رحمت اللہ خان ' صحافی دوست جس کیساتھ میں وعدہ ایفا نہ کرسکا

ہماری دوستی میں اللہ مغفرت نصیب کرے پروفیسر طہ کا بھی ساتھ تھا ' کبھی کبھار پشاور صدر کے مشہور کیفے میں بیٹھ کر چائے پیتے ' پروفیسر طہ ہمار ی اردو کی غلطیاں ٹھیک کرتے - ہم پروفیسر طہ کے شاگردوں میں سے تھے ' رحمت اللہ خان کے ساتھ پروفیسر طہ کا اچھا تعلق تھا ' اس کے ساتھ مرتے دم تک تعلق رکھا ' میں تو خیر سدا کا سست رہا ' تعلق رکھتا ہوں لیکن زیادہ نزدیک بھی نہیں ہوتا نہ زیادہ دور رہتا ہوں شائد مجھے کھونے کا ڈر رہتا ہے البتہ رحمت اللہ اس معاملے میںبہترین ساتھی رہا.
ا
لکھنے کی ہمت ہی نہیں نہ کمپیوٹر پر انگلیاں کام کررہی ہیں نہ ہی دماغ میں سوچیں یکساں ہیں منتشر الذہنی کے عالم میں ہوں سمجھ نہیں آرہا کیا لکھوں کیسے لکھوں ایک ایسے دوست کے بار ے میں جو ایک ہفتہ قبل منگل کے روز پریس کلب آیا بیماری کی حالت میں ' ساتھ میں اس کے بیٹے تھے پریس کلب کی گیٹ پر ملنے کی کوشش کی تو میں اسے چھوڑ کر اس کے چھوٹے بیٹے کو گلے ملا لیا کہ یہ میرا دوست ہے اور پھر اسے گلے ملا . مجھے کہا کہ کہاں جارہے ہو میں تو تم سے ملنے کیلئے آیا ہوں میں نے اسے کہہ دیا کہ کچھ کام ہے ' پھر کہنے لگا کہ نہیں بیٹھ کر گپ لگاتے ہیں میں نے اسے کہہ دیا کہ چھوڑو مجبوری ہے ساتھ میں اس کے کان میں بات کی تو بیماری کے عالم میں اس نے اپنے قمیض کے نیچے ہاتھ ڈال کر کہا کہ " پیسے لے لو" اور میں اسے یہ کہہ کر جانے لگا کہ واپس آکر گپ لگاتا ہوں اس نے وعدہ لیا کہ آرہے ہو کیونکہ میں تمھارا انتظار کرونگا اور میں نے بھی وعدہ کرلیا - اور پھر کھیلوں کی خبروں او ر زیادہ کمانے کی چکر میں مجھے اپنے وعدہ یاد نہیں رہا.
آہ اس دوست کیساتھ میں نے دو وعدے کئے لیکن دونوں ایفاء نہیں کئے جس کا مجھے ابھی افسوس ہے لیکن میرے اللہ کو پتہ ہے. اللہ غریق رحمت کرے.. عجیب بندہ تھا ' جاتے جاتے رلا گیا.
پشاور پریس کلب کے ساتھی رحمت اللہ خان سے دوستی 1996 سے تھی اس وقت میںروزنامہ آج میں شوبز رپورٹنگ کرتا تھا پی ٹی وی پر شوبز کی خبروں کی رپورٹنگ کے دوران رحمت اللہ سے ملاقات ہوئی اسے ٹی وی سکرین پر آنے کا شوق تھا دو تین ڈراموں میں بھی اس نے کام کیا - سرخ سفید رنگت اور اچھی صحت کا مالک تھا اسی وجہ سے اس کی ویلیو فنکارائوں میں بھی زیادہ تھی لیکن یہ اس پر اللہ کی مہربانی تھی کہ شوبز کی دنیا میں رہتے ہوئے وہ صاف رہا. مستیاں کرتا ' تنگ کرتا لیکن شائستگی کبھی اس نے نہیں چھوڑی. اس کے ساتھ وہ شوبز کی رپورٹنگ بھی کرتا تھا اور پھر وقت کیساتھ ہماری دوستی بڑھتی گئی- اس وقت شوبز کی دنیا میں بھی سخت الفاظ لکھتا ' فنکار ناراض بھی ہوتے لیکن رحمت اللہ نے کبھی کسی کے خلاف نہیں لکھی ' غلط کام پر کسی کا ساتھ نہیں دیا لیکن دوسرے شخص کو الگ بٹھاکر سمجھایا کرتا کہ یہ غلط ہے. البتہ یہ اس کی عادت تھی کہ وہ لکھنے کے معاملے میں نرمی برتتا.
