۲۲مارچ ’’ورلڈ واٹر ڈے‘‘ اور کالا باغ ڈیم

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شمشاد اختر
اﷲ تعالی کی نعمتوں میں سے سب بڑی نعمت پانی ہے ۔اﷲ تعالی نے سورہ انبیاء میں فرمایا : ہم نے ہر زندہ چیز پانی سے تخلیق کی ہے۔اس کائنات میں انسانوں سے لے کرحیوان ، چرند ، پرند، حتی کہ درخت اور پھول کلیاں بھی اپنی بقا کے لیے پانی کے محتاج ہیں ۔زراعت، انڈسٹری اور بجلی کا حصول سب پانی کے مرہون منت ہے ۔بین الاقوامی سطح پر پانی کی ضرورت و اہمیت کو سمجھتے ہوئے ۲۲ مارچ کو ورلڈ واٹر ڈے منایا جاتا ہے ۔اس کرہ ارض پر تقریباََ ۴۵۴․۱بلین کیوبک کلو میٹرپانی موجود ہے اس میں سے ۵․۲ فیصد تازہ پانی ہے جوکہ قابل استعمال ہے باقی کا ۵․۹۷ فیصد انتہائی نمکین سمندری پانی ہے جو کہ قابل استعمال نہیں ۔تازہ پانی کا بھی دو تہائی بھی Polar Ice caps, Glaciers, Permafrost کی شکل میں باقی کا ایک تہائی تازہ پانی کی شکل میں دستیاب ہے۔یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ کل پانی کا ایک فیصد سے بھی کم تازہ پانی کی شکل میں موجود ہے ۔ کائنات میں پانی کی مقدار یکساں یعنی Constant ہے جبکہ اس کی ڈیمانڈ دن بدن بڑھتی جا رہی ہے ۔موسمی تبدیلیوں ، ماحولیاتی تغیر ، صنعتوں کے فروغ اور آبادی میں مسلسل اضافہ سے پانی کے ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے ۔اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ۲۰۵۰ ء تک۴۰ ممالک کوپانی کی شدیدکمی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہر انسان کو سالانہ ۱۷۰۰ کیوبک میٹر پانی درکار ہوتاہے۔

ہائیڈرولوجی کے مشہور شخص اسماعیل سیرا گلڈن کے مطابق اس صدی کی بہت سی جنگیں تیل کے لیے لڑی گئیں لیکن اگلی صدی کی جنگیں پانی پر ہوں گی۔ UNOکے سیکرٹری جنرل بطریس غالی کے مطابق دنیا کی اگلی جنگ ، سیاسی یا معاشی معاملات پر نہیں بلکہ پانی پر لڑی جائے گی امریکی صدر بل کلنٹن نے بھی جنوبی ایشیا ء کو پانی کے حوالے سے ایک حساس علاقہ قرار دے دیا تھا۔ قدرت نے پاکستان کو پانی کی وافر مقدار عطا کی ہے ۔قیام پاکستا ن کے وقت ہر پاکستانی کو ۵۶۵۰ کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جو کہ آبادی کے بڑھنے اور چند موسمیاتی عوامل کی وجہ سے گھٹتے گھٹتے۱۰۰۰ کیوبک میٹر رہ گئی ہے ۔ پاکستان بنیادی طور پرایک زرعی ملک ہے اور اس کی زراعت کا انحصار دریاؤں کے پانی پر ہے پاکستان میں پانی کا سب سے بڑا ذریعہ انڈس بیسن ہے ۔ پاکستان میں بہنے والے دریا ستلج ، راوی اور انڈیا سے بہہ کر آتے ہیں جبکہ دریائے سندھ ، چناب اور جہلم مقبوضہ کشمیر سے بہہ کر آتے ہیں ۔ اسی لیے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا تھا ۔

قیام پاکستان کے وقت ہی پاکستان اور انڈیا کے مابین پانی کی تقسیم منصفانہ نہ تھی باؤنڈری کمیشن کے سربراہ ریڈ کلف نے وہ علاقے انڈیا کو دے دیئے جہاں سے ہیڈ ورکس پاکستان کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے پانی سیلابی کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انڈیا نے دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے اپریل ۱۹۴۸ ء میں ایک ماہرین کی ٹیم انڈیا گئی اور طویل مذاکرات کے بعد انڈیا نے پانی جاری کرنے کی حامی بھر لی لیکن پاکستان کو اس پانی کے چارجز ادا کرنے تھے پاکستان اور انڈیا کے آبی مسئلہ کی باز گشت دوسرے ممالک میں سنائی دینے لگی اور ورلڈ بینک کی مداخلت سے ۱۹۶۰ء میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ۔جسے سندھ طاس معاہدہ کہتے ہیں ۔اس معاہدے پر پاکستان میں اس وقت کے پریذیڈنٹ ایوب خان پر سخت تنقید ہوئی کہ اس نے تین دریا بھارت کو بیچ دئیے۔اس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریاراوی ، ستلج اور بیاس پر انڈیا کی ملکیت ہوگی جبکہ تین مغربی دریا سندھ ، چناب ،جہلم پر پاکستان کی ملکیت ہو گی تین دریا انڈیا کے حوالے کرنے سے ان علاقوں کو سیراب کرنے کے لئے ڈیمز بنانے کی اشد ضرورت تھی۔ جن سے نہریں نکال کر ان علاقوں کو سیراب کیا جائے جو کہ پہلے مشرقی دریاؤں سے سیراب ہوتی تھیں ۔

