پی ٹی آئی کی خوش فہمی اور پی ڈی ایم کا مستقبل

پی ڈی ایم کے پچھلے اجلاس میں آصف زرداری صاحب نے جو دھماکا کیا ہے اس کے آفٹر شاکس ابھی تک محسوس کیے جارہے ہیں ۔پی ٹی آئی اس خوش فہمی میں مبتلاء ہو گئی ہے کہ پی ڈی ایم ختم ہو گئی ۔حالانکہ ایسا نہیں ہے ہاں یہ ضرور ہوا کہ مولانا فضل الرحمن جیسے زیرک سیاستڈاں بھی میڈیا اور اور پوری قوم کے سامنے اپنا ٹمپر لوز کر بیٹھے ،جب انھوں نے یہ اعلان کیا کہ 26مارچ کا لانگ مارچ ملتوی ہو گیا ہے ،پی پی پی نے مہلت مانگی ہے کہ وہ اپنی سی ای سی Central executive comitteeکے اجلاس استعفے کے آپشن پر دوبارہ غور کریں گے پھر پی ڈی ایم کے سامنے اپنی پارٹی کا موقف رکھیں گے ۔ایک ڈیڑھ منٹ میں مولانا یہ بات کہہ کر پریس کانفرنس سے شدید غصے میں چلے گئے جبکہ مریم نواز انھیں آواز دیتی رہ گئیں کہ مولانا رپورٹروں کے سوال تو لے لیں لیکن مولانا پلٹ کر نہیں آئے۔مولانا مجموعی طور پر ٹھنڈے مزاج کے سیاستداں ہیں وہ صحافیوں کے سخت سے سخت سوالات کے جواب بھی بڑی دلاویز مسکراہٹ کے ساتھ دیتے ہیں لیکن یہاں پر وہ بجھے بجھے سے لگ رہے تھے ۔

اس سارے پس منظر میں ایک سوال اپنی جگہ اب بھی موجود ہے کہ کیا لانگ مارچ استعفے دیے بغیر نہیں ہو سکتا تھا ایسی صورت میں پی پی پی بھی بھرپور انداز میں ساتھ دیتی اور اس لانگ مارچ کا کوئی نہ کوئی منطقی نتیجہ تو سامنے آتا ۔ایک چیرمین سینٹ کی شکست کے علاوہ پی ڈی ایم نے حکومت کے خلاف کئی سیاسی کامیابیاں حاصل کی تھیں اور اس کا سیاسی امیج بلندیوں پر تھا ۔مولانا یہ تجویز تھی کہ پہلے اسمبلیوں سے استعفے دیے جائیں پھر لانگ مارچ شروع کیا جائے ،استعفوں کے حوالے سے پی پی پی کے تحفظات دور کرنے کے لیے درمیان کی یہ راہ نکالی گئی کہ پہلے قومی اسمبلیوں سے استعفے دیے جائیں ۔اس پر پی پی پی کی شاید کوئی تیاری نہیں تھی اور اس کا اس حوالے سے کوئی ہوم ورک نہیں ہوا تھا ان کے ممبران قومی اسمبلی بھی تیار نہیں تھے ۔ن لیگ کو بھی تھوڑی بہت مشکل پیش آتی لیکن مولانا تو بالکل تیار تھے ،مولانا نے یہ نہیں سوچا کے کروڑوں روپئے خرچ کرکے ممبر بنتے ہیں وہ اتنی آسانی سے کیسے اپنی سیٹ چھوڑ دیں گے ۔پی پی پی کو ایک انجانا خوف یہ بھی رہا ہوگا کہ اگر پی ڈی ایم نے قومی اسمبلی کے ممبران کے استعفے اسپیکر کو دے دیے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وفاقی حکومت سندھ میں یہ کہہ کر گورنر راج لگادے کہ ایسا نہیں ہوسکتا کے ایک پارٹی حکومت کے خلاف ایجی ٹیشن بھی کرے اور وہ حکومت میں بھی شامل رہے ۔

اگر استعفوں کے آپشن کو بالکل آخر میں رکھتے جیسا کہ پی پی پی کی اور ویسے مجموعی طور پر پی ڈی کی رائے بھی کسی حد تک یہی بن چکی تھی،پی ڈی ایم لانگ مارچ کا آغاز کر دیتی تو کسی نہ کسی مرحلے پر حکومت سے تصادم ہوتا جو کس نوعیت کا ہوتا پہلے سے تو کوئی پیشن گوئی نہیں کرسکتا تھا لیکن کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ممکن ہے کہ حالات ازخود اس نہج پر پہنچ جاتے کے پی ڈی ایم کی جماعتوں کو استعفوں کے ہتھیار کو استعمال کرنا پڑتا۔پہلے استعفیٰ کی شرط لگا کر مولانا نے خود پی ڈی ایم کو توڑنے کا راستہ اپنایا ،جملہ معترضہ کے طور پر ایک بات یہ بھی سامنے آچکی تھی جس کا ذکر معروف تجزیہ نگار ہارون رشید نے اپنے پروگرام مقابل میں کیا کہ آصف زرداری صاحب کو ایک ایسی وڈیو دکھائی دی گئی جس میں نواز شریف اسحاق ڈار مریم نواز اور دیگر ن لیگی اپنی آپس کی بات چیت میں آصف زرداری صاحب کا مذاق اڑا رہے تھے ۔ذرداری صاحب کا اس کا بھی غصہ تھا اور اس بات کا بھی غصہ تھا کہ ن لیگ نے اپنے سات ووٹ ضائع کروا کے یوسف رضا گیلانی کی شکست کی راہ ہموار کی انھیں فوری طور پر اس کا بدلہ تو لینا تھا ، چنانچہ انھوں نے استعفون کے حوالے سے یہ شرط لگائی کہ نواز شریف صاحب اسحاق ڈار کے ساتھ ملک میں واپس آئیں ہم ان کے ہاتھ میں اپنے استعفے رکھ دیں گے اس کا مطلب خدا نہ خواستہ یہ نہیں تھا ،آصف زرداری صاحب کو مولانا فضل الرحمن پر اعتماد نہیں تھا بلکہ یہ شرط انھوں نے اس لیے لگائی کہ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی ۔