پشاور پریس کلب کی ممبرشپ ملنے کے بعد میں نے ہی اس پر زور دیا کہ یار ممبرشپ کرلو اس کے فائدے ہیں تو اس وقت اس نے کہا تھا کہ یار کیا کرنا ہے پریس کلب میں ممبرشپ لیکر اور میں اسے کہتا کہ بالکل مت آیا کرو لیکن یہاں پر پریس کلب کی ممبرشپ کرلو' پھر پریس کلب کی ممبرشپ کے بعد ایسا ممبر بن گیا کہ پریس کلب صبح آجاتا تو پھر شام کو چند دوستوں کے ساتھ واپس گھر جاتا - اور ہم سب رحمت اللہ کو پریس کلب کا ٹھیکیدار کہتے تھے..
ہماری دوستی میں اللہ مغفرت نصیب کرے پروفیسر طہ کا بھی ساتھ تھا ' کبھی کبھار پشاور صدر کے مشہور کیفے میں بیٹھ کر چائے پیتے ' پروفیسر طہ ہمار ی اردو کی غلطیاں ٹھیک کرتے - ہم پروفیسر طہ کے شاگردوں میں سے تھے ' رحمت اللہ خان کے ساتھ پروفیسر طہ کا اچھا تعلق تھا ' اس کے ساتھ مرتے دم تک تعلق رکھا ' میں تو خیر سدا کا سست رہا ' تعلق رکھتا ہوں لیکن زیادہ نزدیک بھی نہیں ہوتا نہ زیادہ دور رہتا ہوں شائد مجھے کھونے کا ڈر رہتا ہے البتہ رحمت اللہ اس معاملے میںبہترین ساتھی رہا.
اردو اخبارات کے بعد اس نے انگریزی اخبار کا رخ کرلیا کچھ کورسز بھی کئے اور ایسا رپورٹر بن گیا کہ پریس کلب کی خبریں بڑی بڑی اخبارات میں دوسرے رپورٹروں کے نام سے چھپنے لگتی ' کیونکہ بڑے اخبارات کے رپورٹر پریس کلب نہیں آتے او ر رحمت اللہ ان کیلئے رحمت بن کر خبریں بنا کر بھیجتا جو وہ لوگ ذرا سی انٹرو تبدیل کرکے اپنے کریڈٹ لائن سے اخبار میں چھپواتے 'لیکن یہ رحمت اللہ کی شان کے خلاف تھی کہ ان دوست رپورٹروں سے کوئی فائدہ اٹھائے.
چائے کا اتنا شوقین تھا کہ اگر کوئی ویسے کہہ دیتا کہ چائے پینی ہے تو پھر کہتا چلو اب پلائو . اور پھر یوں چائے پلانی پڑتی لیکن یہ بھی اپنے نزدیکی دوستوں کیساتھ کرتا ' ہاں یہ اس کی غیرت کے خلاف تھی اس نے کبھی اپنے چائے کے پیسے کسی کو دینے کا موقع ہی نہیں دیا-پشاور پریس کلب کا کینٹین ہو یا کمپیوٹر روم ' اس کی ایک مخصوص جگہ ہوتی جہاں پر کسی کو بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی وہ کمپیوٹر آن کرکے چھوڑ دیتا اور کہتا کہ " دا زائے خو ما نیولے وو" اور پھر کوئی اس کی جگہ پر نہیں بیٹھتا. آہ..