لہذا سندھ طاس معاہدے کے مطابق پاکستان میں دو بڑے ڈیم اور سات (۷) رابطہ نہریں تعمیر کی گئیں ۔واپڈا کے ۲۰۲۱ ء وژن کے مطابق پاکستان کوبڑے اور چھوٹے ڈیمز کی اشد ضرورت ہے خصوصاََ کالا باغ ڈیم کی اہم ضرورت ہے۔پاکستان کے تمام صوبوں کو چا ہیے کہ وہ صوبائی ایشوز کو چھوڑ کر قومی سوچ اپنائیں اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو یقینی بنائیں ،پاکستان میں کم و بیش ۱۵۵ ڈیمز بنائے گئے ہیں ۔پاکستان کے چند بڑے ڈیمز درج ذیل ہیں :(۱) تربیلا ڈیم : یہ ڈیم پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع ہری پور میں واقع ہے ۔ یہ ڈیم حجم کے لحاظ ایشاء کا دوسرا بڑا ڈیم ہے یہ منگلا ڈیم سے دو گنا اور اسوان ڈیم ( مصر)سے تین گنا بڑا ہے اور دنیا میں مٹی کی بھرائی کا سب سے بڑا ڈیم ہے ۔تربیلا ڈیم دریائے سندھ پر تربیلا کے مقام پر تعمیر کیا گیا ہے ۔اس ڈیم کے تین مقاصد تھے : (۱) سیلاب کو کنٹرول کرنا ،(۲) فصلوں کو سیراب کرنا (۳) اور بجلی پیدا کرنا ۔۱۹۶۷ ء میں عالمی بنک نے اس کی منظوری دی اور دوست ممالک کے تعاون سے ۱۹۷۶ء میں تکمیل ہوئی اس کی لاگت ۱۴۹ بلین ڈالر تھی ۔ (۲) منگلا ڈیم: پاکستان کا دوسرا بڑا ڈیم منگلا ڈیم ہے جو کہ دنیا کا ۹واں بڑا ڈیم ہے ۔یہ ڈیم آزاد کشمیر کے ضلع میر پور میں بنایا گیا ۔ یہ دریائے جہلم پر بنایا گیاہے ۔ ڈیم کی اونچائی ۱۴۷ میٹر ہے اس ڈیم پر ہونے والے اخراجات بھی ورلڈ بنک نے اٹھائے تھے ۔ ( ۳) وارسک ڈیم : وارسک ڈیم خیبر پختونخواہ میں پشاور کے شمال مغرب میں دریائے کابل پر بنایا گیا ہے ۔ یہ دو مرحلوں میں مکمل ہوا پہلا فیز ۱۹۶۰ ء میں مکمل ہوا دوسرا ۱۹۸۱ء میں ۔ (۴)میرانی ڈیم :میرانی ڈیم صوبہ بلوچستان میں دریائے دشت پربنایا گیا ہے۔اس ڈیم کی تکمیل ۰۶۔۲۰۰۲ کے عرصے میں ہوئی یہ ڈیم سیلاب کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے ۔ (۵) خانپور ڈیم : یہ ڈیم صوبی خٰبر پختونخواہ کے ضلع خانپورمیں دریائے ہرو پر واقع ہے۔ یہ اسلام آباد سے چالیس کلو میٹر دور ہے اسلام آباد اور راولپنڈی شہروں کو پانی پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ یہی خانپور ڈیم ہے۔ اس ڈیم پر ۱۳۵۲ ملین لاگت آئی یہ ڈیم اپنی خوبصورت کی وجہ سے سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بھی ہے ۔ (۶) :حب ڈیم : یہ ڈیم کراچی سے ۵۶ کلو میٹر دریائے حب پر واقع ہے ۔یہ ڈیم صوبہ سندھ اور صوبہ بلو چستان کی سرحد پر ہے اس کا مجموعی رقبہ ۲۴۳۰۰ ایکٹر ہے اور اس میں ۸۵۷۰۰۰ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے ۔لیکن اس وقت جو سب سے ذیادہ ضرورت ہے وہ کالا باغ ڈیم کی ہے جس کی تعمیر سے آنے چیلنجز سے نمٹا جا سکتا ہے اس لئے ہمارے ملک کے تمام اربا ب اختیار و اقتدار کو اس پر سنجیدگی سے مناب اقدام اٹھانا ہوں گے ۔
 

A R Tariq
About the Author: A R Tariq Read More Articles by A R Tariq: 65 Articles with 47416 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.