میڈیا پر گردش کرتی ہوئی خبروں کے مطابق وفاقی کابینہ نے
دو صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کے لئے منظوری دے دی،پاکستانی تاریخ میں شاید
یہ پہلی مرتبہ ہورہا ہے کہ حکومت وقت عوام الناس پر مہنگائی کے بم گرانے کے
لئے اتنی پرجوش دیکھائی دے رہی ہے کہ مالی معاملات کو پارلیمنٹ میں لیجانے
کی بجائے اس منی بجٹ کو فی الفور نافذ العمل کروانا چاہ رہی ہے۔یہ سب کیوں
ہورہا ہے،؟ کس کے کہنے پر ہورہا ہے؟ اسکا سادہ سا مگر تکلیف دہ جواب بھی
انہی میڈیا خبروں میں موجود تھا، یعنی آئی ایم ایف کے مطالبے پروفاقی
کابینہ کی جانب سے صدارتی آرڈیننس کی منظوری۔ان صدارتی آرڈیننس کے نافظ
العمل ہونے کے بعد ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ سے 140 ارب روپے کی انکم
ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ ہوجائے گا اور دوسرے صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ سے عوام
الناس پر بجلی کے بلوں میں مزید 150 ارب روپے کا بوجھ ڈال دیا جائے
گا۔مجوزہ صدارتی آرڈیننس کے حوالہ سےIMFاپنی خوشی کر اظہار کررہا ہے۔ اور
IMF خوش کیوں نہ ہو جب اسکے تمام اہداف آہستہ آہستہ پایہ تکمیل کو پہنچ رہے
ہیں۔یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ پاکستان کے مالی معاملات پر IMF کا
کنٹرول ہوچکا ہے، کیونکہ IMF نے وزارت خزانہ اور پاکستان کے سب سے بڑے بینک
یعنی اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں پہلے اپنے خاص الخاص بندے adjust کروائے
اسکے بعد آہستہ آہستہ مالی اصلاحات کے نام پر آئے روز نت نئے ٹیکس لگاوا
کر، غریب عوام کے لئے دی جانے والی Subsidies کو ختم کروا کر اورآئے روز
بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات پر نت نئے سرچارجز لگوا کر عوام الناس کی
زندگیوں کو جہنم بنا دیا ہے۔اک عام پاکستانی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ
تبدیلی کے نام پر آئی یہ حکومت عوام کی خوشیوں میں اگر اضافہ نہیں کرسکتی
تو کم از کم انکو جینے کا حق تو نہ چھینے۔ان صدارتی آرڈیننس سے پاکستانی
عوام الناس پر کیا گزرے گی؟ آئیے اک جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔معاشی
تجزیہ کاروں کے نزدیک حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں نیا سرچارج عائد
کرنے کے متعلق صدارتی آرڈیننس کے بعد بجلی کے گردشی قرضوں کا بوجھ براہ
راست عوام کے کندھوں پر ڈال دیا گیا، صدارتی آرڈیننس کے ذریعے بجلی کے فی
یونٹ کی قیمت 25روپے ہو جائے گی، غریب صارفین بجلی کیلئے لائف لائن یونٹوں
کی سہولت 300یونٹوں سے کم کر کے 100یونٹ ہو جائے گی۔ میڈیا پر بہت سے بجلی
کے صارفین نے صدارتی آرڈیننس پر رد عمل میں کہا کہ صدارتی آرڈنینس کے بعد
بجلی چوری میں اضافہ ہو گا، بلوں کی ریکوری میں کمی ہو گی، غریب اور امیر
دونوں صارفین کو بجلی کے بل ادا کرنے مشکل ہو جائیں گے، حیدرآباد، سکھر،
کراچی، بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں بجلی چوری کا تمام بوجھ لاہور اور
