کورونا ۔ ہندو پاک دوستی کی بنیاد

ملکی معاملات و تعلقات اپنی جگہ مسلمہ ۰۰۰ ہندو ستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ہم منصب پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی جلد صحتیابی کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ عالمی سطح پر کورونا پازیٹیو سے لوگ ڈرو خوف میں مبتلا ہوگئے ایسے میں ان مریضوں کے ساتھ ہمدردی اورانکی ہمت افزائی و صحت مندی کے لئے دعائیں اور نیک خواہشات انکے ڈرو خوف میں کمی کا باعث بنے۔ مریض کی مزاج پرسی سے آپس میں پائے جانے والے اختلافات دور ہوتے ہیں اور سرد تعلقات میں بہتری پیدا ہوسکتی ہے۔ ہندو پاک کے درمیان جو کشیدہ تعلقات ہیں ایسے میں کسی ایک کی جانب سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا جانا قابلِ تحسین اقدام ہے۔کورونا ،ہندوپاک دوستی کی بنیاد بھی ہوسکتا ہے۔ گذشتہ ہفتہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے ہندوستان پر زور دیا تھاکہ وہ امن کیلئے پہلا قدم اٹھائیں۔ عالمی وبا کووڈ ۔19کے اس دور میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان بھی کورونا وائرس کا شکار ہوگئے ہیں، انکا کورونا ٹسٹ مثبت آنے سے دو روز قبل ہی انہوں نے کورونا ویکسین لگوائی تھی، اس کے باوجود انکا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔عمران خان کی جلد صحتیابی کیلئے عالمی قائدین کی جانب سے پیامات کا سلسلہ جاری ہے۔ سربرہان مملکت میں سب سے پہلے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹوئٹر پر صحتیابی کا پیغام جاری کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور کورونا وائرس سے جلد صحت یابی کیلئے امید ظاہر کی۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ 23؍ مارچ کو ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور پاکستانی عوام کو یومِ پاکستان کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہیکہ ایک پڑوسی ملک کے طور پر ہندوستان پاکستانی عوام کے ساتھ خوشگوار تعلقات چاہتا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے انکے ساتھ نیک خواہشات کا اظہار اور یوم پاکستان کے موقع پر مبارکبادی کا پیغام مستقبل قریب میں دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے۔

حوثیوں کے ناکام حملوں کے خلاف عرب اتحادی افواج کے فضائی حملے
حوثیوں کی جانب سے لگاتار سعودی عرب کے مختلف شہروں اور پھر ریاض کی تیل ریفائنری پر ناکام فضائی بیلسٹک میزائل اور ڈرون حملوں کے بعد عرب اتحادی افواج کی جانب سے یمن کے دارالحکومت صنعا میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کے فوجی اہداف پر حملے کئے گئے، بتایاجاتا ہیکہ ان حملوں کے ذریعہ حوثیوں کے بیلسٹک میزائلوں اور فوجی سازو سامان کے گوداموں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق عرب اتحاد کے لڑاکا طیاروں نے مارب، صنعا ، الحدیدہ ،تعزاور عمران میں حوثیوں کے اہداف پر بمباری کی۔ عرب اتحاد نے یہ فضائی حملے سعودی عرب کے جنوب مغربی شہر خمیس مشیط کی جانب حوثی ملیشیا کے ڈرون حملے کے ایک روز بعد کیے ہیں۔اتحادی افواج کا کہنا ہیکہ ’حوثی ملیشیا نے سعودی عرب میں سرکاری تنصیبات ، نجی املاک اور شہری آبادی کو ڈرون اور میزائل حملوں کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے‘۔