عالمِ عرب میں ماہ ِرمضان المبارک کی تیاریاں زوروں
پرجاری ہیں لیکن ویسے نہیں جو ماضی میں ہوا کرتی تھیں۔بے شک احتیاطی تدابیر
اپنی جگہ مسلمہ حیثیت رکھتی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عبادات سے روک
دیا جائے۔ 2019تک رمضان المبارک کے آغاز سے قبل صاحبِ ثرورت واہل خیر حضرات
غرباء و مساکین اورمعاشی اعتبار سے کمزور مسلم بھائیوں و بہنوں کیلئے جس
طرح کے اہتمام کی تیاریوں کے انتظامات کرتے تھے آج یعنی2021میں اس پر مکمل
پابندیاں لگ چکی ہیں ۔ 2019تک عرب ممالک ہی نہیں بلکہ دیگر اسلامی اور غیر
اسلامی ممالک میں بھی روزے داروں کیلئے مساجد اور دیگر مقامات پر افطار
کیلئے بڑے بڑے دستر خوان بچھائے جاتے تھے اور روزے دار اﷲ کی ان نعمتوں کا
شکرانہ ادا کرتے ہوئے تناول فرماتے۰۰۰ لیکن یہ کیا کورونا وائرس نے تو ان
تمام عبادتوں و ریاضتوں پر پانی پھیر دیا جس کے ذریعہ لوگ اﷲ کی خوشنودی
حاصل کرنے کی سعی فرماتے۔ ماہِ صیام میں اﷲ کی راہ میں کھلانے پلانے اور
مختلف طریقوں سے لوگوں کی مدد کرنے میں جو مزہ ہے وہ اس کورونا وبا کے ڈرو
خوف نے اس سے دور کروا دیا۔ عام لوگوں کی کثیر تعداد اتنا ڈرو خوف میں
مبتلا نہیں ہے جتنا حکومتیں احتیاطی تدابیر کے نام پرڈرو خوف بٹھانے کی
کوشش کررہی ہیں۔ عالمِ اسلام اور دیگر ممالک کے حکمراں یا حکومتی
عہدیدارکووڈ ۔19کا ڈرو خوف بٹھاکر اﷲ رب العزت کے احکامات اور رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ وسلم کی سنتوں سے دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسے ایسے پابندیاں
عائد کئے جارہے ہیں جس کی وجہ سے احکامات الٰہی اور سنتِ رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ و سلم سے دوری ہورہی ہے اور اسکا نتیجہ مستقبل میں مسلمانوں کیلئے
نقصاندہ ثابت ہوگا۔ عالمِ عرب کے اہم ترین ممالک نے جس طرح رمضان المبارک
کی آمد سے قبل کئی ایسی پابندیاں عائد کردی ہیں جس کی وجہ سے مسلمان
اجتماعی طور پراپنے خالق و مالک کی عبادات کرنے سے محروم کردیئے جارہے ہیں
۔ مساجد میں عبادات کیلئے جو اوقات مقرر کئے جارہے ہیں اسکی وجہ سے اس میں
کتنا خشوع و خصوع باقی رہے گا اس کا اندازہ ایک عابدمسلمان و مومن ہی
کرسکتا ہے۔ ماہِ صیام میں روزے داروں کی ضیافت کیلئے جو درس اسلام نے دیا
ہے اس پر بھی پابندی عائد کی جارہی ہے۔ عالمِ اسلام میں نمازِتراویح
اورنمازِ تہجدکیلئے جو خصوصی انتظامات کئے جاتے تھے ان پر پابندی عائد کردی
گئی ہے۔ اس سلسلہ میں ملاحظہ فرمائیے۔ متحدہ عرب امارات نے اس سال رمضان
المبارک کے دوران کورونا کا پھیلاؤ روکنے کیلئے نئے اقدامات کا اعلان کیا
ہے۔ مساجد میں تراویح کی اجازت ہوگی تاہم عشا کی نماز اور تراویح کا
دورانیہ صرف تیس منٹ پر مشتمل ہوگا جبکہ خواتین کے مصلے(یعنی خواتین کیلئے
مساجد میں جو نمازوں کیلئے انتظام ہوتا تھانہیں ہوگا )نہیں ہونگے۔ماہِ صیام
سے متعلق حفاظتی تدابیر کے تحت مساجد میں افطار دستر خوان پر پابندی لگادی
گئی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق متحدہ عرب امارات کے بحرانوں اور ہنگامی
حالات کے نگراں قومی ادارے کے ترجمان ڈاکٹر سیف الظاہری کے مطابق معاشرے کی
صحت و سلامتی کی خاطر مشورہ دیا گیا ہے کہ رمضان کی راتوں میں اجتماعات سے
پرہیز کیاجائے ۔ ایک دوسرے خاندان سے ملاقات سے گریز کیا جائے ، گھروں اور
خاندانوں کے درمیان منتخب کھانوں کی تقسیم اور تبادلے سے پرہیز کیا جائے
البتہ ایک خصوصی چھوٹ یہ دی گئی ہے کہ ایک ہی خاندان کے وہ افراد جو ایک ہی