اسلام آباد کے صارفین پر ڈال دیا گیا ہے، حکومت آئی ایم ایف کو خوش کرنا
چاہتی ہے جس سے عوام کا کچومر نکل جائے گا، صارفین بجلی نے مطالبہ کیا ہے
کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا مجوزہ آرڈنینس فوری طور پر واپس لیا اور
بجلی بلوں میں ریلیف دیا جائے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں
اضافے کے صدارتی آرڈیننس کا مقصد آئی پی پیز کو گردشی قرضوں کی ادائیگی
کرنا ہے، 65آئی پی پیز سے گردشی قرضوں پر نظر ثانی معاہدہ کے تحت آئندہ
دوسال میں 430ارب روپے ادا کرنے ہیں، جن میں 150ارب روپے کی قسط فوری ادا
کرنی ہو گی، اس مقصد کے لئے پہلے سکوک بانڈ جاری کرنے، اسلام آباد میں پارک
اور کنونشن سنٹر کو گروی رکھنے پر غور جاری تھا، صدارتی آرڈنینس کے ذریعے
گردشی قرضوں کے لئے عالمی اداروں سے قرض نہیں لینا پڑے گا بلکہ بجلی کی
قیمتوں کا بوجھ براہ راست عوام کے کندھوں پر ڈال دیا گیا ہے،آئی پی پیز کے
مجموعی گردشی قرضوں کا تخمینہ 430ارب روپے اور قرضوں، سود کا حجم 2000ارب
روپے ہے، صدارتی آرڈیننس کے بعد گردشی قرضوں کا بوجھ عوام پر ڈال دیا
گیا،بینکوں کے قرضوں کا بوجھ وزارت خزانہ کے سپرد ہو گا، صدارتی آرڈیننس پر
عملدرآمد کے بعد بجلی کے فی یونٹ کی قیمت 25روپے ہو جائے گی، دوسرے مرحلے
میں بجلی کے غریب صارفین کے لئے لائف لائن یونٹوں کی سہولت کم کر دی جائے
گی، صارفین بجلی کو 300 لائف لائن یونٹ کی سہولت میسر ہے جس کو کم کر کے
50اور 100یونٹوں کی دو سلیب میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔اپوزیشن جماعتوں
پاکستان مسلم لیگ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے مجوزہ صدارتی آرڈیننس (ٹیکس
چھوٹ خاتمے،بجلی سرچارج) مسترد کردیئے ہیں، مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم
اورنگزیب نے کہا ہے کہ سلیکٹڈ وزیراعظم اور کرائے کے ترجمان جھوٹ کا ڈھول
پیٹنا بند کریں، پہلا وزیراعظم ہے جو آرڈیننس کے ذریعے عوام اور ملک پر
ڈاکے ڈال رہا ہے، عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے آرڈیننس لایاجارہا ہے،
عوام کی جیب کاٹنے اور ہر ہفتے بجلی کی قیمت بڑھانے کو قانونی شکل دینا بے
حسی کی انتہاء ہے،آرڈیننس کے چور دروازے سے بجلی کی قیمت میں کم ازکم 6
روپے فی یونٹ اضافہ قوم کو زندہ درگور کرنا ہے،ملک میں مہنگائی کا سیلاب
عظیم آنے والا ہے، قوم تیاری کرلے،جھوٹ کا ڈھول پیٹنے کے بجائے آٹے،
چینی،گھی،خوردنی تیل، انڈے، مرغی، پٹرول، گیس، بجلی اوردوائی کی قیمتوں میں
اضافے پر غور کریں،پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ بجلی کے
نرخوں میں اضافے سے متعلق صدارتی آرڈیننس عوام دشمن ہے،ہم اسے مسترد کرتے
ہیں، آرڈیننس نیپراکو اختیاردیگاکابینہ کو بائے پاس کرکے بجلی کی قیمت میں
اضافہ کرے، بجلی کے نرخوں میں 5 روپے 65 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا
جارہاہے،اضافے سے صارفین پرمزید884 ارب روپے کابوجھ ڈالا جائے گا،قانون
سازی کی بجائے آرڈیننس لانا اپنی چوری چھپانا ہے، سید نیر حسین بخاری نے
