مغربی بنگال میں رام اور درگا کا مہایدھ

یکم مارچ کوایڈوکیٹ ایم ایل شرما نے عدالت عظمی میں اپیل دائرکی تھی کہمغربی بنگال کے اندر 8 مرحلوں میں پولنگ کرانے کے فیصلے پر روک لگائی جائے کیوں کہ اس سے آرٹیکل 14 (زندگی کا حق) اور آرٹیکل 21 کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ درخواست گزار نے مغربی بنگال میں مذہبی نعروں پر پابندی لگانے اورامیت شاہ جیسےنعرہ لگانے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائے جانے کا مطالبہ کیا تھا ۔درخواست میں کہا گیا تھا کہ ’’جئے شری رام جیسےنعرے لگانے کی وجہ سے مذہبی اشتعال کا ماحول پیدا ہو تا ہے جو تعزیرات ہند اور عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کے تحت جرم ہے۔ ایم ایل شرما کا کہنا تھا کہ ’’جے شری رام ‘‘ جیسے نعرے انتخابی فائدے کے لئےاستعمال ہوتے ہیں۔اس لئے انتخابی موسم میں اس پر پابندی عائد ہونی چاہیے مگر عدالت عظمیٰ نے اس د رخواست کو مسترد کردیا۔

موجودہ انتخابی سیاست میں نعروں کے ذریعہ عوام کا جذباتی استحصال کیا جاتا ہے۔ بنگال میں 29جنوری کو بی جے پی نے ’جے شری رام’ کے نعرہ بلند کرکے سیاسی مہم کاآغاز کیا تھا ۔ نیتا جی سبھاش چندر بوس کے یوم پیدائش پر مرکزی حکومت کی جانب سے منعقدہتقریب میں وزیراعظم کے سامنے "جے شری رام" کا نعرہ لگنے سے تنازع ہوگیا۔ اس وقت آر ایس ایس نے بھی "جے شری رام"کے نعرے سے بی جے پی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا ۔ مغربی بنگال میں آر ایس ایس کے سربراہ جشنو باسو نے کہا تھا کہ ممتا بنرجی نے تجربہ کار سیاست داں کی طرح اس کی مخالفت کرکے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور "جے ہند" اور "جے بنگلہ" کا نعرہ لگایا۔ اس کے بعد بی جے پی نے ترقی اور تبدیلی وغیرہ کا نعروں کا سہارا لیا مگر دال نہیں گلی ۔ سورو گنگولی پر ڈورے ڈالے گئے تاکہ ان کو وزیر اعلیٰ کا چہرہ بناکر پیش کیا جائے مگر وہ بیماری کا بہانہ بناکر کنارے ہوگئے ۔ متھن چکرورتی آئے تو اپنے آپ کو’ کوبرا ‘ کہہ کر پھنس گئے ۔ اب بی جے پی ان کو بل میں بند کرکے کنارہ کش ہوگئی ہے۔

بی جے پی کے سارے حربے جب ناکام ہوجاتے ہیں تو وہ رام کے شرن (پناہ) میں آجاتی ہے۔ فی الحال اس کے اسٹا ر مہم باز شاہ ، یوگی اور اسمرتی زور و شور سے رام نام جپ رہے ہیں۔ یوگی نے اپنے چار خطابات عام میں 80 مرتبہ رام کا ناملے لیا۔ پورولیا میں 9 ، مالدہ میں 15، مودنی پور میں 21اور بانکورہ میں تو 35مرتبہ رام رام کرتے رہے ۔ یوگی نے کہا کہ ہندوستان میں رام کا نام لیے بنا کام نہیں بنتا ۔ یہ بات انہوں خود ان کےاپنے اور پارٹی کے بارے میں کہی تھی اس لیے کہ جب ۷ سالوں تک مرکز اور ۴ سال سے اترپردیش میں اقتدار پر قابض رہنے کے باوجود دکھانے کے لیے کوئی قابلِ ذکر کام نہ ہو تو رام کا نام لینے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں بچتا۔ بانکورہ میں وہ بولے کو رام کو ہماری زندگی سے الگ کرنے کی کوشش کرنے والے کو اقتدار سے محروم کردیا جائے گا اور چونکہ ممتا بنرجی ایسا کررہی ہیں اس لیے لوگ انہیں ہٹا دیں گے ۔ یہ احمقانہ بات ہے، ممتا کو کیا پڑی ہے کہ وہ کسی کو رام سے دور کرے؟