گھر میں رہ رہے ہوں وہ اجتماعی طور پر افطار کرسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ
خاندانی افطار خیموں یا ادارہ جاتی افطار پارٹیوں کے تحت روزہ داروں کیلئے
اہتمام کیا جاتا تھا اس کی اب اجازت نہیں ہوگی۔ گھروں اور مساجد کے سامنے
افطار خوراک تقسیم کرنے پر پابندی گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی برقرار رہے
گی جو لوگ افطار خوراک تقسیم کرنا چاہتے ہوں وہ فلاحی اداروں کی خدمات حاصل
کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔ آن لائن زکوٰۃ، صدقات اور خیرات کا راستہ اختیار
کیاجاسکتا ہے۔رمضان کے آخری عشرے میں تہجد کی نماز پڑھنے کا فیصلہ پورے ملک
میں وبا کی صورتحال کو مدنظر رکھ کر کیا جائے گا۔ بعض مقامات پر رمضان کے
دوران کورونا سے بچاؤ کیلئے سات حفاظتی اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے جن میں
افطار خیموں پر پابندی، عوامی مقامات پر اجتماعی دسترخوان کی ممانعت، گھروں
کے سامنے افطار کی تقسیم کی عدم اجازت، ریستورانوں کے منتظمین کو دستانے
اور حفاظتی ماسک کی پابندی کی تاکید کی گئی ہے۔ افطار خوراک اسپیشل تھیلیوں
یا ڈبو میں رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ریستورانوں کے اندر یا باہر کہیں بھی
افطار پیکٹ تقسیم نہیں کیے جاسکیں گے البتہ ورکرز کے رہائشی مراکز میں
افطار پیکٹ ریستورانوں اور انتظامیہ کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ دیے جاسکیں
گے۔البتہ متحدہ عرب امارات میں کھانے پینے کی چیزیں اور اشیائے صرف رمضان
میں 50فیصد تک سستی کردی گئیں۔ امارات میں ریٹیل کے تاجروں نے اعلان کیا ہے
کہ رمضان المبارک کے دوران کھانے پینے کی چیزیں اور اشیائے صرف کی قیمتیں
20سے 50فیصد تک کم نرخوں پر فروخت ہونگی۔تاجروں نے فیصلہ کیاہے کہ رمضان
میں سہولتیں دیں اور بحرانی حالات سے کوئی فائدہ نہ اٹھائیں۔سعودی عرب میں
رمضان المبارک کے دوران بڑے بڑے شہروں میں افطار کیمپس اور افطار خیمے
لگائے جاتے ہیں ، ہوٹلوں اور مساجد کے احاطوں میں بھی اسکا بہترین انتظام
کیا جاتا ہے۔ لیکن گذشتہ سال کورونا وبا کی وجہ سے ان پر پابندی تھی ۔ اس
سلسلہ ذرائع ابلاغ کے مطابق کہا جارہا ہیکہ اس سال رمضان کیمپ لگانے کی
منظوری دی جائے گی تاہم اس حوالے سے کچھ پابندیاں ہونگی۔ اس کا باقاعدہ
اعلان عنقریب کیا جانے والا ہے۔ سعودی وزارت سیاحت مقامی شہریوں اور مقیم
غیر ملکیوں کی صحت و سلامتی کو مقدم رکھے ہوئے ۔ مسجد الحرام مے ں رمضان کی
تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔ اس مقصد کے لئے انتظامیہ کا خصوصی اجلاس گذشتہ
دنوں منعقد ہوا تھا جس میں مسجد الحرام کے مختلف اداروں اور شعبوں نے
زائرین کی خدمت اور سہولت کیلئے جو اسکیمیں تیار کی تھیں ان کی تفصیلات پیش
کی گئیں اور انتظامیہ کے عہدیداروں نے نماز اور عمرے کیلئے آنے والوں میں
صحت آگہی پروگرام چلانے کی ضرورت پر توجہ مرکوز کی۔آئندہ چند دنوں یا ہفتوں
میں عرب و دیگر ممالک کی جانب سے بھی رمضان المبارک کے موقع پر کورونا
وائرس کی وجہ سے جو پابندیاں گذشتہ سال عائد کی گئیں تھیں اسی طرح اس سال
بھی کئے جانے کے امکانات ہیں۔
ہندوستان کوامن کیلئے پہلا قدم اٹھانا ہوگا۰۰۰ عمران خان
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے سیکیوریٹی ڈائیلاگ سیشن کے موقع پر تقریب
سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل سیکیوریٹی پر بحث کرنی ہوگی ۔ انہو ں نے
