دہلی میں فی الحال رام بھکت آمنے سامنے ہیں ۔ ان دونوں
کے درمیان فرق صرف یہ ہے کہ ایک کمل تھامے ہوئے ہے اور دوسرے کے ہاتھ میں
جھاڑو ہے ۔دہلی کے ریاستی انتخابات میں کیجریوال کو زیر کرنے کی خاطر بی جے
پی کی مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ سے رام مندر کا متنازع فیصلہ کروا دیا ۔
اروند کیجریوال کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ اب آئندہ دو مہینوں کے دوران
اسی مسئلہ کو بھُنا کر بی جے پی اپنےحق میں ماحول سازی کرے گی اس لیے انہوں
احتیاط کے ساتھ اس فیصلے پر ٹویٹ کیا کہ ’’سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی بنچ
نے دونوں فریقوں کے دلائل سن کر فیصلہ کیا ۔ ہم عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا
خیر مقدم کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے دہائیوں سے چل رہے تنازع پر فیصلہ دے دیا
۔ کئی سال پرانا تنازع آج ختم ہوگیا ۔ میں سبھی سے استدعا کرتا ہوں کہ امن
سلامتی قائم رکھیں‘‘ ۔ کیجریوال کو مسلمانوں کی ناراضی کا علم تھا مگر ہندو
رائے دہندگان کا خیال رکھنا بھی ان کی مجبوری تھی۔
اس سے تین ماہ قبل بھی کیجریوال کشمیر کے دفعہ 370 کی منسوخی پر بھی مرکزی
سرکار کی تائید میں کہہ چکے تھے کہ:’ہم جموں کشمیر سے متعلق حکومت کے فیصلے
کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں یہ ریاست میں امن اور ترقی کی راہ
ہموار کرے گا‘‘۔ ا نہیں اندازہ نہیں تھا ڈیڑھ سال بعد یہی مرکزی حکومت آگے
چل کر دہلی کی ترقی کے نام پر کیا کرنے والی ہے۔ دہلی کے صوبائی الیکشن
جیسے ہی قریب آئے تو کیجریوال نے خود کو ہنومان کا بھکت بناکر پیش کردیا ۔
انتخابی پرچہ داخل کرنے سے قبل وہ اسی طرح ہنومان مندر میں درشن کے لیے گئے
جیسے فی الحال ممتا بنرجی چنڈی کا پاٹھ کرتی پھررہی ہیں ۔ بی جے پی نے
دیکھا کہ یہ حربہ ناکام ہوگیا تو اس نے شاہین باغ کو مرکزی موضوع بنایا اور
دیش کے غداروں کو ، گولی مارو۰۰۰‘ والا نعرہ لگا کر کامیابی حاصل کرنے کی
کوشش کی مگر بات نہیں بنی ۔ عام آدمی پارٹی نے پھر سے زبردست جیت درج
کرائی ۔
کشمیر سے متعلق آئین کی دفعہ 370 کی حمایتاب جاکر عام آدمی پارٹی کے گلے
کی ہڈی بن گئی ہے۔ 15 مارچ کو ایوان پارلیمان مودی حکومت نے ایک ایسا بل
پیش کر دیا جس سے دہلی کی سیاست میں بھونچال آ گیا ۔ مودی حکومت نے قومی
راجدھانی خطہ دہلی سرکار (ترمیمی) بل کو بالکل کشمیر کے دفعہ 370 کی مانند
ارکان پارلیمان کے سامنے رکھ دیا ۔ اس بل میں دہلی کے وزیر اعلیٰ اور
لیفٹیننٹ گورنر کے درمیان طاقت کی تقسیم پر وضاحت کی گئی ہے۔ مرکزی حکومت
کے اس اقدام نے عام آدمی پارٹی کے ہوش اڑا دیئے اور کل تک مرکزی حکومت کی
حمایت کرنے والےاب حواس باختہ ہوکر اس پر حملہ آور ہو گئے ۔اس توہین آمیز
قانون کوخود امیت شاہ نے پیش کرنے کی زحمت تک نہیں کی بلکہ اپنے وزیر مملکت
برائے داخلہ جی کشن ریڈی کو حکم دیا کہ اعلان فرمادیں آئندہ دہلی اسمبلی