جسے سعودی عرب کے فضائی دفاعی نظام نے ان میں سے بہت سے ڈرونز اور میزائلوں کو فضا ہی میں تباہ کردیا ہے‘۔واضح رہیکہ گذشتہ دنوں ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کے ایک سینئر فوجی عہدیدارو حوثی ملٹری ونگ کمانڈر میجر جنرل زکریا یحیی الشامی جو حوثی کابینہ کے وزیر اور ملیشیا کی فوج کے سابق چیف آف اسٹاف تھے ، حوثی جنگجوؤں کی قیادت کررہے تھے اس دوران عرب اتحاد کے فضائی حملے میں ہلاک ہوگئے۔یمنی فوجی عہدیدار کے مطابق الشامی کی ہلاکت حوثیوں کیلئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ اس سے قبل 2018میں حوثیوں کے سینئر اور سب سے اہم رہنما صالح الصمد کو عرب اتحاد کے فضائی حملے میں ہلاک کیا گیا تھا۔ عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق عرب اتحاد نے زکریا یحیی الشامی کی گرفتاری یا ان تک پہنچنے والی معلومات فراہم کرنے والے شخص کو 20ملین ڈالر انعام دینے کا اعلان کیا تھا کیونکہ الشامی عرب اتحاد کی مطلوبہ فہرست میں حوثی ملیشیا کے چوتھے رہنما تھے۔اس فہرست میں 40رہنماؤں اور افراد کے نام شامل ہیں جو حوثی دہشت گردی کی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی، ان پر عمل درآمد اور ان کی حمایت کے ذمہ دار ہیں۔حوثی ملیشیا کے اس اہم میجر جنرل کی ہلاکت کے بعد دیکھنا ہیکہ حوثی ملیشیا کس طرح اپنے قائد کی ہلاکت کا بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

یمن میں جنگ بندی سے قیام امن ممکن۰۰۰
سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی سربراہی میں منعقدہ سعودی کابینی اجلاس میں کہا گیا ہیکہ یمن میں جنگ بندی کا فارمولہ قیام امن کی سنجیدہ کوشش ہے۔ کابینہ نے ریاض میں تیل تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کوشش کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔یمن کی خانہ جنگی ابھی کب ختم ہوتی ہے اور ملک میں قیامِ امن کب ہوتا ہے اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔تقریباً سات سال سے یمن کے حالات انتہائی خراب ہیں۔حوثی باغیوں نے جس طرح یمن کے دارالحکومت صنعاء پر ستمبر2014ء میں کنٹرول حاصل کرکے یمن کے صدر عبدربہ منصور ہادی کو یہاں سے بھگا کر یمن کے دوسرے شہر عدن پہنچایااور پھر وہاں سے سعودی عرب پہنچایا ۔حوثیوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھتے ہوئے صدر یمن نے سعودی عرب سے پناہ اور تعاون کی درخواست کی جس پر سعودی عرب نے یمنی صدر عبد ربہ منصور ہادی کو پناہ دی یہی نہیں بلکہ حوثیوں کے خلاف سعودی عرب نے عرب اتحاد قائم کیا اور یمن کے حوثی بغاوت کو کچلنے کی کوشش کی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ اور سعودی عرب کا الزام ہیکہ حوثیوں کو ایران سے تربیت اور اسلحہ کے ذریعہ تعاون حاصل ہے۔ عرب اتحاد نے حوثیوں کی بغاوت کو کچلنے اور عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت کو مضبوط کرنے کیلئے کئی فضائی حملے کئے جبکہ حوثیوں نے بھی ملک میں خانہ جنگی کو بڑھاوا دیااور ملک کے کئی حصوں میں حملوں کے ذریعہ قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ اس طرح دونوں طرف سے جاری ان حملوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں ایک لاکھ12ہزار سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوگئے ہیں ، یمن میں انسانی بحران نمایاں ہونے لگا۔