LOCپر اچانک خاموشی

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان لائن آف کنٹرول پر پچھلے کئی برسوں سے ہندوستانی فوج کی طرف سے بلا اشتعال بارڈر سے متصل شہری آبادی پر آئے دن فائرنگ ہوتی رہتی تھی جس سے اکثر بے گناہ پاکستانی شہری جاں بحق ہو جاتے تھے ۔بلکہ پچھلے چند مہینوں سے تو روزانہ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے نتیجے میں پاکستانی فوجیوں کے ساتھ اکثر شہری بھی جاں بحق ہوتے ہمارا کام بس یہ رہتا کہ بھارتی سفارتکار کو وزارت خارجہ میں بلا کر احتجاجی مراسلہ پکڑا دیتے ،جس کا بھارت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بھارتی مظالم ،جس میں بھارتی فوجوں کا گھروں میں گھس کر نہتے نوجوانوں کو ہلاک کرنا ،بے گناہوں کو گرفتار کرنا ان پر جھوٹے مقدمات قائم کرنا روز کا معمول ہے اس پر پاکستان نے بین الاقوامی برادری کی توجہ بارہا بھارت کے اس ظلم کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی لیکن کسی طرف سے کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں آیا ۔

اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ لائن آف کنٹرول پر اچانک خاموشی ہو گئی ہے کسی سرحدی دیہات پر بھارتی فوجیوں کی فائرنگ کی کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی ،آئے دن جو ہمارے فوجی اور بیگناہ شہری فائرنگ کی ذد میں آکر مرتے رہتے تھے وہ سلسلہ بھی بند ہوگیا ہے ۔بین الاقوامی سیاست میں ایسی کیا تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جس میں پاکستان کو اپنی سرحدوں پر یہ ریلیف مل رہا ہے ۔

منگل 23مارچ کے اخبارات میں اس حوالے سے جو خبریں شائع ہوئی ہیں اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ پاک بھارت تعلقات معمول پر لانے کے لیے متحدہ عرب امارات کی درپردہ کوششیں جاری ،جنگ بندی بھی اسی کا نتیجہ ہے دونوں ملک شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت انسداد دہشتگردی کی مشقوں میں بھی حصہ لیں گے امریکا بھی افغانستان میں دونوں ملکوں کی محاز آرائی ختم کرانے کے لیے کوشاں ہے ،امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ امن کے وسیع روڈ میپ کا آغاز ہو گیا ہے ،کشمیر کا حتمی فیصلہ ،تجارت کی بحالی اور سفیروں کا تقرر ایجنڈے میں شامل ہے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کا بھی امکان ہے ۔امریکی نشریاتی ادارے نے دعوی ٰ کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ سیز فائر معاہدے کے پیچھے متحدہ عرب امارات کا ہاتھ ہے ،جنگ بندی کا یہ معاہدہ دونوں ممالک کے مابین پائدار امن کے وسیع روڈ میپ کا آغاز ہے ،اس کے بعد کے مراحل میں دونوں ممالک میں سفیروں کا تقرر تجارت کی بحالی اور کشمیر کا حتمی فیصلہ ہو گا ۔ماضی کے مقابلے میں یہ کوششیں اس لیے مستحکم ہیں کہ جو بائیڈن افغانستان میں قیام امن کی کوششیں کررہے ہیں ۔پچھلے دنوں اسی سلسلے میں متحدہ عرب امارات کے وزیر خاجہ شیخ عبداﷲ بن زید نے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر سے جو بات چیت کی اس میں وسیع تر روڈ میپ کے لیے جنگ بندی کے بعد اب مشکل مرحلے شروع ہوں گے جس میں سفیروں کی تقرری اور تجارت کی بحالی ہے ۔

پچھلے دنوں ماسکو میں افغانستان میں امریکی فوجوں کے انخلاء کے حوالے سے ایک کانفرنس ہوئی جس میں امریکا روس پاکستان ایران طالبان اور ترکی شامل تھے اس میں بھارت نہیں تھا ۔اس میٹنگ میں گلبدین حکمتیار ،ڈاکٹر رشید دوستم ،المے خلیل زاد اور طالبان کے نمائدے شامل تھے افغانستان میں امن امان اور بیرونی افواج کے انخلاء کے حوالے ماسکو میں جو اجلاس ہوا اس میں کئی باتیں خاص تھیں مثلاَ جب دوستم نے طالبان کے ایک رہنما سے ہاتھ ملانا چاہا تو طالبان کے اس رہنما نے دوستم کا ہاتھ یہ کہہ کر جھٹک دیا کہ میں قاتلوں سے ہاتھ نہیں ملاتا دوسری بات یہ ہوئی کہ اس اجلاس میں رشید دوستم فوجی وردی پہن کر آئے تھے اجلاس کے تمام ہی شرکاء نے اس پر اعتراض کیا تو دوستم نے لباس تبدیل کرکے سادے اور شہری لباس میں اجلاس میں شرکت کی ․۔روس جو ایک زمانے میں طالبان کا حریف تھا اب وہ بہت حد تک طالبان کے موقف کا حامی ہے ۔اب اس کا اگلا اجلاس ترکی میں ہو گا جس میں بھارت کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔

یہ تو پوری دنیا جانتی ہے کہ افغانستان میں امن امان کے قیام کے حوالے سے اور فوجوں کے انخلاء کے حوالے سے بھی امریکا کو پاکستان کی ضرورت پڑے گی گو کہ اب بھی پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کا افغان طالبان سے ہلکا پھلکا رابطہ تو ہے لیکن پہلے جیسی بات نہیں ہے لیکن امریکا اس زمینی حقیقت کے باوجود یہ سمجھتا ہے کہ اب بھی پاکستان طالبان پر اپنے اثر و رسوخ استعمال کر سکتا ہے ۔امریکا کو پاکستان کے اسٹریٹیجک مسائل کا اندازہ ہے کہ جب تک بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات نارمل سطح پر نہیں آئیں گے پاکستان دلجمعی کے ساتھ افغان مذاکرات میں حصہ نہیں لے سکتا ۔انٹر نیشنل پالیٹکس میں کیا ہورہا ہے ،دو مسلم ممالک سعودی عرب اور امارات پاکستان اور بھارت کے درمیان امن و امان کے قیام کے لیے مذاکرات میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہے ہیں یہ بات ظاہر ہے کہ کسی بڑی طاقت کے کہنے پر ہی ایسا کچھ ہو رہا ہے ورنہ جب بھی کسی کی ثالثی کی بات آتی تو بھارت سب سے پہلے انکار کرتا رہا ہے اب بھارت کیوں تیار ہو گیا ہے اسے بڑی طاقتوں کی طرف کیا یقین دہانیاں کرائی گئیں ہیں ۔

بین الاقوامی سیاست کی پیچیدگیوں کو آسانی سے سمجھنا بہت مشکل ہے جیسے جیسے سفارتی سرگرمیاں آگے بڑھتی رہیں گی مستقبل کا نقشہ اور اس کے خد وخال سامنے آتے رہیں گے اس وقت تو کشمیر کی صورتحال یہ ہے کہ 23مارچ والے دن بھی یہ خبریں آئی ہیں کہ چار کشمیری نوجوانوں کو جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا گیا ۔یہ جو بات آئی ہے کہ کشمیر کا حتمی حل ہو گا تو حتمی حل کیا ہوگا پاکستان کے لیے مثبت پیش رفت تو یہ ہو گی کہ بھارت پہلے اگست 2020کی آئینی ترمیم کو واپس لے ہماری سمجھ میں تو یہ نکتہ آرہا ہے کہ کشمیر کے حتمی حل کے حوالے سے اصل بات کو چھپایاجارہا ہے ۔امریکی صدر جو بائیڈن نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مودی سے فون پر بات کی تھی لیکن پاکستان جس کی انھیں افغان معاملے میں ضرورت پڑے گی اس کے وزیر اعظم کو ابھی تک کوئی فون یا رابطہ نہیں کیا یوم پاکستان کے حوالے سے امریکا کے صدر بائیڈن کا پاکستان کے صدر عارف علوی کے نام تہنیتی پیغام آیا ہے ۔اسی طرح شاید پہلی بار بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی یوم پاکستان پر پاکستان کے عوام کو تہنیتی پیغام بھیجا ہے ۔در اصل یہ جو مختلف دانشوروں کے تجزیے سامنے آتے رہے ہیں کہ امریکا بھارت کو اس علاقے میں تھانیدار بنانا چاہتا ہے چین کے مقابلے پر تیار کررہا ہے کسی حد تک سمجھ میں آتی ہے ۔ایک اور بات سامنے رہنا چاہیے کہ سلامتی کونسل کی نشست کے لیے بھارت کو کہا گیا ہو کہ وہ اپنے پڑوس ممالک سے اپنے تعلقات کو بہتر بنائے ابھی حال ہی میں بھارتی وزیر اعظم مودی نے بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کے ساتھ ایک پل کا افتتاح کیا ہے ،پاکستان کے ساتھ بھی بھارتی رویوں میں یہ تبدیلیاں حقیقی نہیں بلکہ مصنوعی و عارضی نظر آتی ہیں لیکن ہمیں امید اچھی رکھنا چاہیے اور مستقبل کے اندیشوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے
 

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 50012 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.