وہ مولانا عنایت علی خان کا ایک شعر ہے کہ۔۔۔ حادثہ سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ ۔۔۔۔۔رکا نہیں کوئی حادثہ دیکھ کر اگر یہ ساری باتیں اجلاس کے اندر ہوتیں اور میڈیا پر اس کے ٹکر نہ چل رہے ہوتے تو مولانا اور اچکزئی جیسے سینئر سیاستدان اس معالے کو سنبھال لیتے اور ساجھے کی ہنڈیا چوراہے پر نہ پھوٹتی ۔۔۔اب ہو یہ رہا ہے کہ ایک طرف حکومت اور پی ٹی آئی والے خوشیاں منارہے ہیں کہ پی ڈی ایم ختم ہو گئی بلکہ اس کی تدفین بھی ہو گئی اس طرح تحریک انصاف کی حکومت کے لوگ اس کے کارکنان خوش فہمی کی انتہاؤں پر چلے گئے ہیں کہ جیسے اب ان کے سامنے کی بڑی رکاوٹ ختم ہو گئی ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ پی ٹی آئی حکومت کی ناہلی ،ناکامیاں اتنی زیادہ ہیں اور یہ کہ روزانہ کے حساب سے مہنگائی نے عوام کو نان شبینے کا محتاج کردیا ہے ،لوگ اتنے تنگ آگئے ہیں کہ خود کشیوں پر مجبور ہو گئے ہیں بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے یہ تو سمجھئے کہ پی ڈی ایم کے رہنماؤں کی حماقتوں نے آپ کو موقع دیا ہے کہ آپ اپنی گورنس کو بہتر کرلیں ملک میں مہنگائی کے جن پر قابو پائیں اور اپنی ساری توجہ اپنی اور اپنی ٹیم کی کارکردگی پر رکھیں ،جزا و سزا کا بھی اہتمام کریں کہ جو وزیر اچھی کارکردگی دکھائے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے جو مطلوبہ کارکردگی نہ دکھا سکیں انھیں تبدیل کردیا جائے اور جن کے خلاف کرپشن کی شکایت ٓائے تحقیقات سے وہ درست ثابت ہو جائے تو ان کا احتساب کیا جائے ۔بہرحال حکومت یہ سمجھے کہ پی ڈی ایم میں اب جان نہیں رہی حکومت کی نااہلیوں سے اس میں دوبارہ جان پڑسکتی ہے اور آپ کے لیے یہ ایک مصیبت نہ بن جائے ۔

دوسری طرف پی ڈی ایم کے رہنما بھی مایوسی کی انتہا پر جاتے ہوئے لگتے ہیں ایک دو روز پہلے میں مریم نواز کا بڑا غصے سے لہبریز جلا کٹاببان دیکھ رہا تھا جس میں صحافیوں سے مخاطب تھیں جس میں ہاتھ پیر توڑنے کی بات کررہی تھیں ان کی گفتگو سے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ پی ڈی ایم میں آصف زرداری نے جو جھگڑا کھڑا کردیا ہے اس نے مریم نواز کی طبیعت پر اعصابی اور نفسیاتی طور بڑے منفی اثرات ڈالے ہیں ،مریم اپنے آپ کو اس صورتحال سے نکالیں اور یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ن لیگ پورے ملک میں عوامی حمایت رکھتی ہے ضمنی انتخابات کے نتائج اس کا ثبوت ہیں پھر یہ کہ جے یو آئی کے کارکنان میدان پکڑو ہیں اور ن لیگ کے میدان چھوڑو ہیں ۔آپ کے ووٹرز تو جے یو آئی سے بہت زیادہ ہیں لیکن کسی تصادم کے موقع پر جے یو آئی کے کارکنان میدان میں کھڑے رہنے والے ہیں ۔اسی طرح پی ڈی ایم میں چاروں صوبوں سے علاقائی ،صوبائی ،اور لسانی جماعتیں بھی ہیں جنھیں وفاقی حکومت سے بہت سی شکایات ہیں آپ ان کو بھی پی ڈی ایم کا حصہ بنائیں ۔پی پی پی کا سیاسی سفر قومی جماعت کے اسٹیج سے صوبائی جماعت کی طرف جارہا تھا پی ڈی ایم نے اسے دوبارہ قومی دھارے کا حصہ بنادیا ہے ۔اس لیے پی پی پی کا پی ڈی ایم چھوڑنا خود پی پی پی کے لیے پی ڈی ایم سے زیادہ نقصان دہ ہے ۔اس لئے پی پی پی کا پی ڈی ایم میں رہنا ہی زیادہ مفید ہے اس لیے سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کے لیے پی پی پی کو ہی قربانی دینا ہو گی ۔
 

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 56348 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.