنے قضیہ عدالت پہونچادیتے ہیں ۔ عدالت کی چکر کاٹنے میں کس قدر کذب بنانی کرنا پڑتی ہے وہ چکر کاٹنے والو ں کو ہی صحیح معلوم ۔ مذکورہ آیت پیش کرنے کا منشا صرف یہ ہے کہ ہمیں بالکلیہ نہ سہی حتی الامکان ان عدالتوں سے بچ کر اپنی شرعی عدالت میں اپنا مسئلہ حل کریں ۔ تاکہ ہمارے مسائل بھی حل ہوجائیں اور جگ ہنسائی بھی نہ ہو ۔

اسی قابل کاشت زمین کے مسئلہ کو لیجئے کہ برسوں زیر عدالت رہا ، اگر پہلے ہی فتویٰ کی طرف رجوع گیا ہوتا تو قوی امکان تھا کہ یہ حل ہو گیا ہوتا ۔ جس کا فائدہ یہ بھی ہوتاکہ اس پر کاشت ہوتی ، دونوں فریق میں سے کوئی نہ کوئی فریق فائدہ اٹھاتا۔

ضلع بلرامپور کے ایک مدرسہ کی خبر بھی روشنی میں آئی ہے کہ مدرسہ کی 20بیگھہ زمین سابق صدراور نگراں نے 20لاکھ 20ہزار میں ہی فروخت کردی ۔ کوئی غیر مسلم اس پر کاشت کررہا ہے ۔ ذرا سوچئے 20بیگھہ کی ملکیت کوئی معمولی ہو تی ہے ، اس کے باوجود معمول رقم 20لاکھ میں ہی انہوں نے فروخت کردی ۔ مدرسہ کو وقف کرنے والے کی نیت کیا رہی ہوگی مگر آپسی تنازع یا چند کوڑیوں کی لالچ میں مدرسہ والوں نے فروخت کردی ۔ کتنی گھناؤنی اورسطحی بات ہے یہ ۔

انتہائی غور کرنے کی بات ہے کہ اگر یہی روش ارباب مدارس کی رہی تو عوام کی نگاہ میں علماءکی اہمیت کیارہ جائے گی ؟ ان کی بچھی کچھی ساخت بھی کیا باقی رہے گی ؟ آئے دن ارباب مدارس عوام کے سرمایوں (چندہ)کو برباد کرنے کے نت نئے طریقے ایجاد کرتے جارہے ہیں ، مقدمہ بازی تو بیشتر کا شغل ہو گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اشتہار بازی میں سبقت لے جانے کا مشغلہ بھی انہوں نے شروع کرلیا ہے ۔ کسی صحافی نے کچھ اچھا لکھ دیا ، کوئی نیا روزنامہ آیا ، کسی مسلم سیاست داں کو کسی پارٹی نے اپنی کابینہ میں شریک کرلیا یا پھر کوئی تیج تہوا ر کا موقع آگیا ،پھر دیکھئے ارباب مدارس کے اشتہارات !! قوم سے چندہ کے نام پر لی گئی رقم ان خرافات میں برباد کرتے ذار ابھی جھجھک انہیں محسوس نہیں ہوتی ۔ میری ارباب مدا رس سے بس یہی التجاہے کہ خدارا ہوش کے ناخن لیجئے ، ورنہ مستقبل انتہائی تاریک ہو گا ۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 100821 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More