اس سال امیت شاہ ۳ بار بنگال کے دورے پر گئے ۶ جلسوں سے خطاب کیا ان میں سے دو ریلیوں میں انہوں نے26 بار رام کا نام لیا یعنی اس اوسط سے جملہ ۷۵ مرتبہ رام کا نام جپ چکے ہوں گے ۔ ویسے وزیر اعظم کے بریگیڈ گراونڈ پرجلسے کی ناکامی کے بعد امیت شاہ کے ہیلی کاپٹر کی ہوا نکل گئی اور کم لوگوں کے سبب سواری کی خرابی کا بہانہ بناکر آن لائن خطاب پر اکتفاء کرلیا۔ اسمرتی ایرانی نے بھی اپنی پہلی ہی ریلی میں 12 بار رام کا نام لے لیا ۔ اتنی بار تو انہوں نے امیٹھی میں بھی رام کویاد نہیں کیا ہوگا۔ وزیر اعظم کی چونکہ بھری محفل میں ممتا بنرجی نے توہین کردی تھی اس لیے وہ ہنوز محتاط ہیں اور کبھی تبدیلی تو کبھی ترقی کا راگ الاپتے ہیں ۔ ویسے انہوں نے عوام کے ذریعہ ممتا بنرجی کو رام کارڈ دکھا کر باہر کرنے کا ذکر ضرور کیا ہے۔

مغربی بنگال میں بنگالی بولنے والے ہندووں کا تناسب ۵۰ فیصد اور غیربنگالی ہندو ۲۰ فیصد ہیں باقی ۲۹ فیصد مسلمان ہین ۔ بنگالی ہندووں میں رام کے بجائے درگا زیادہ مقبول ہے جبکہ غیر بنگالیوں میں رام کی کسی قدر مقبولیت ہے۔کسی زمانے میں رام کے نام پر بگڑ جانے والی ممتا کو ان کے مشیر پرشانت کشورنے رام کی بابت احتیاط کی تلقین کردی ہے تاکہ یہ غیر بنگالی داں ووٹربدک کر بی جے پی کی گود میں نہ جا بیٹھے ۔ بی جے پی نے درگا کے ذریعہ بھی اپنی سیاسی دوکان چمکانے کی سعی کی تھی مگر ناکام رہی اس لیے کہ وہ ممتا کا میدان ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ممتا بنرجی نے کاغذات نامزدگی داخل کرنے سے قبل مندر میں جاکر چنڈی پاٹھ کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ وہ برہمن ہیں اس لیے کوئی ان کو ہندوتوا سکھانے کی کوشش نہ کرے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جس طرح دہلی میں کیجریوال اپنے آپ کو مودی سے بڑا رام بھکت ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں اسی طرح ممتا بھی خود کوشاہ سے بڑا ہندو ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہیںحالانکہ ابن الوقت سیاستدانوں کا دین و مذہب سے کیا تعلق؟ وہ تو دھن دولت اور اقتدار کے پجاری ہوتے ہیں ۔

بی جے پی کے جذباتی استحصال کا توڑ ممتا بنرجی کے پیر میں چوٹ کی ہمدردی والی لہر میں ہے۔ان پر حملہ ہوا یہ ایک حقیقت ہے لیکن کس نے کیا اس بابت اختلاف ہے۔ممتا اور ان کے حامی اسے اشارے کنائے میں بی جے پی کی کارستانی بتاتے ہیں ۔ اس کے برعکس بی جے پی سمیت ساری جماعتیں اس کو ڈرامہ قرار دے رہی ہیں ۔سچ تو یہ ہے زخمی شیرنی کی وہیل چیر پر انتخابی مہم ان کے تمام مخالفین کے لیے زیادہ خطرناک ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امیت شاہ تک اس پر چٹکی لے چکے ہیں۔ ویسے تو ملک کے پانچ صوبوں میں انتخاب ہورہے ہیں مگر بی جے پی اپنا سارا زور مغربی بنگال پر لگا رہی ہے اس لیے وہ وہاں سے کافی پر امید ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 2016 میں اس کے پاس صرف 20فیصد ووٹ تھا جو ۲۰۱۹ میں بڑھ کر 38 فیصد پر پہنچ گیا۔ یہ ایک غیرمعمولی کامیابی تھی اور ٹی ایم سی اور اس کے درمیان صرف 3 فیصد کا فرق رہ گیا ۔ اس کو لگتا ہے اگر وہ 2 فیصد ووٹ بڑھا لے گی تو اقتدار میں آجائے گی ۔ اس لیے جی جان سے کوشش کررہی ہے اور ایسا کرنا بھی چاہیے۔

