تحریر: ندیٰ رحمان، کراچی
خاندان انسانی معاشرے کی ایک بنیادی اکائی ہے۔ اگر خاندانی سسٹم میں موجود
افراد کی تربیت درست نہج پر ہو تو ایک عظیم قوم وجود میں آتی ہے۔ بطور
مسلمان ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہمارے دین نے ایک مشترکہ خاندانی نظام کی
حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی ہے۔
اسلامی معاشرے میں خاندان میاں بیوی کے رشتے سے بنتے ہیں۔ اس رشتے کا آغاز
نکاح جیسے مقدس مذہبی فریضے سے ہوتا ہے۔ پھر رشتے کے بعد نسل انسانی میں
بڑھوتری شروع ہوتی ہے۔ اور خاندان بالخصوص ماں کی گود بچے کی پہلی نرسری
اور تربیت گاہ بن جاتی ہے۔ یہی بچہ یہاں اپنے دیگر رشتہ داروں اور بزرگوں
کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے پروان چڑھتا ہے۔ جہاں اس کی جسمانی افزائش کے
ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی جاری رہتی ہے۔ بچہ بڑھوں سے بات کرنے کا طریقہ،
اٹھنے بیٹھنے کا انداز ، چھوٹے بڑے کے احترام کا طریقہ سیکھ رہا ہوتا ہے۔
کسی فرد کی روح کے لیے عمدہ اخلاق اتنا ہی ضروری ہوتا ہے جتنا اس کے جسم کے
لیے خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محسن انسانیت حضرت محمد صلی اﷲ
علیہ وسلم کو قرآن مجید نے خلق عظیم یعنی نہایت بلند اخلاقی خوبیوں کا مالک
قرار دیا ہے۔ پھر یہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اخلاقی
تربیت کا ہی کرشمہ تھا کہ عرب قوم جو جہالت کی گہرائیوں میں پہنچی ہوئی تھی
مہذب ترین قوم شمار ہونے لگی۔
بات چل رہی تھی خاندان اور اس کے افراد کی۔ اسلام نے خاندانی نظام کو
استحکام دینے کے لیے گھر کے افراد کی ذمہ داریوں کو تقسیم کر دیا ہے۔ گھر
کا سربراہ مرد کو بنا دیا اور اسے تمام افراد کے قیام و طعام اور نان نفقہ
کی ذمہ داری دے دی۔ جب کہ بیوی کے ذمے گھر داری اور بچوں کی پرورش و تربیت
کا کام لگایا گیا۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اپنی ازدواجی زندگی کو
دیکھیں تو آپ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ بہترین سلوک کا معاملہ فرماتے۔
گھریلو امور میں ان کی مدد بھی فرما دیتے اور ان کے ساتھ ہنسی مذاق بھی
کرتے اور ان کی دلجوئی کے لیے کھیلتے بھی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان
عالیشان کا مفہوم بھی یہی ہے کہ تم میں سے سب سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر
والوں کے لیے بہتر ہے۔ شوہر کو بیوی کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور بیوی
کو شوہر کی اطاعت اور اس کی عزت آبرو اور مال کی حفاظت کا حکم دیا۔
دیگر رشتوں کا خیال رکھنے اور صلہ رحمی کی بار ہا تلقین کی۔ اپنے سگے رشتہ
داروں کے علاوہ رضاعت کے رشتوں اور والدین کے قریبی رشتے داروں اور دوستوں
کی عزت و احترام کر کے ہمارے لیے بہترین اسوہ چھوڑا۔ اگر آج ہم بحیثیت
مسلمان اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے گھروں میں عزت احترام محبت و الفت
کے رشتے کو برقرار رکھیں۔ اور بچوں کی تربیت کا نبوی منہج اختیار کریں تو
ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرے بن جائے۔
لیکن موجودہ دور میں دنیا جس قدر ترقی کرتی جا رہی ہے۔ مادیت کی دوڑ بڑھتی
جا رہی ہے۔ انسان ہر طرح کی سہولیات سے مستفید ہونے کے باوجود ہر گزرتے دن
کے ساتھ بے چینی کا شکار ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ اس بے چینی افراتفری اور
خاندان جیسی مضبوط اکائی میں درڑا پڑنے کے اسباب کیا ہیں؟ ۔ ہمارے معاشرے
میں خاندان کا استحکام خطرے کا شکار کیوں ہے؟
اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ پہلی اور بڑی وجہ ہمارے مثالی معاشرے کو خراب
کرنے کی بیرونی کوشش ہے۔ مخصوص سوچ اور ایجنڈے کے تحت پاکستان میں ایسی این
