جدوجہد ہماری، فتح اﷲ تعالیٰ کی


مفادات ، ضمیر فرشی، انا کی رسہ کشی کے دور میں بعض اہم واقعات نے کشمیریوں میں نئی امیدیں،نیاجوش و جذبہ پیدا کیا۔ فلم عمر مختار کی سرینگر میں نمائش اور پابندی، سوویت یونین کی افغانستان میں شکست، دیوار برلن کا ٹوٹنا جیسے اہم واقعات نے کشمیریوں کی جدوجہد کے لئے نئی امیدیں اور توقعات کو جنم دیا ۔ آج اس ترکی ڈرامہ سیریل نے دنیا میں دھوم مچا دی ہے اورکشمیریوں کے لئے بھی تین دہائیوں کے بعد نئی امیدوں کے چراغ روشن کر دیئے ہیں ۔کشمیرکیہنر منداور جفاکش خواتین کا موازنہ کائی خواتین سے ہو رہا ہے۔ قالین اور شال بافی میں کائی کی طرح کشمیری خواتین اور دستکار بھی اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔یہاں ہر کوئی اسے دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے۔پاکستان ، انڈیا، ترکی، یمن، کشمیر، جرمنی، تیونس، افریقہ، انڈونیشیا، صومالیہ، آذربائیجان سمیت دنیا بھر میں سرویز کے مطابق ایک ارب سے زیادہ لوگ اسے دیکھ چکے ہیں۔ بچے لکڑی کی تلواریں اور ڈنڈوں سے اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ سنجیدہ اور بزرگوں نے اپنی راتوں کی نیدیں حرام کر دیں۔ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر پی ٹی وی اس ڈرامہ کوٹیلی کاسٹ کر رہا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اس ڈرامہ نے پی ٹی وی کا احیاء نوکیا ہے۔لاہور میں معروف دعا چوک کا نام تبدیل کر کے عوام نے خود اسے ارطغرل غازی چوک رکھ دیا ہے۔ یہاں گھوڑے پر سوار غازی کا مجسمہ بھی نصب ہو چکا ہے جس کے ہاتھوں میں تلوار لہرا رہی ہے۔ اس ڈرامہ پر معروف صحافی اور دانشور محترمہ نعیمہ احمد مہجور اور محمد ثاقب تنویر کے خیالات اور ریسرچ کافی اہمیت کی حامل ہے۔جن کا خیال ہے کہ مسلمانوں کا ’گیم آف دی تھرونز‘ کہلایا جانے والا اور 80 سے زائد ممالک میں دیکھا جانے والا ڈرامہ ’دیریلیش: ارطغرل‘، کورولس عثمان کو دیکھ کر کشمیری کسی اطغرل، کسی عثمان کی تلاش میں ہیں۔ میں نے کچھ عرصہ قبل ترکی میں صحافتی خدمات انجام دینے والے دوست ٹی آر ٹی سے وابستہ عبدالشکور خان سے اس کی مقبولیت کا سنا کہ کس طرح مسلم نوجوان اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ ڈراما نیٹ فلیکس پر ترکش زبان میں انگریزی سب ٹائٹلز کے ساتھ موجود ہے۔ ڈرامہ 448 قسطوں پر مشتمل پانچ سیزنز میں فلمایا گیا جبکہ ہر قسط کا اوسط دورانیہ 45 منٹ ہے۔ ڈرامہ گزشتہ رمضان کی پہلی شب سے پی ٹی وی پر نشر ہونے لگا۔اب اسے ایک سال مکمل ہونے والا ہے۔یہ ڈرامہ ترکی میں اتنا مقبول ہوا کہ ترک صدر رجب طیب اردوان اس ڈرامے کے سیٹ پر خود اپنی اہلیہ کے ساتھ گئے اور اداکاروں سے ملاقات کی۔ڈرامہ ارطغرل غازی 13ویں صدی میں عثمانی ریاست کے بانی عثمان کے والد ارطغرل کی کہانی ہے، جن کی فتوحات کے باعث عثمانی ریاست کا قیام ممکن ہوا ۔ ڈرامے کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اب اسی تاریخ کا دوسرا حصہ بھی ریلیز کیا جا چکا ہے، جس میں عثمان کی زندگی کا احاطہ کیا گیا ہے۔ڈرامے میں ارطغرل کا کردار ترکی کے اداکار انجن الطان نے نبھایا ہے۔ خلافت کے احیاء نو سے خوفزدہ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کی کہانی میں تاریخ صحیح طرح سے پیش نہیں کی گئی اور یہ ایک پروپگینڈا ڈرامہ ہے۔