سے پاس کیے جانے والے قوانین میں ’سرکار‘ لفظ کامطلب ’لیفٹیننٹ گورنر‘ مانا
جائے گا۔ یہ سن کراروندکیجریوال تلملا اٹھے لیکن جموں کشمیر کے تناظر میں
ان کی موجودہ حالت پر نواز دیوبندی کا یہ قطعہ صادق آتا ہے؎
جلتے گھر کو دیکھنے والو پھونس کا چھپر آپ کا ہے
آگ کے پیچھے تیز ہوا ہے آگے مقدر آپ کا ہے
اُس کے قتل پر میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا
میرے قتل پر آپ بھی چپ ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے
جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے ریاست سے یونین ٹریٹری بنا دیا گیا
تھا ۔ دہلی پہلے ہی مرکزی خطہ ہے اور اسے کوئی خصوصی درجہ حاصل نہیں ہے اس
لیے وہ فرق تو نہیں پڑا ۔ جموں کشمیر کو تقسیم کرکے لداخ کو الگ کردیا گیا
تھا اس طرح کی کوئی حرکت دہلی کے ساتھ نہیں کی گئی مگر وزیر اعلیٰ کے
اختیارات پر شب خون مار کر دہلی حکومت کا درجہ گرادیا گیا۔ اس کی مار براہِ
راست کیجریوال کے دائرۂ اختیار پر پڑتی ہے کہ اب وہ عملاً وزیر اعلیٰ سے
شہر میئر جیسے ہوجائیں گے ۔ انہوں نے اگر جموں کشمیر میں مرکزی حکومت کی
جانب سے کی جانے والی زیادتی پر تنقید کی ہوتی تو آج ان کا پھر سے مخالفت
کا حق بنتا تھا لیکن اب یہ پلٹنا اور جھپٹنا محض منافقت نظر آتا ہے ۔ان کے
موجودہ شور شرابے کا مطلب یہ ہے کہ اگر مرکزی سرکار کسی اورکا حق سلب کرے
تو وہ حمایت کریں گے مگر جباپنی باری آئے گی تو مخالفت کی جائے گی ۔ یہ
بدترین قسم کی ابن الوقتی اور خود غرضی نہیں تو اور کیا ہے؟
دہلی کی ریاستی حکومت پر نکیل لگانے کے لیےدفع 44 میں یہ تبدیلی کی جارہی
تا کہ اس کے ذریعہ وضع کردہ فیصلوں پر عمل آوری سے قبل لیفٹیننٹ گورنر کی
توثیق لازمی ہوجائے یعنی دوسرے لفظوں میں مرکز کی مرضی کے خلاف دہلی میں
کوئی فیصلہ نہ ہوسکے ۔ دہلی سرکار نے پچھلے سال مارچ میں یہ جرأتمندانہ
فیصلہ کرکے مودی حکومت کو چونکا دیا تھا کہ وہ این پی آر اور قومی شہریت
رجسٹر (این سی آر) کا نفاذ نہیں کرے گی۔ دہلی کی صوبائی اسمبلی میں
قرارداد پاس کرکے یہ اعلان کردیا گیا تھا کہ مرکزی حکومت کے اس فیصلے کو
دارالخلافہ میں نافذ نہیں کیا جائے گا ۔ یہ امیت شاہ کے لیے شرم کی بات تھی
کہ خود ان کا اور مودی کا نام بھی این آرسی میں شامل نہیں ہوگا الا ّ یہ
کہ وہ اس کام کے لیے گجرات جائیں۔ اس طرح کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سیکشن
24 کا دائرہ بڑھاکر اہل جی کو کچھ معاملات میں اسمبلی کے ذریعہ وضع کردہ
قانون کو منظوری دینے سے روکنے کا انتظام کردیاگیاہے۔
اروند کیجریوال نےاس بل کے بعد اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ:’’عوام کے ذریعہ
الیکشن میں مسترد کیےجانے کے بعد بی جے پی اب منتخب حکومت کو کمزور کرنا
چاہ رہی ہے۔ کاش کہ یہ بات انہیں ڈیڑھ سال قبل سمجھ میں آتی ۔ عام آدمی