کھانے پینے کی اشیاء ہی نہیں بلکہ ادویات کی بھی یمن میں کمی ہوگئی۔ لوگ بھوکے پیاسے مرنے لگے۔آج بھی یمن کی حالات انتہائی خراب ہے۔دو کروڑ 40لاکھ افراد فوری امداد کے منتظر بتائے جاتے ہیں۔ویسے یمن پہلے ہی غریب ملک ہے اور سعودی عرب پہلے سے ہی یمن میں غربت کو دیکھتے ہوئے اس کی امداد کرتا رہا ہے۔ عبدربہ منصور ہادی کو سعودی عرب کی جانب سے مکمل تعاون اور حوثیوں کونشانہ بنانے کے جواب میں حوثی ملیشیا سعودی عرب کے مختلف شہروں پر ناکام میزائل اور ڈرونز حملے کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ گذشتہ دنوں ریاض کی تیل ریفائنری پر حملہ کیا گیا جسے سعودی افواج نے ناکام بنادیا۔ ان حملوں کے جواب میں عرب اتحاد نے بھی گذشتہ چند دنوں کے دوران یمن کے اہم شہروں پر فضائی حملے کئے جس کی وجہ سے حوثی ملیشیا کے ایک اہم قائدو سینئر فوجی عہدیدارو حوثی ملٹری ونگ کمانڈر میجر جنرل زکریا یحییٰ الشامی جو حوثی کابینہ کے وزیر اورحوثی ملیشیا کی فوج کے سابق چیف آف اسٹاف تھے ہلاک ہوگئے۔ان دنوں سعودی عرب نے یمن میں قیامِ امن کیلئے ایک بڑا اقدام کرتے ہوئے حوثی باغیوں کو جنگ بندی کی پیشکش کی ہے۔ اس اقدام کے تحت صنعاء ایئر پورٹ کو دوبارہ کھولنے اور الحدیدہ پورٹ پر پابندیوں میں نرمی کی اجازت دی گئی ہے۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے ایک پریس کانفرنس کے موقع پر کہاکہ سعودی عرب نے یمنی بحران کے خاتمے اور مکمل سیاسی حل تک رسای کا فارمولا پیش کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فارمولے کے تحت یمن کے تمام علاقوں میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک جامع جنگ بندی شامل ہے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سعودی عرب جو پہلے سے ہی یمن کی امداد کرتا رہا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق یمن میں 2014کی حوثی بغاوت کے بعد سے اب تک سعودی عرب نے 17ارب ڈالر سے زیادہ امداد فراہم کی ہے اور یمنی حکومت کی مدد جاری رکھے ہوئے ہے۔سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ’ سعودی فارمولے کے تحت یمنی بحران ختم کرانے کیلئے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی تنازعہ کے سیاسی حل تک پہنچنے کے لئے سیاسی مشاورت کا نیا سلسلہ شروع ہوگا‘۔انہوں نے کہا کہ حوثیوں کی جانب سے سعودی فارمولا منظور کرتے ہی جنگ بندی پر عمل درآمد شروع ہوجائے گا‘۔ انکا کہنا ہیکہ’ ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ اور عالمی برادری ، یمنی بحران ختم کرانے میں ساتھ دیں‘۔ حوثیوں کے ناکام حملوں کے خلاف فیصل بن فرحان کا کہنا تھا کہ ہمارا ملک اپنی سرحدوں، شہریوں اور مقیم غیر ملکیوں کو حوثیوں کے حملوں سے تحفظ فراہم کرنے کا پورا حق رکھتا ہے۔انہوں نے کہاکہ ایران کی دخل اندازیاں یمنی بحران کو طول دینے کا اصل سبب ہیں۔وزیر خارجہ نے حوثی ملیشیاپر زور دیاکہ وہ خطے کے امن و استحکام اور یمنی بحران کے خاتمے کے اس اقدام میں شامل ہوں ، انکاکہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ بندوقیں مکمل طور پر خاموش ہوجائیں‘۔ مملکت کے خلاف ایران کی جانب سے حوثیوں کو بھڑکانے اور انکا تعاون کرنے کے تعلق سے انہو ں نے کہا کہ اب حوثیوں پر منحصر ہیکہ وہ یمن کے مفادات کو مقدم رکھتے ہیں یا ایران کے مفادات کو۔ یمن میں قیام امن کے سلسلہ میں عرب اتحاد برائے یمن کے ترجمان بریگیڈیئر ترکی المالکی نے پریس کانفرنس کے موقع پر کہاکہ یمن میں جنگ بندی کا معاملہ تمام متعلقہ فریقوں کی منظوری سے مشروط ہے۔ یمن میں متعین سعودی سفیر محمد آل جابر نے کہا کہ سعودی عرب نے گذشتہ برسوں کے دوران اربوں ڈالر اور تیل کی فراہمی کے ذریعہ یمنی حکومت کی مدد کی ہے۔ سعودی سفیر نے اس بات پر زور دے کر کہا کہ سعودی عرب یمنی وزیر اعظم معین عبدالملک کی قیادت میں یمنی حکومت کی مدد جاری رکھنے کے لئے پرعزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ یمن کی ضرورتیں خواہ وہ اقتصادی ہوں یا بنیادی ڈھانچے سے تعلق رکھتی ہوں پوری کی جائیں گی۔وزیر خارجہ سعودی عرب کے بیان سے دو روز قبل یمن کی حکومت کے ترجمان راجیہ بادی نے کہا کہ حوثی باغی یمن کے بحران کا سیاسی حل نہیں چاہتے بلکہ اس حوالے سے ہر بین الاقوامی کوشش کا جواب ہٹ دھرمی سے دیتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ سفارتکاری کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا کیونکہ حوثی ملیشیا ایسی کوششوں کو مسترد کرتے ہیں۔ترجمان کا کہنا تھا کہ حوثی باغی کشیدگی میں کمی کے بیانات کو کمزوری سے تعبیر کرتے ہیں ۔اب دیکھنا ہیکہ حوثیوں کی جانب سے کس قسم کے ردّعمل کااظہار ہوتا ہے ۔ اگر واقعی یمن کی حکومت اور حوثی باغی ملک میں قیام امن چاہتے ہیں ، ملک سے فاقہ کشی کو دور اور معیشت کو بہتر کرنا چاہتے ہیں تو ملک میں خانہ جنگی کو ختم کرکے بات چیت کے ذریعہ ایسے لائحہ عمل ترتیب دیں جس سے ملک میں قیام امن کی کوششیں کارآمد ثابت ہوں اور عوام چین و سکون کی زندگی گزاریں۔

مغربی ممالک کی چین پر پابندیاں
چین جہاں کمیونسٹ حکومت ہے اور تقریباً 60فیصد آبادی لادین ہے۔ چین کی ایک تہائی آبادی یعنی 33فیصد مختلف اعتقادات کی پیروی کرتی ہے۔ چین کا ایک صوبہ سنکیانگ ہے جس میں ایک اندازے کے مطابق اویغورمسلم برادری کی آبادی ایک کروڑ دس لاکھ بتائی جاتی ہے۔چین کا موجودہ صدر شی جن پنگ ہے جو 14؍ مارچ 2013سے چین پر حکومت کررہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق چین کی جیلوں یا کیمپس میں مسلم اویغور برادری کی سوچ کو زبردستی تبدیل کرنے کوشش کی جارہی ہے۔ لاکھوں افراد کے ذہنوں کو تبدیل کرنے کیلئے انہیں حراست میں لے لیا جاتا ہے اور مرد و خواتین کو خطرناک اذیتیں دی جاتی ہیں۔ مظلوم اویغور مسلم خواتین کے میڈیا کے ذریعہ جو بیانات سامنے آئے ہیں اس سے انسانیت شرمسار ہوجاتی ہے کہ کس طرح خواتین اورنوجوان لڑکیوں کو چینی درندے نا صرف اپنی شیطانیت کے ذریعہ جنسی اذیتیں دیتے ہیں بلکہ انہیں مختلف طریقوں سے خطرناک اذیتیں پہنچائی جاتی ہے ۔لاکھوں مرد و خواتین پر ڈھائے جانے والے ظلم و بربریت کی رپورٹیں جب منظر عام پر آئیں تو عالمی برادری نے چین کے اویغور مسلمانوں پر کی جانے والی ظالمانہ کارروائی کے خلاف آواز اٹھائی ۔ جس پر ابتداء میں چین نے ان خبروں کی تردیدکی لیکن جب بعض سرکاری دستاویزات کا انکشاف ہوا تو چین نے عالمی سطح پر یہ بتانے کی کوشش کی کہ اویغور مسلمان دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ عالمی سطح پر چین کی اصلیت کا جب پتہ چلا تو اسکے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں ۔ چین میں جو کیمپس بنائے جارہے ہیں اس کے اصل کرتا دھرتا موجودہ چینی صدر بتائے جاتے ہیں ۔ عالمی سطح پر جو ردّعمل اب سامنے آرہا ہے اس سلسلہ میں ملاحظہ فرمائیے۔ یورپی یونین برطانیہ، کینیڈا اور امریکہ نے چین کے صوبے مغربی سنکیانگ کے علاقے میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر چین کے چار سینئر عہدیداروں پر پابندیاں عائد کردیں۔ پابندیوں میں عہدیداروں کے اثاثوں کو منجمد کرنا اور ان پر مغربی ممالک کے سفر پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ یورپی شہریوں اور کمپنیوں کو انہیں مالی مدد فراہم کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ 27ممالک پر مشتمل بلاک سنکیانگ پروڈکشن اینڈ کنسٹرکشن کورپس پبلک سیکیوریٹی بیورو کے اثاثوں کو بھی منجمد کرچکا ہے جس میں اس کو سنکیانگ چلانے والی اور اس کی معیشت کو کنٹرول کرنے والی ایک سرکاری معاشی اور نیم فوجی تنظیم کے طور پر بتایا گیا ہے۔برطانوی سکریٹری خارجہ ڈومینک راب کا کہنا ہیکہ یہ اقدامات برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور 27ممالک کی یورپی یونین کی جانب سے ایغور مسلمانوں کے خلاف سنگین انسانی حقوق کی پامالی سے متعلق سامنے آنے والے شواہد کے تحت کارروائی کرنے پر سفارتکاری کا حصہ ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ متحدہ ردعمل نے بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے یا ان کا غلط استعمال کرنے والوں کو ایک مضبوط پیغام بھیج دیا ہے اور ہم مشترکہ شراکت داروں کے ساتھ ہم آہنگی میں مزید اقدامات کریں گے، انہوں نے کہا کہ ہم چین کے جرائم کے فوری خاتمے اور متعدد متاثرین کیلئے انصاف کے حصول کیلئے پوری دنیا میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ ادھر چین نے بھی یورپی یونین اور مغربی ممالک کے اس اقدام کا فوری ردعمل کے طور 10یورپی افراد اور چار اداروں پر پابندیاں عائد کیں اور کہاکہ چین کے مفادات کو نقصان پہنچا ہے اور جھوٹ اور غلط معلومات پھیلائی گئی ہیں۔ ابتدائی طور پر چین نے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کو حراست میں لینے کیلئے کیمپوں کے وجود سے انکار کیا تھاتاہم بعد ازاں اسے انہوں نے ملازمت کی تربیت فراہم کرنے اور بنیاد پرست جہادی نظریے کے حامل افراد کو نئے سرے سے تعلیم دینے کے مراکز کے طور پر بتایا تھا۔ چینی حکام نے وہاں انسانی پامالی کے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ جن دس افراد اور چار اداروں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا چین نے اعلان کیا ہے اس سلسلہ میں کہا کہ انہیں اور ان کے اہل خانہ کو چین ہانگ کانگ یا مکاؤ میں داخل ہونے پر پابندی عائد کی جائے گی اور ان اداروں کے ساتھ مالی معاملات سے بھی انکار کردیا جائے گا۔
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 210829 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.