ردعمل میں کہا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی کڑی شرائط پر بجلی
صارفین پر 150ارب روپیسرچارج ڈال دیا گیا ہے، آرڈینیس کے زریعے سرچارج عائد
کیا جانا باعث تشویش ہے،عوام پوچھتے ہیں مہنگی بجلی گیس بل جلانے والے
عمران خان کہاں سو رہے ہیں،طے شدہ منصوبے کے تحت پارلیمنٹ کو بے توقیر کرتے
ہوئے صدرہاؤس آرڈیننس فیکٹری بنا دیا گیا ہے،مہنگائی کی سونامی میں ڈوبے
عوام الناس کو میسر تمام ریلیف اور سبسڈیز ختم کی جا رہی ہیں، حکمران عوام
کے مددگاروں کی بجائے آئی ایم ایف کی آلہ کاروں کا کردار ادا کر رہے
ہیں،حکمران اپوزیشن کو دبانے کیلئے دن رات منصوبہ بندی میں مصروف ہیں
گھمبیر مسائل کا حل صرف اور صرف نئے انتخابات میں ہے۔پاکستان عوام کی
اکثریت اس وقت حکومت وقت کی کارکردگی سے انتہائی مایوس ہوچکی ہے، کسی بھی
ٹی وی چینل یا سرکاری، نجی سروے میں عوام الناس عمران خان کی حکومت سے سخت
ناراضگی کا اظہار کررہی ہے۔ عوام الناس کو اس سے غرض نہیں ہے کہ عمران خان
اپوزیشن کو NRO دیتے ہیں یا نہیں، عوام الناس کو اس سے بھی غرض نہیں ہے کہ
عمران خان اپوزیشن اراکین کو چن چن کر جیلوں میں ڈالتے ہیں یا نہیں۔ مگر
عوام الناس کی اکثریت صحیح معنوں میں حکومت وقت سے یہ تقاضا کرتی ہوئی نظر
آرہی ہے کہ انکو جینے کا حق دیا جائے، آئے روز بجلی گیس پٹرول گھی چینی
گندم اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ نے عوام الناس
کا کچومر نکال دیا ہے۔کسی گلی محلہ میں چلے جائیں عوام الناس کی اکثریت
عمران خان کی حکومت کو بددعائیں دیتی ہوئی نظرآئے گی۔عوام نے سابق حکمرانوں
کی طرف دیکھنا شروع کردیا ہے، عوام عمران خان اور(بقول عمران خان کرپٹ)
سابق حکمرانوں کی حکومتوں کا موازنہ کرناشروع کردیا ہے۔گرمیوں کے موسم کی
آمد آمد ہے، ہر گھر میں پنکھے اورایر کنڈیشنز اور فریج چلیں گے، اللہ ہی
بہتر جانتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں عوام اپنے بجلی کے بل کس طرح سے ادا
کریں گے۔عوام الناس کی اکثریت یہ سوال کرتی ہے کہ کیا عمران خان اس لئے
اقتدار میں آیا تھا کہ عوام کا جینا دوبھر کردے؟ کیا عوام صرف بجلی اور گیس
کے بل جمع کروانے کے لئے زندہ رہے؟ بچت تو دور کی بات اس وقت حالت یہ ہے کہ
عوام کی اکثریت کو بجلی گیس گھی چینی گندم بچوں کی سکول کی فیس اور دوائی
کی مد میں اُٹھنے والے آنے والے اخراجات عوام کے ذرائع آمد ن سے زیادہ
ہوچکے ہیں۔دوسری طرف اگر حکومت وقت پر مہنگائی کیوجہ سے تنقید کی جائے تو
وزراء اور مشیران کی اکثریت یہ کہتی ہوئی سنائی دیکھائی دیتی ہے کہ یہ سب
پچھلی حکومت کی وجہ سے ہورہا ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں کہ بشر کون
ہے؟عوام الناس کی دل کی گہرائیوں سے بس یہی دعا نکل رہی ہے کہ میرے اللہ
مہنگائی سے بچانا مجھ کو، نیک راہ ہدایت دیکھانا حکمرانوں کو۔اللہ کریم
مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل سے نجات دلائے
اور عوام الناس کو سکھ کا سانس لینے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔
|