پارٹی کو معلوم ہونا چاہیے کہ اب تک کشمیر میں کیے جانے والے ظلم کی خلاف
ورزی جاری ہے۔ 19 مارچ 2021 کو بھی ایوان پارلیمان میں ترنمول کانگریس کے
سوگت رائے نے کہا کہ حکومت کے ذریعہ سال 2019 میں آرٹیکل 370 کو ختم کرکے
جموں و کشمیر کو مرکزی خطہ بنانا غلط اقدام تھانیز لداخ کو ریاست سے الگ
کرنے کو بھی انہوں غیر درست قرار دیا۔ سوگت رائے نے جموں وکشمیر کو دوبارہ
مکمل ریاست کا درجہ دے کر ریاستی اسمبلی کو بحال کرنے کا پرزور مطالبہ کیا
تاکہ عوام کوان کے جائز حقوق مل سکیں۔
مرکزی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے ترنمول رہنما نےکہا کشمیر کی ترقی کا وعدہ
چونکہ وفا نہیں ہوا اس لیے عوام ناراض ہیں نیز 370 کے منسوخی سے جو امن اور
دہشت گردی کے خاتمہ کی توقع کی گئی تھی وہ بھی پوری نہیں ہوئی کیونکہ دہشت
گردی ہنوز بے قابو ہے۔ سوگت رائے کے علاوہ بیجو جنتا دل کے بھرتری مہتاب نے
بھی ایوان میں ریاست جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ
کیا ۔ اس بابت نیشنل کانفرنس کے حسن مسعودی نے ایوان میں کہا کہ 5 اگست
2019 کو اس ناعاقبت اندیش حکومت جموں و کشمیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ کو
نقصان پہنچایاديا۔ انہوں نے حکومت کو جموں وکشمیر میں امن کی بحالی کے لیے
خود احتسابی کی تلقین کی۔ حسن مسعودی نے کہا تکبر ہماری روایت نہیں ہے،
لہذا حکومت کو گھمنڈ چھوڑ کر ریاست میں امن قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
مسعودی اس بات کو بھول گئےکہ اقتدار کے نشے میں مدہوش موجودہ حکومت کی
روایت کبر وغرور ہے۔مسعودی کےمطابق احتجاج سے نمٹنے کے لئے حکومتِ وقت کا
اختیارکردہ حالیہ طریقہ غیر قانونی ہے۔حکومت کی حمایت کرنے والی مختلف
علاقائی جماعتوں کو اپنی غلطی کا احساس ہورہا ہے مگر عام آدمی پارٹی کو نہ
پہلے ہوا تھا نہ اب ہورہا ہے۔
دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے مرکز ی حکومت کے اس نئے قانون سے
ناراض ہوکراخباری نامہ نگاروں سے کہا کہ ’’مرکزی حکومت پارلیمنٹ میں دہلی
سے متعلق غیر آئینی اور غیر جمہوری بل لے کر آئی ہے۔ اس بل میں لکھا ہے
کہ اس کے آنے کے بعد دہلی سرکار کا مطلب ہوگا لیفٹیننٹ گورنر۔ یعنی اب
دہلی میں منتخب حکومت بے معنیٰ ہے۔ یہ بہت خطرناک ترمیم ہے۔ اس کے مطابق
منتخبہ حکومت کے فیصلوں کی فائل کو اب لیفٹیننٹ گورنر کے پاس بھیجناپڑے
گا۔‘‘ مگر وہ کشمیر ہونے والی اس سے بڑی ناانصافی کے خلاف زبان نہیں کھولتے
یہی وجہ ہے کہ ایوان میں انہیں کسی اور جماعت کی حمایت حاصل نہیں ہوتی ۔
کانگریس بھی اپنی سیاست چمکانے کے لیے باہر تو احتجاج کرتی ہے مگر اندر کچھ
نہیں بولتی ۔اروند کیجریوال کی چہیتی مرکزی حکومت کے ہاتھوں ان کی اس ذلت و
رسوائی پر محبی سرفراز بزمی کا یہ قطعہ صادق آتا ہے؎
ان ببولوں میں بھلا آم کہاں آتے ہیں جیسی بوئی تھی وہی فصل تمہاری آئی
قتل پر تین سو سترّپہ جو خوش تھا بزمی
بلبلا اٹھا جو اب آپ
کی باری آئی
|