کہاکہ’’ 9/11کے بعد ہمارا ملک عذاب سے گزرا ہے تاہم سیکیوریٹی فورسز کی
قربانیوں کی بدولت ہمارا ملک محفوظ ہوا۔‘‘اس موقع پر وزیر اعظم پاکستان نے
کہاکہ خطے میں امن کیلئے ہندوستان کو پہلا قدم لینا پڑے گا، مسائل ڈائیلاگ
کے ذریعے حل ہونے چاہئیں۔انہو ں نے کہا کہ ہمسایہ ملکوں میں امن کے بغیر
معاشی خوشحالی برقرار نہیں رہ سکتی اور اسی لئے خطے کیلئے انکی سوچ امن کا
قیام ہے۔ عمران خان نے ہندوستانی کشمیریوں کو ان کے جائز حقوق دینے پر زور
دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے لئے بھی یہ فائدہ مند
ہے۔ عمران خان نے کہا کہ بھارت کشمیریوں کو حق رائے دہی دے،انہوں نے کہا کہ
کشمیریوں کو حق رائے دہی دینا دونوں ملکوں کیلئے بہتر ہے، ہمسایہ ملکوں کے
ساتھ خوشگوار تعلقات کو انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ قرار دیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہاکہ انہوں نے ہندوستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے
کی پوری کوشش کی،ان کا کہنا ہیکہ ’’ ہم نے بات چیت کے ذریعہ مسائل کے حل کی
کوشش کی ہندوستان کشمیری عوام کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق
خودارادیت دے،وزیر اعظم نے کہا کہ علاقائی امن کے بغیر جغرافیائی اہمیت سے
فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ انہوں نے کہاکہ وہ ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات
بہتر کرنا چاہتے ہیں ،پاکستان کی خواہش افغانستان میں امن قائم ہو۔ وزیر
اعظم نے کہا کہ ہم افغانستان میں امن لانے کیلئے کوشش کی، بائیڈن انتظامیہ
بھی سمجھتی ہے جنگ مزید نہیں چلنا چاہیے۔
سعودی عرب پر حوثی ملیشیا کے حملوں کی مذمت
یمن کے حوثی ملیشیا کی جانب سے سعودی عرب کے شہروں میں بار بار ناکام حملے
خصوصا ً ریاض آئل ریفائنری پر کئے جانے والے حملے کی عالمی برادری ، اوآئی
سی، جی سی سی اور عرب ممالک نے شدید مذمت کی ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (او
آئی آئی ) کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر یوسف العثیمین نے اپنے بیان میں کہا ہیکہ
حوثیوں کا یہ حملہ دہشت گردانہ عمل اور بزدلانہ تخریبی کارروائی ہے۔ انہوں
نے کہا کہ تیل تنصیبات پر حملوں کا ہدف صرف سعودی عرب نہیں بلکہ انٹرنیشنل
انرجی سپلائی سکیورٹی کو نقصان پہنچانا ہے۔ یہ شہریوں کی جانوں کو خطرات
میں ڈالنے کی کوشش بھی ہے۔ڈاکٹر یوسف العثیمین نے عالمی برادری سے درخواست
کی کہ وہ تمام دہشت گردانہ حملوں اور ان کی سرپرستی کرنے والوں کے خلاف
اقدامات کرے۔فرانس، اردن، متحدہ عرب امارات، بحرین وغیرہ نے بھی مذمت کی
یمنی وزیر اطلاعات معمر العریانی نے کہا کہ پوری دنیا کو سمجھنا ہوگا کہ ان
دہشت گردانہ حملوں کا ہدف صرف سعودی عرب کا امن و استحکام ہی نہیں بلکہ خطے
کی تیل تنصیبات کی سیکیوریٹی کو نقصان پہنچانا اور تیل کی عالمی سپلائی کے
استحکام میں گڑبڑ پیدا کرنا، عالمی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑنا اور
عالمی امن و سلامتی کو خطرہ پیدا کرنا ہے۔ اس سے قبل حوثی ملیشیا کی جانب
سعودی عرب پر حملوں کی امریکی حکومت نے بھی مذمت کی ہے۔ذرائع ابلاغ کے
مطابق امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ ’ہم سعودی
عرب میں حوثیوں کے تمام ڈرون اور میزائل حملوں کی سختی سے مذمت کرتے
ہیں‘۔انہوں نے کہا کہ یہ حملے ناقابل قبول ہیں، یہ خطرناک ہیں، یہ شہریوں
کی جانیں خطرے میں ڈالتے ہیں۔انہوں نے لگاتار کئے جانے والے حملوں کی تعداد
