ن لیگ جیت گئی اور پی پی پی ہار گئی

ایک جنگ اگر پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان چل رہی ہے تو دوسری جنگ پی ڈی ایم کے اندر ن لیگ بمقابلہ پی پی پی چل رہی ہے ۔ان دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان مولانا فضل الرحمن سینڈ وچ بنے ہوئے ہیں ۔ویسے تو اس اتحاد میں گیارہ جماعتیں ہیں لیکن عملاَ تو تین چار جماعتیں ہی متحرک ہیں چوتھی سیاسی جماعت اے این پی ہے جو اپنا سیاسی وزن کبھی ن لیگ کے موقف میں ڈالتی ہے اور کبھی پی پی پی کا ساتھ دیتی ہے ۔اب تک کی پی ڈی ایم کی کارکردگی دیکھی جائے تو آصف زرداری کا سیاسی بیانیہ ہی پوری پی ڈی ایم کے اندر غالب رہا ہے ۔دوسرے نمبر پر ن لیگ کا موقف رہا ہے جبکہ مولانا فضل الرحمن کے سیاسی موقف کو وہ پذیرائی نہیں ملی جیسا کے ملنا چاہیے تھی ۔مولانا کا شروع ہی سے جارحانہ اسٹائل تھا وہ چاہتے تھے کہ موجودہ حکومت کے خلاف بھرپور مہم اس طرح چلائی جائے کہ پہلے فراڈ الیکشن کو بنیاد بنا کر تمام اسمبلیوں سے مستعفی ہوا جائے اور اس کے بعد زبردست لانگ مارچ کر کے دھرنا دیا جائے اور اسلام آباد میں اس وقت تک بیٹھا جائے جب تک عمران خان کو واپس گھر نہ بھیج دیا جائے۔مولانا کے اس موقف کو پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کی حمایت حاصل نہیں تھی ۔اس میں سب سے زیادہ سیاسی نقصان پی پی پی کا ہورہا تھا کہ اس کے پاس ممبران قومی و صوبائی اسملی کی تعداد سب سے زیادہ ہونے کے علاوہ ایک صوبے کی حکومت بھی اس کے پاس تھی دوسرے نمبر پر ن لیگ کے ممبران کی تعداد ہے تیسرے نمبر پر جے یو آئی کے منتخب ممبران کی تعداد ہے اس لئے سب سے کم نقصان جے یو آئی کا ہوتا ۔

پی ڈی ایم کے اجلاس میں یہ طے ہوا کہ استعفوں کا آپشن سب سے آخر میں رکھا جائے پہلے لانگ مارچ اور دھرنا دیا جائے اور یہ کہ ضمنی انتخاب اور سینٹ کے انتخاب میں بھر پور حصہ لیا جائے جبکہ مولانا کی رائے تھی کہ ضمنی اور سینٹ کے انتخاب کا بائیکاٹ کردیا جائے اس سے حکومت کو زبردست دھچکہ لگے گا لیکن یہاں بھی مولانا کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا پڑا اور پوری پی ڈی ایم نے ضمنی انتخاب میں حصہ لیا اور زبردست کامیابی حاصل کی سیالکوٹ ڈسکہ کا الیکشن عدالتی پراسز میں چلا گیا لیکن یہاں بھی اخلاقی اور سیاسی پوزیشن پی ڈی ایم ہی کی حاوی ہے ۔ضمنی انتخاب کے نتائج نے پی ڈی ایم کے اندر آصف زرداری کے بیانیے کو زبردست تقویت پہنچائی کہ بلاول زرداری کے اس موقف کو بھی سیاسی حلقوں میں پذیرائی ملی کہ موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لایا جائے شروع شروع میں تو پی ڈی ایم میں یہ تنہا بلاول زرداری کی آواز تھی لیکن بعد میں پی ڈی ایم کی کئی سیاسی جماعتیں بلاول کی ہمنوا بن گئیں ۔پھر جب سینٹ کے انتخاب میں اسلام آباد کی ایک نشست کے لئے پی ڈی ایم کی طرف سے یوسف رضا گیلانی کو کھڑا کیا گیا اور ان کے مقابلے پر پی ٹی آئی کی طرف سے عبدالحفیظ شیخ سامنے آئے تو یہ مقابلہ ایک بین الاقوامی اہمیت اختیار کرگیا ۔پی ڈی ایم نے اس کو سیاست کی دنیا میں حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر متعارف کرایا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت کی طرف سے اوپن بیلٹنگ کے صدارتی آرڈیننس کو سپریم کورٹ نے اس کے خلاف فیصلہ دے کر بے اثر کردیا پھر الیکشن کمیشن نے آئین کے تحت خفیہ رائے دہی کی بنیاد پر سینٹ کا انتخاب کرایا عبدالحفیظ شیخ کے جیتنے کے امکانات اس حوالے سے زیادہ تھے کہ سرکاری ممبران کی تعداد اپوزیشن سے زیادہ تھی ،لیکن یہاں بھی جادو کی چھڑی گھوم گئی اور یوسف رضا گیلانی سات ووٹوں سے جیت گئے ۔