بچپن میں اسلامیات کی کتابوں میں جو پڑھا تھا وہ اس ڈرامے میں دکھایا گیا ہے۔ چاہے وہ حقوق العباد ہو، بڑوں کا احترام ہو یا عدل سے حکمرانی۔ وہ سب اس ڈرامے میں دکھایا گیا ہے۔ ڈرامے میں دکھایا جاتا ہے کہ کیسے ایک والد اپنے بچوں کی اسلام کے مطابق پرورش کرتا ہے۔ ڈرامے کی ہر پانچویں، چھٹی قسط میں اسلام کے مختلف پہلوؤں اور تاریخی واقعات کا ذکر تفصیل میں کیا جاتا ہے۔اسلامی تعلیمات کے علاوہ جہاں ڈرامے میں جنگیں اور معرکے ہیں، وہیں رومانوی پہلو بھی ہے۔ پاکستان میں ناظرین کے لیے اس ڈرامے کی کئی خاص باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں استعمال کیے گئے کئی الفاظ اردو اور عربی زبان کے ہیں۔ترکش ڈرامے پاکستان میں پہلے ہی بہت مقبول ہیں۔ ’عشق ممنوع‘ اور ’میرا سلطان‘ جیسے ڈرامے جنہیں اردو زبان میں ڈب کیا گیا تھا، بہت مقبول ہوئے تھے۔مگر ارطغرل کی منفرد اہمیت ہے۔ کیوں کہ یہ اسلامی تاریخ کا احاظہ کرتا ہے۔ خلافت سے مسلمانوں کی زبردست وابستگی کا یہ آئینہ دار ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کا خیال ہے کہ اس ڈرامے میں اسلام کا کلچر دکھایا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہاں (کلچر) پہلے ہالی وڈ سے شروع ہوتا ہے، پھر بالی وڈ جاتا ہے اور وہاں سے ہوتا ہوا پاکستان آتا ہے جس سے تھرڈ ہینڈ کلچر کو فروغ مل رہا ہے۔میں اسی لیے چاہتا ہوں کہ ہمارے بچوں اور نوجوانوں کو پتا چلے کہ ہمارا بھی ایک کلچر ہے جس میں رومانس بھی ہے اور اسلام کے اقدار بھی ہیں۔ہماری عمدہ تہذیب و تمدن ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے اس ڈرامے کو پاکستان لانے کا فیصلہ بھی ترکی اور ملائشیا کے سربراہان مملکت سے ملاقات کے بعد کیا ۔ اسی ڈرامے میں انہوں نے ترکی اور ملائشیا کے ساتھ مل کر اسلاموفوبیا کے خاتمے کے لیے ایک ٹی وی چینل لانچ کرنے کا بھی اعلان کیا ۔خطے کی سیاست میں ترکی، ایران اور سعودی عرب کا بہت اہم کردار ہے۔ اسی لیے ارطغرل ڈرامے کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب نے بھی گذشتہ سال ایک نئے ڈرامے کا آغاز کیا تھا جس کا نام ’مملکت النار‘ ہے۔فلموں اور ڈراموں کی بین الاقوامی ڈیٹا بیس ’آئی ایم ڈی بی‘ کے مطابق اس ڈرامے کا کل بجٹ 40 ملین ڈالرز (تقریباً چھ ارب روپے) کے قریب ہے جس سے ان ڈراموں کی اہمیت کا انداز لگایا جا سکتا ہے۔محترمہ نعیمہ احمد مہجور نے ارطغرل کو کشمیر کے ساتھ جوڑنے کا خیال پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پانچ اگست2019 کے فیصلے کے بعد جب بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے ریاست کو دو یونین ٹیریٹریز میں تبدیل کر دیا تو کشمیری عوام میں انتہائی افسردگی، پست ہمتی اور شدید منفی اثرات کا رحجان دیکھا گیا۔ریاست کو پہلے ہی فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر کے عوام کو اس فیصلے کے خلاف اُف تک کرنے کی اجازت نہیں دی گئی حالانکہ شدید لاک ڈاؤن کے باوجود بعض مقامات پر احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے جس کو میڈیا میں آنے سے روکنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی۔ اس پر کشیدہ ماحول کے سبب ہر شخص اندرونی گھٹن محسوس کرنے لگا۔