پر تشویش کا اظہار کیا ۔ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ امریکہ تمام فریقین کو جنگ
بندی کے لئے بلا رہا ہے ، اقوام متحدہ اور امریکہ کے یمن کے لئے سفیر ٹم
لینڈرکنگ کے زیر نگرانی مذاکرات کرنے کی دعوت دے رہا ہے‘۔واضح رہے کہ ایران
کے حامی حوثیوں نے پیر کو خمیس مشیط کی جانب دو بلیسٹک داغے تھے۔ نیڈ پرائس
نے حوثیوں پر زور دیا ہے کہ ’وہ مذاکرات کریں اور خطے میں امن اور ڈپلومیسی
قائم کرنے کا عزم کریں‘۔نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ ’ یمن میں کشیدگی ختم
کرنا امریکی صدر جوبائیڈن کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں سے شامل ہے اور
اس کی ایک مثال ٹم لینڈرکنگ کا تقرر ہے، جو اپنے اقوام متحدہ کے ہم منصب
مارٹن گرفتھس کے ساتھ مل کر اس پر کام کررہے ہیں۔
اسرائیل کے مزید 4 ممالک کے ساتھ تعلقات بحال ہونے کے امکانات
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا ہیکہ اسرائیل مزید چار ممالک
کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا پروگرام رکھتا ہے۔ انہوں نے ایک ٹی وی چینل کو
دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین سمیت چار عرب
ممالک کے ساتھ امن سمجھوتہ طے کرلئے ہیں اور مزید چار ممالک کے ساتھ معاہدے
کی تیاریوں میں ہیں۔ انکا کہنا تھاکہ مذکورہ امن سمجھوتوں میں سے ایک کے
بارے میں وہ گذشتہ شام بات چیت کی۔ انکا کہنا تھاکہ وہ علاقائی رہنماؤں میں
سے ایک کے ساتھ 45منٹ تک ٹیلی فونک ملاقات کی ہے، تاہم انہوں نے اس بارے
میں کوئی معلومات فراہم نہیں کیں کہ یہ چار سمجھوتے کن ممالک کے ساتھ کئے
جائیں گے اور جس علاقائی قائد کے ساتھ انہوں نے بات کی وہ کون ہیں۔ البتہ
دوسری جانب امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد چیرڈکشنر نے روزنامہ دی
وال اسٹریٹ جرنل کیلئے لکھے گئے مقالے میں کہا کہ سعودی عرب، قطر ، عمان
اور موریتانیہ اسرائیل کے ساتھ بحالی تعلقات کا سمجھوتہ طے کرنے کے قریب
پہنچ چکے ہیں۔ اب دیکھنا ہیکہ وزیر اعظم بنیامین نتین یاہو ان چار ممالک کے
ساتھ کتنا جلد اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بحال کرانے میں کامیاب ہوجائیں
گے۔
ترکی سے سعودی عرب مسلح ڈرون خریدنا چاہتا ہے۔اردغان
ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہیکہ سعودی عرب ترکی
سے مسلح ڈرون طیارے خریدنا چاہتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق شام ، لیبیا،
آذربائیجان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تمام محاذوں پر اپنی بہترین
کارکردگی کی وجہ سے ترکی کے مسلح ڈرون طیاروں کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا
ہے۔ استنبول تجارت یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر حسن بصری یالچن نے اپنے ایک
جائزے میں کہا ہیکہ ترکی کے طفیل ہر کوئی یہ جان چکا ہیکہ بھاری دفاعی
سسٹموں میں سرمایہ کاری کی بجائے حالتِ جنگ میں استعمال کی بہترین صلاحیت
کے حامل ڈرون طیاروں نے اسلحہ ٹیکنالوجی میں ایک انقلاب برپا کردیا ہے۔ اسی
طرح گریسون یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر جنگ اعوزگین نے کہا ہیکہ ترکی کے
مسلح ڈرون طیارے دنیا بھر میں ایک مارکہ کی شکل اختیار کرچکے ہیں اور عالمی
ذرائع ابلاغ میں ایک تواتر سے ان کے بارے میں بات کی جارہی ہے۔ اگر واقعی
ترکی سے سعودی عرب ڈرون طیارے خریدنا چاہتا ہے تو یہ دونوں ممالک کے درمیان
تعلقات میں بہتری کی ایک شکل ہوگی۔
***
|