یوسف رضا گیلانی کی جیت نے حکومت کو بہت زبردست صدمہ پہنچایا اور حکومت کی سیاسی حیثیت پر منفی اثرات مرتب ہونے لگے کہ اسی دوران عمران خان نے اپنے حق میں اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا اس لئے کے یہ آوازیں آنا شروع ہو گئی تھیں کہ اب حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد بہت آسانی سے کامیاب ہو جائے گی دوسری طرف یہ بات بھی ہمارے ذہنوں مے رہنا چاہیے کہ پی ڈی ایم کے اندر آصف زرداری کا سیاسی وزن بڑھتا جارہا تھا ن لیگ اور جے یو آئی کی فکر مندی میں اضافہ ہورہا تھا کہ اب تک ملک میں پی ڈی ایم کے جتنے بھی جلسے ہوئے ہیں اس میں ن لیگ اور جے یو آئی کے کارکنوں کی تعداد پی پی پی کے شرکاء سے زیادہ رہی ہے کراچی کا جلسہ جس کی کامیابی کی ذمہ داری پی پی پی کو دی گئی تھی وہی جلسہ سب سے زیادہ فلاپ ہو گیا تھا ۔صوبہ پنجاب میں جس طرح پرویز الٰہی نے حکمت و دانائی کی سیاست سے کام لیتے ہوئے تمام سینیٹرز بلا مقابلہ کامیاب کرائے اس میں پی ٹی آئی کا پلڑا ن لیگ سے کچھ بھاری رہا مریم نواز اس انتخاب سے ناراض نظر آرہی تھیں وہ اس لئے کہ پرویز الٰہی نے مریم نواز کے بجائے اس پورے عمل میں شہباز شریف کو آن بورڈ لیا تھا ۔عمران خان کے اپنے حق میں اعتماد کا ووٹ لینے کی حکمت عملی کامیاب رہی انھیں وزیر اعظم بنتے وقت جتنے ووٹ ملے تھے اس سے دو ووٹ زیادہ ہی مل گئے ۔اس میں دلچسپ بات یہ رہی کہ جن ممبران نے عبد الحفیظ شیخ کو ووٹ نہیں دیا تھا انھوں نے عمران خان کے حق میں ووٹ دے کر اپنی نافرمانی کا کفارہ ادا کردیا ۔یوسف رضا گیلانی کے انتخاب میں ایک اور اہم بات یہ ہوئی کہ پی ٹی آئی کے عبد الحفیظ شیخ تو ہار گئے لیکن پی ٹی آئی کی خاتون سینیٹر کامیاب ہو گئیں اور انھوں نے یوسف رضا گیلانی سے زیادہ ووٹ لیے اس میں ایک بات تو یہ رہی کہ پی ٹی آئی کے جن ممبران نے عبدالحفیظ شیخ کو ووٹ نہیں دیے تھے انھوں نے پی ٹی آئی کی خاتون سینیٹر کو ووٹ دے دیا مریم نواز کا ایک شک یہ بھی ہے کہ ان کی خاتون دوست کو ہرانے کے لیے ان کے چچا شہباز شریف نے یہاں بھی اپنا کام دکھا یا اور ن لیگ کے کچھ ممبران نے ن لیگ کی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا ۔

12مارچ جمعہ والے دن سینٹ کے چیرمیں کا جو انتخاب ہوا ہے وہ بہت دلچسپ ہے نمبر گیم تو اپوزیشن کے زیادہ تھے اور یوسف رضا گیلانی کے جیتنے امکانات واضح تھے۔لیکن ان کے سات ووٹ ضائع ہو گئے اس پر ایک قانونی بحث تو چل رہی ہے بلاول زرداری نے اس کو چیلنج کرنے کو کہا ہے الیکشن کمشنر مظفر حسین شاہ نے بھی کہا ہے کہ کسی کو اس پر اعتراض ہے تو وہ عدالت میں چلا جائے یہ الیکشن ایک لحاظ سے متنازعہ تو ہو گیا ہے لیکن فی الحال عملی صورت تو یہ ہے کہ صادق سنجرانی نے حلف اٹھا لیا ہے لیکن یہ سوال تو اپنی جگہ قائم ہے کہ وہ کون سے سات ممبران ہیں جنھوں نے اپنے ووٹ ضائع کردیے اور یوسف رضا گیلانی ہار گئے ایک خیال یہ ہے کہ اس میں بھی شہباز شریف صاحب نے اپنا کام دکھایا ہے کہ اب تک پی ڈی ایم کے اندر آصف زرداری کا بیانیہ غلبہ حاصل کررہا تھا اور وہ یہ تاثر دے رہے تھے اسٹبلشمنٹ سے معاملات طے ہو گئے ہیں وہ سارے سیاسی عمل میں غیر جانبدار رہے گی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ہاتھ میں رعشہ ہونے کے باوجود دوسری دفعہ تھرتھراتے ہاتھوں سے وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے خواب دیکھ رہے تھے ،شہباز شریف نے ان کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا ۔طلال چوہدری کا طنزیہ ٹوئیٹ اور بلاول کا جواب بھی دونوں بڑے مزیدار اور دلچسپ ہیں ،ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو سینیٹ کے چیرمین کے الیکشن میں ن لیگ جیت گئی اور پی پی پی ہار گئی ۔
 

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 50049 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.