بی جے پی کے ان خوابوں کے شرمندۂ تعبیر ہونے میں کئی مسائل ہیں مثلاً وہاں پارٹی کے کارکنان کی کمی ہے اس لیے اسے دیگر جماعتوں سے خاص طور پر ٹی ایم سی کے مقبول عام لوگوں کو لالچ دے کر یا بلیک میل کرکے اپنی پارٹی میں لانا پڑتا ہے۔ اس کا ایک نقصان تو یہ ہے کہ ان کو ٹکٹ دینے کے بعد پہلے سے کام کرنے والے کارکنان مایوس ہوجاتے ہیں اور ان لوگوں نے بنگال بی جے پی کے دفتر میں توڑ پھوڑ بھی کی ۔ جن نئے لوگوں کو ٹکٹ نہیں ملتا وہ لوٹ جاتے ہیں۔ ایسا بھی ہوا۔ بی جے پی کے پاس رہنماوں کی ایسی کمی ہوئی کہ اس نے اپنے 4 ارکان پارلیمان کو اسمبلی کا ٹکٹ دیا جو ایک طرح سے تضحیک ہے ۔ ان میں سے ایک سوپن داس گپتا کو ضابطے کی کارروائی کے سبب استعفیٰ بھی دینا پڑا کیونکہ وہ نامزد رکن تھے جو کسی سیاسی پارٹی کے اندر سے نہیں ہوسکتا ۔ اس کے علاوہ دو ایسے بھی لوگ ہیں کہ جن کو پارٹی نے ٹکٹ دیا اور انہوں نے لڑنے سے انکار کردیا ۔ یہ ایک زبردست جھٹکا ہے ۔

بی جے پی کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس وزیر اعلیٰ کا طاقتور تو دور کمزور امیدوار بھی نہیں ہے۔ قومی انتخاب میں جس طرح آج کل یہ سوال ہوتا ہے کہ مودی نہیں تو کون ؟ اور اس کے سبب کئی ایسے لوگ بھی بی جے پی کو ووٹ دے دیتے ہیں جو دل سے نہیں چاہتے ۔ صوبائی انتخاب میں بھی یہ سوال ہے کہ ممتا نہیں تو کون ؟ اور اس کا نقصان بی جے پی کو ہوگا کیونکہ یہ سب کو پتہ ہے مودی یا شاہ وزیر اعلیٰ نہیں بنیں گے۔ ان مسائل کے علاوہ ایک مسئلہ یہ ہے کہ عام طور اگر کسی صوبے میں علاقائی پارٹی مضبوط ہوتو قومی انتخاب کے مقابلے صوبائی انتخاب میں بی جے پی کے ووٹ کی شرح تقریباً 7فیصد گر جاتی ہے اس لیے بی جے پی اور ٹی ایم سی کے درمیان کی کھائی کے گہرے ہونے کا قوی امکان ہے۔ بی جے پی کو اس کا علم ہے اس کے باوجود اس نے اپنی تمام طاقت جھونک دی ہے ۔ مغربی بنگال میں ۲۹ فیصد مسلمان ہیں اور وہ 100 حلقوں میں نتائج پراثر انداز ہوتے ہیں ۔ پچھلی مرتنہ ان میں 98 مقامات پر ٹی ایم سی کامیاب ہوئی تھی اس بار بھی اگر ممتا کامیاب ہوجاتی ہیں تو اس سے نہ صرف بی جے پی بلکہ مودی اور شاہ کی بھی بہت بڑی رسوائی ہوگی ۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449736 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.