کشمیر میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے وہی ڈرامے، خبریں اور تفریح کے پروگرام پیش کیے جاتے ہیں جو بھارتی موقف کے طرف دار ہیں۔ بعض چینلوں سے نشر ہونے والے پاکستانی اور ترکی ڈراموں پر حکومت نے پابندی عائد کی ہے۔ ایسے میں جب لوگوں کو ترکی ڈرامے ارطغرل کے بارے میں پتہ چلا تو فورا اس کی ڈاؤن لوڈنگ شروع ہو گئی۔ اس کو دیکھنے سے انہیں ذرا سی راحت محسوس ہونے لگی اور ڈرامے میں اوغوز کائی قبیلے کی لمبی جدوجہد کو اپنی تحریک سے تشبیہ دینے لگے۔

کشمیر کی موجودہ مسلح جدوجہد کے آغاز پر جب ہالی وڈ فلم عمر مختار کو کشمیریوں نے سکرین پر دیکھا تو انہوں نے فورا عمر کا مسولینی فوج کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے رہنے کو 1931 کی تحریک کے ان شہیدوں سے موازنہ کر دیا جس کی بنیاد پر بعد میں شیخ محمد عبداﷲ نے ڈوگرہ مہاراجہ کے خلاف اپنی مہم شروع کی تھی۔شیخ عبدا ﷲ کی آتش چنار کے مطابق ڈوگرہ فوج کی گولی سے ہلاک ہونے والے پہلے شہید عبدالقدیر نے مرتے وقت شیخ عبداﷲ کے کان میں کہا تھا کہ ’تحریک کو آگے لے جانا اب آپ کی ذمہ داری ہے۔‘ لیکن 1947 میں قیام پاکستان کے بعد عوام کی خواہشات کے برعکس شیخ عبدا ﷲ کے بھارت سے ناطہ جوڑنے کے فیصلے کے خلاف بیشتر کشمیری اپنے ہاتھ ملتے رہ گئے۔عمر مختار فلم دیکھ کر کشمیر میں یہ بحث ہر گھر میں چھڑ گئی کہ شیخ عبداﷲ نے عمر مختار کی طرح موت کو ترجیح کیوں نہیں دی تاکہ کشمیری ان کے فیصلے کا عذاب صدیوں تک نہ سہتے رہتے۔ اس فلم کے چند برس بعد ہی ریاست میں مسلح تحریک شروع ہوگئی تھی۔عمر مختار کی طرح افغانستان سے سوویت یونین کاانخلاء اور سوویت کا ٹوٹ جانا بھی کشمیریوں کے لئے حوصلہ افزا تھا۔ اب ارطغرل ڈراما بیشتر کشمیری حلقوں میں آج کل موضوع بحث بنا ہوا ہے، خاص طور سے نوجوانوں میں۔ اس سیریز کی بدولت کشمیر ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں بیشتر لوگ اسلام کی تاریخ، ناکامیوں، کامیابیوں اور فتوحات میں کافی دلچسپی لینے لگے ہیں۔

گو کہ بھارتی حکومت نے بابری مسجد کی شہادت، بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر، گجرات، سورت اور دیگر مقامات پر مسلمانوں کا قتل عام،کشمیر میں ہندو انتہا پسندوں کی آبادکاری، ریاست میں مسلم کردار کو ختم کرنے کا ایک منظم منصوبہ شروع کیا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی رجسٹریشن کے ظالمانہ قوانین، ایسے دوسرے سخت اقدامات شروع کئے ہیں۔ کشمیر میں اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ یہاں ریڈکلزم کی سوچ انتہائی گہری ہوچکی ہے مگر نعیمہ جی کا کہنا ہے کہ انھوں نے ذاتی طور پر محسوس کیا کہ ان اقدامات کے ردعمل میں ہی عوام میں نہ صرف اسلامی تعلیمات کی جانب رحجان بڑھ گیا ہے بلکہ تحریک آزادی کو ترکی قبیلے کی لمبی جدوجہد سے جوڑ کر یہ عزم پختہ ہو گیا ہے کہ وہ اپنے حقوق کی خاطر باطل کے سامنے صدیوں تک خاموش لڑائی لڑتے رہیں گے۔ کئی اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں میں یہ سوچ بہت مضبوط ہے۔بھارتی قابض حکومت نے ان ہی خدشات کے پیش نظر انٹرنیٹ کی سہولت کو جان بوجھ کر محدود کر رکھا ہے تاکہ وہ اس طرح کے پروگراموں سے متحرک نہ ہو سکیں۔