پشاور کے ہسپتالوں کے مضر صحت فضلہ کی فروخت کا انکشاف

جی ہاں! پرائیویٹ او رسرکاری ہسپتال سے نکل کر سڑک کنارے پائے جانیوالا یہ مضر صحت سامان فروخت کیلئے دوبارہ اکٹھا کیا جاتا ہے جن میں پانی کے بوتلوں سے لیکر چائے کے ڈسپوزل کپ تک شامل ہیں اور اس کام میں ہسپتالوں میں کام کرنے والے اہلکار جنہیں عرف عام میں جمعدار کہا جاتا ہے اٹھا کر سڑک کنارے مخصوص جگہوں پر پھینکتے ہیں جنہیں شہر کے مختلف علاقوں سے روزگار کیلئے آنیوالے افراد اٹھا کر بازار میں فروخت کرتے ہیں اور پھر یہ استعمال شدہ انجکشن سمیت تمام سامان نئے پیکٹ میں دوبارہ عام لوگوں کو فروخت کیا جارہا ہے-

خیبر بازار پشاور میں سرکاری ہسپتال و لیبارٹریوں سے نکلنے والا فاضل مواد الگ کیا جارہا ہے



مسرت اللہ جان

پشاور سمیت صوبہ بھر میں سرکاری و پرائیویٹ ہسپتالوں کے انتظامیہ کی جانب سے شہریوں کو موذی امراض میں مبتلا کرنے کا انکشاف ہوا ہے موذی بیماریوں کو پھیلانے میں نہ صرف ہسپتال کی انتظامیہ بلکہ غربت کی وجہ سے کام کرنے والے عام افراد بھی شامل ہیں جو جانے انجانے میں خو د بھی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں اور لوگوں کو بھی بیمار کروا رہے ہیں جس کی جانب ابھی تک محکمہ صحت و دیگر حکام نے توجہ ہی نہیں دی-
لیڈی ریڈنگ پشاور کا سب سے بڑا ہسپتال ہے جہاں پر مختلف علاقوں سے بیمار افراد اپنے علاج کیلئے آتے ہیں ،روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں آپریشن ہوتے ہیں اسی طرح اسی ہسپتال سے وابستہ ایریا بشمول خیبر بازار ، ہسپتال روڈ پر پرائیویٹ ہسپتال ، کلینکس اور لیبارٹریاں قائم ہیں جن میں بیشتر سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر ہی کام کررہے ہیں اور ڈیوٹی کے بعد پرائیویٹ طور پر پریکٹس اور آپریشن کرتے نظر آتے ہیں-ہزاروں کی تعداد میں یہاں بھی روزانہ مختلف بیماریوں کے مریض آتے ہیں -جن کا علاج کیا جاتاہے لیکن ان کے علاج میں استعمال ہونیوالے انجکشن ، بلڈ سمپل ، آپریشن میں استعمال ہونیوالے بلڈ کے تھیلے اور دیگر سامان کہاں پر جارہا ہے اس بارے میں کسی کو پتہ ہی نہیں.
جی ہاں! پرائیویٹ او رسرکاری ہسپتال سے نکل کر سڑک کنارے پائے جانیوالا یہ مضر صحت سامان فروخت کیلئے دوبارہ اکٹھا کیا جاتا ہے جن میں پانی کے بوتلوں سے لیکر چائے کے ڈسپوزل کپ تک شامل ہیں اور اس کام میں ہسپتالوں میں کام کرنے والے اہلکار جنہیں عرف عام میں جمعدار کہا جاتا ہے اٹھا کر سڑک کنارے مخصوص جگہوں پر پھینکتے ہیں جنہیں شہر کے مختلف علاقوں سے روزگار کیلئے آنیوالے افراد اٹھا کر بازار میں فروخت کرتے ہیں اور پھر یہ استعمال شدہ انجکشن سمیت تمام سامان نئے پیکٹ میں دوبارہ عام لوگوں کو فروخت کیا جارہا ہے-
گندگی کے ان ڈھیروں سے سامان اٹھا نے والے بیشتر بیروزگار نوجوان ہیں جنہیں خود بھی نہیں پتہ کہ وہ کس بیماری کا سامنا کررہے ہیں لیکن وہ گندگی کے ان ڈھیروں سے ہسپتالوں میں استعمال شدہ انجکشن ، بشمول تمام سامان الگ الگ کرکے لوگوں کو فروخت ہیں اور پھر انہیں مخصوص جگہوں پر دھو کر دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے ان میں لیبارٹریوں میں استعمال شدہ ہونیوالے بلڈ ٹیسٹ کے ٹیوب بھی شامل ہوتے ہیں جو کہ مختلف مریضوں سے لئے گئے ہوتے ہیں لیکن ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا-
ہسپتالوں میں کام کرنے والے اہلکارا ور کنٹونمنٹ بورڈ کے اہلکار گندگی اٹھا کر مخصوص جگہوں پر ڈالتے ہیں جن کی انہیں تنخواہیں اور بعض اوقات چائے پانی کا خرچہ ملتا ہے کیونکہ انہیں اٹھانے والوں کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہوتی اور گندگی اٹھانے والے بیروزگار نوجوان اسے علیحدہ کرکے شاپروں میں ڈال کر مخصوص افراد کو فروخت کرتے ہیں یہی مال دوبارہ ری سائیکل ہو کر فروخت کیا جارہا ہے-اور یوں پیسوں کی خاطر کچھ سرکاری اور کچھ پرائیویٹ افراد پشاور سمیت صوبہ بھر کے افراد کیساتھ کھلواڑ کررہے ہیں-
لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے مختلف اطراف میں گندگی کے ڈھیروں میں استعمال شدہ انجکشن سمیت دیگر سامان گرانے والے کون افراد ہیں اس بارے میں گندگی اٹھانے والے کمپنی ڈبلیو ایس ایس پی کے اہلکاروں کا موقف ہے کہ اس میں سرکاری ہسپتال لیڈی ریڈنگ سمیت پرائیویٹ ہسپتالوں کا گند شامل ہوتا ہے جنہیں روزانہ علی الصبح گرایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کی نظروں میں نہ آسکیں -اس گندگی کے ڈھیروں میں استعمال شدہ انجکشن و دیگر سامان اٹھانے والے افراد اپنی شرمندگی کی وجہ سے کیمرے کے سامنے بات کرنے سے گھبراتے ہیں کہ انہیں لوگوں کی طنز کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ بعض افراد قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے بات کرنے سے بھی گھبراتے ہیں-
افسوسناک امر یہ ہے کہ ہیلتھ کیئر کمیشن سمیت صوبہ بھر میں مختلف ادارے صحت کی سہولیات کی فراہمی کیلئے کوشاں ہیں اور اس بارے میں بڑے دعوے کرتے نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں صورتحال اس کے برعکس ہیں-صوبائی حکومت اور متعلقہ ادارو ں کی خاموشی اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ انتظامیہ نے چند ٹکوں کی خاطر آنکھیں بند کر رکھیں یا پھر انہیں خاموش کرایا گیا ہے دونوں صورتوں میں نقصان صرف اور صرف عوام کا ہی ہورہا ہے جو مشکل حالات زندگی کے باوجود ریاست کو ٹیکس اس کیلئے ادا کرتی ہیں کہ ریاست اور ریاستی ادارے ان کی جان و مال کے تحفظ کیساتھ ساتھ صحت کا بھی تحفظ کریگی .

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497773 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More