جی اوز اور اداروں نے کام شروع کیا جنہوں نے عورت کی آزادی، حقوق نسواں اور
عورتوں کو مردوں کے شانہ بہ شانہ لانے کے لیے مہم شروع کی۔ اور اس کے لیے
مغرب کی ترقی اور جدت کو بطور نمونے کے پیش کیا گیا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ
ہم بھی تہذیب مغرب سے متاثر ہو کر اس کی چکا چوند کا شکار ہو گئے۔ عورت گھر
کی چار دیواری سے نکل کر رونق بازار بن گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گھر میں
بجائے بہتری کے مزید خرابی پیدا ہونے لگی۔
عورت پر گھر کی ذمہ داری کے علاوہ بیرونی ذمہ داری بھی عائد ہو گئی۔
مصروفیات بڑھنے سے نہ خاوند کے پاس وقت رہا کہ وہ بیوی کو وقت دے سکے۔ نہ
بیوی کو اتنی فرصت کہ وہ میاں کے ساتھ وقت گزار سکے۔ ایسے میں بچوں کی
تربیت بھی ملازموں کے سپرد ہو گئی۔ بچے احساس محرومی کا شکار ہو کر طرح طرح
کے نفسیاتی عوارض کا شکار ہوتے گئے اور معاشرے کو اپنا دشمن سمجھتے ہوئے
عملی زندگی میں مختلف لوگوں سے انتقام لے کر اپنے جذبات کی تسکین کرتے
رہے۔۔
بچیاں والدہ کی مصروفیت کی وجہ سے ماں کے سائے سے محروم رہیں۔۔ ایسی بچیاں
جب اپنے گھروں کی ہوں گی تو امور خانہ داری سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے انھیں
اپنے سسرال میں طرح طرح کے مسائل کا سامنا رہے گا۔
ہمارے مثالی خاندانی سسٹم میں کمزوری کا سبب ایک ٹیلی ویڑن کے ڈرامے ہیں۔
جہاں نئے شادی شدہ جوڑے کو اس بات کی تعلیم دی جاتی ہے کہ ساس سسر کے ساتھ
رہنے کے بجائے تم الگ سیٹل ہونا۔ نہ ساس بہو کی روک ٹوک ہو گئی نہ نندیں
تمہاری پرائیویسی میں حائل ہوں گی۔ بہو بیٹا الگ تو ہو جاتے ہیں۔ مگر جب ان
کی اولادیں ہوتی ہیں۔ کوئی ان کی تربیت کرنے والا موجود نہیں ہوتا۔
دوسرا ہمارے ہاں دیکھا جانے والے ڈراموں میں دیور بھابھی، سسر بہو ، کزنز ،
اور دفاتر میں ساتھ کام کرنے والے لوگوں کے رشتوں اور تعلقات کو اس قدر
متنازعہ انداز میں دکھایا گیا ہے کہ حقیقی زندگی میں بھی یہ ڈرامے رشتوں کے
درمیان شک اور بداعتمادی کا بیج بو رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ ناچاقی سے بڑھ کر
طلاق تک نوبت آتی جا رہی ہے۔ مجھے بہت سی ایسی لڑکیوں اور لڑکوں کا علم ہے۔
جن کی شادی کو دو تین سال گزرنے کے بعد علیحدگی ہو چکی ہے۔ اور ان کے
والدین ان کی دوسری شادی کے لیے فکر مند ہیں۔ ان طلاقوں کی وجوہات بہت
معمولی ہیں۔ بیوی کسی سے فون پر بات کرتی ہے۔ شوہر ہر وقت موبائل پر لگا
رہتا ہے۔ مجھے وقت نہیں دیتا۔ شوہر ڈھنگ سے کام نہیں کرتا اور اس کی تنخواہ
بہت کم ہے۔ شوہر بیوی کے نت نئے فیشن کے کپڑے اور میک اپ اور بیوٹی پارلر
کے خرچے برداشت نہیں کر پا رہا۔ ساس بیٹے سے ملنے۔اکثر آتی رہتی ہے۔
اس طرح کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے گھر اجڑ رہے ہیں۔ بات طویل ہو رہی ہے۔ بات
کو سمیٹ کر یہ عرض کرنی ہے کہ گھروں میں زیادہ غیر محرم لوگوں کا بلا روک
ٹوک آنا جانا ختم کر دیں۔ گھریلوں ملازم چاہے وہ عورتیں ہوں یا مرد بچے
بچیوں کے پاس انھیں آزادانہ نہ چھوڑیں۔ شادی جے بعد مشترکہ خاندان میں رہنے
سے ممکن ہے کچھ مسائل بھی ہوں لیکن اس کے فوائد زیادہ ہیں۔ میاں بیوی بچوں
کے سامنے احترام سے ایک دوسرے سے پیش آئیں۔ باقی رشتہ داروں کے بارے میں
بھی اچھی بات کریں۔ کسی قسم کی بدگوئی یا گالم گلوچ سے اجتناب کریں۔ مائیں
بچوں پر چیخنے اور انھیں بلاوجہ مارنے کے بجائے تحمل کے ساتھ ان کی شرارتوں
کو برداشت کریں۔ ساس سسر ہوں یا کوئی بھی بزرگ ہو ان کا احترام کریں۔ ان کی
بات کو اہمیت دیں۔ اور ان کی خدمت کریں۔ خاندانوں میں برکت اور خوشحالی تب
ہی آتی ہے جب سب۔ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کے دلوں
میں باہمی محبت و الفت ڈالے اور ہمارے گھروں کو امن کا گہوارہ بنا دے۔ آمین
|