ترکی کا یہ ڈراما دراصل اس دور کی عکاسی کرتا ہے جو صلیبی جنگ کے خاتمے اور قیام سلطنت عثمانیہ کے بیچ کا وقت ہے۔ جب بارویں صدی میں صلاح الدین ایوبی نے مقبوضہ بیت المقدس کو حاصل کرنے کا سوچا اور فورا ًان کے انتقال کے بعد مسلمان سیاسی انتشار کا شکار ہوگئے تھے۔ یہ صورت حال تقریباً پندرہویں صدی تک قائم رہی۔ اس دوران ترکی کے اوغوز قبائلی رہنماؤں نے مسلمانوں کو متحد کرنے اور دشمنوں کے خلاف صف آرا ہونے کی لمبی جدوجہد چلائی جن میں بقول ترکی مورخین ارطغرل اور بعد میں ان کے بیٹے عثمان پیش پیش رہے ہیں۔ بعض مورخین کے حوالے سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ عثمان کی فتوحات ہی عثمانیہ سلطنت کے قیام کی بنیاد بنی جو پھر 600 سال تک مسلمانوں کی متحد مرکزی قیادت رہی۔پہلی عالمی جنگ کے بعد 1922 میں عثمانیوں کی مملکتیں جو ایک بار پھر بیرونی، اندرونی اختلافات اور انتشار کی وجہ سے کمزور ہوچکی تھیں برطانیہ، روس، فرانس اور یونان نے آپس میں بانٹ کر سلطنت کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی کمال اتاترک کے موجودہ ترکی کی بنیاد پڑی۔

سرینگر کے ایک ہسپتال میں 2جون 2020کو پلوامہ کی فیملی کے ہاں ایک بچے نے جنم دیا جس کا نام ارطغرل رکھ دیا گیا ۔ تب سے کشمیر اور پاکستان میں لا تعداد بچوں کے نام ارطغرل رکھے گئے ہیں۔ ارطغرل سیریز پر یورپ اور امریکی میڈیا میں بھی کافی تبصرے کئے جا رہے ہیں بلکہ ایک جریدے نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’یہ ڈراما ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔‘ جرمنی کی کیرن جودہ فشر جو امریکہ میں رہتی ہیں اور کئی برس تک کشمیر میں سماجی سدھار میں شامل رہیں کہتی ہیں کہ ’کشمیری عسکری پسند ڈاکٹر منان وانی میں نہ صرف ارطغرل جیسا جوش اور جذبہ موجود تھا بلکہ مختلف نظریات رکھنے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی سوچ بھی تھی لیکن بھارتی فوج نے اس کی ہلاکت سے کشمیری تحریک کو بڑی ضرب لگائی۔‘انسانی حقوق کے ایک سرکردہ کارکن منظور قادر کا خیال ہے کہ عمران خان، رجب طیب اردوان اور مہاتیر محمد کی اسلامی چینل قائم کرنے کے برعکس اگر اسلامی دور سے متعلق ارطغرل جیسے سیریل بنائے جاتے تو ان کے اسلامی معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے اور ہماری نسلیں اپنے مذہب کی شان رفتہ سے متعارف ہو جاتے۔کشمیر میں محدود انٹرنیٹ کے باوجود سوشل میڈیا پر ترکی کا ڈرامہ بحث مباحثے کا بڑا موضوع بنا ہوا ہے۔ بعض مجاہدین کو ارطغرل کی بہادری کے برابر ٹھہرایا جا رہا ہے یا ان کی جیسی سوچ پیدا کرنے کے لیے بعض لیڈروں کا نام لیا جا رہا ہے حتیٰ کہ بعض محفلوں میں ایک نئے ارطغرل کے وجود میں آنے کی دعا بھی کی جا رہی ہے جو کشمیر کی آزادی کا علم بردار بن جائے۔کسے معلوم کہ کوئی نیا ارطغرل پیدا ہو یا نہیں مگر اس بات پر لوگوں کو یہ اطمینان ضرور حاصل ہوا ہے کہ کشمیری عوام کو انتہائی گھٹن کے اس ماحول میں نئی امید پیدا ہوئی ہے کہ جس نے نہ صرف ان میں اپنے عقیدے کو مزید مضبوط کر دیا ہے بلکہ انہیں اپنے جائز حقوق کے حصول میں صبروتحمل برتنے کا نیا سبق بھی ملا ہے۔

 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555622 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More