اس کی والدہ کا انتقال ہوا تو میں جنازے پربوجوہ نہیں جا سکا 'قل پر جانے سے بھی رہ گیا اور پھر میں شرمندگی کے مارے اس کے سامنے جانے سے کتراتا تھاکہ قل کے بعد کسی سے ماں کی لئے دعا کرنا اسے یا د دہانی کرانا ہے اس لئے خاموش رہا لیکن اس نے قیوم سپورٹس کمپلیکس کے میڈیا سنٹر میں گلہ کردیا کہ تم نہیں آئے- میں نے وجوہات بیان کردی تو سمجھ گیا کہ پرائی نوکری میں بندہ کیا کرسکتا ہے لیکن اس نے کہہ دیا کہ اب ایسا کرو کہ میری ماں کیلئے قرآن پاک پڑھو گے اورنماز میں دعا کروگے .. تبھی میری ناراضگی ختم ہوگی اورپھر اس کی ناراضگی ختم ہوگئی-والدہ کی انتقال کے بعد کلین شیورحمت اللہ نے داڑھی رکھ لی ' اس سے پہلے بھی پریس کلب میں ہر صحافی دوست کو نماز کیلئے اٹھاتا تھا اوراس معاملے میں بہت سخت تھا - کبھی کبھار پریس کانفرنس بھی درمیاں میں چھوڑ دیتا تھا کہ باجماعت نماز کیلئے جانا ہے .
اپنے ہی علاقے کے چند مخصوص صحافی دوستوں کیساتھ بے تکلف رحمت اللہ اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں پر بھی مروتا کسی سے بات نہیں کرسکتا حالانکہ کئی مواقع پر اس کا حق مارا گیا لیکن رحمت اللہ شریف انسان تھا خاموش ہو جاتا لیکن میں چڑھ کر بولتا تو اس نے کبھی مجھے یہ نہیں کہا کہ مت کرو ' کہتا یار تم ٹھیک کرتے ہو ان کیساتھ ایسا کرنا چاہئیے.
واقعات کا ایک تسلسل ہے جو اب ذہن میں آرہا ہے اس نے چترال سے شادی کی تو ہم اسے تنگ کرتے کہ یار تمھیں پشاور میں کسی نے بیٹی/ بہن ہی نہیں دی تم نے جا کر چترال میں شادی کردی ' چترال کے شریف لوگ ہیں وہ غریب تم پر دھوکہ کھا گئے کہ یہ بڑا صحافی ہے . اور وہ ہنس پڑتا تھا اوراسی وجہ سے ہم اسے پرنس آف بمبوریت کہا کرتے تھے -گرمیوں میں تین ماہ وہ سسرال میں گزارنے جاتا 'اور ہم یہا ں پشاور کی گرمیوں میں سڑ کر مزید جلتے کہ دیکھ لو اللہ نے کتنے اچھا سسرال دیا ہے کہ گرمی کے تین ماہ آرام سے گزارکر آتا ہے ' میں نے بھی اسے کہہ دیا تھا یار میں نے دوسری چترال میں ہی کرنی ہے لیکن جس طرح کے شریف لوگ تم نے دیکھے ہیں اسی طرح میری لئے بھی دیکھ لو لیکن ایسا کرو کہ میری پہلی بیوی کو پتہ نہ چلے ' اور رحمت اللہ کہتا کہ " بچے تا خاری خزہ کڑے دہ اوس ورتہ ٹینگ شہ" یعنی تم نے شہرکی لڑکی کیساتھ شادی کی ہے اب بھگتو..
ہمارے ساتھی دوست ناد ر خواجہ جن کا تعلق بھی چترال سے ہے ہم ان کو تنگ کرتے کہ یار تم اس کے سسرالی رشتہ دار ہو بھلا کس طرح چترال کے شریف لوگ رحمت اللہ پر دھوکہ کھا گئے . اور نادر خواجہ تنگ کرنے کیلئے کہہ دیتا کہ " کیا کریں اب بھگتنی پڑ رہی ہے" اور ہم رحمت اللہ کو دیکھتے جو شوخی سے مسکرا تا اور کہتا کہ " زہ ستاسو زوم یم " یعنی میں چترال والوں کا داماد ہوں.
اپنے بچوں کیلئے گھر بنانے کی خواہش رحمت اللہ کی دل میں ہی رہ گئی ' فیلڈ میں کام کرنے والے حقیقی صحافی تو ویسے بھی دو ٹکے کا ہوتا ہے لکھتا تو بڑے بڑے لوگوں کیلئے ہے لیکن اپنے لئے کچھ نہیں لکھ سکتا ' کاش .. اس کے دل کا ارمان پورا ہوسکتا.
پریس کلب کا ٹھیکیدار کہلانے والا رحمت اللہ یکدم غائب ہوگیا ' ہم سمجھے چترال گیا لیکن پتہ چلا کہ بیمار ہے ایسا بیمار ہوا کہ پھر پتہ چلا کہ گردوں کی بیماری متاثر کر گئی ہیں پھر یرقان کا پتہ چلا.کئی مرتبہ اس سے فون پر بات ہوئی ' اس کے علاقے میں گئے لیکن گھر تک جانے کی ہمت نہیں ہوئی-
پھر اس کے معصوم بیٹے اور سسر سے ملاقات ہوئی اور یوں اس کی حالت کا پتہ چلا پھر ہسپتال میں داخلے کے بعد اسے ہمشیرہ کے گھر منتقل کردیا گیا جہاں پر اس سے ملاقات ہوئی ' آج تک اس کی چہرے کی چمک اور مسکراہٹ یاد ہے. زبردستی سیب اور امرود کھلاتا رہا ' اور میں اس سے اپنے لئے دعا کی درخواست کرتا ہوا نکل آیا ' اس نے وعدہ لیا کہ کھانے کیلئے پھر آئو گے اور میں وعدہ کرکے نکل آیا. پھر اس کی طرف جانا ہوا لیکن اس کے گھر کے باہر فون پر بات کی لیکن اسے نہیں بتایا کہ گھر کے باہر کھڑا ہوں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ اس کے گھر والے ڈسٹرب ہوں. پھر اس نے وعدہ یا د دلایا کہ رات کو میری طرف آنا اور میں وعدہ کرتے کرتے وعدہ خلافی کرگیا .
گذشتہ منگل کو پریس کلب میں ملاقات ہوئی تھی لیکن کچھ پریشانیوں کی وجہ سے اسے وقت نہیں دے سکا اور یوں وعدہ کرلیا کہ آئونگا لیکن پھر پریس کلب نہیں آیا ' گذشتہ روز اس کی آنے کا وعدہ تھا کہ وہ پریس کلب آئیگا لیکن پتہ چلا کہ اسے انفیکیشن ہوا ہے اور پھر اسے داخل کردیا گیا ہے اس کا حال ہسپتال انتظامیہ سے پوچھتے پوچھتے یکدم دل اداس ہوگیا اور آج صبح اطلاع ملی کہ " رحمت اللہ خان " انتقال کر گئے ہیں - آہ کتنی بے وفا زندگی ہے -ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے ہاتھ میں ہے لیکن ہاتھ چھڑا کر ایسے چلی جاتی ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آتا..
یار رحمت اللہ ..دو وعدوں کا تمھاا پاس نہ رکھ سکا ' نہ تمھارے گھر آکر کھانا اور نہ ہی پریس کلب میں بیٹھ کر گپ شپ کرنا ' لیکن ایسے بے وفائی تو کوئی نہیں کرتا ' کاش ہم سمجھ سکتے. بے شک ہم سب کو اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے.

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498120 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More