مریم نواز کے نام کھلا خط

آپ کو یاد ہوگا کہ جب میاں نواز شریف وزیراعظم پاکستان تھے اس وقت پنجاب ، صوبہ سرحد ، سند ھ اور بلوچستان میں بھی مسلم لیگ ن کی حکومت تھی ۔بعد میں ن لیگ سمیٹتی سمیٹتی صرف پنجاب تک محدود ہوگئی اور اب صرف سنٹرل پنجاب اور شمالی پنجاب میں کسی حد تک موجود ہے جبکہ جنوبی پنجاب میں بھی ن لیگ کا صفایا ہوچکا ہے ۔بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کچھ فیصلے انسان کرتے ہیں اور کچھ فیصلے رب کائنات کرتا ہے ۔مجھے یوں دکھائی دیتا ہے کہ آج نہیں تو کل وزارت عظمی کی کرسی آپ کی منتظر ہوگی ۔یہی وجہ ہے کہ ن لیگ کے سوئے ہوئے اور منظر سے غائب ہونے والے رہنما، کارکن اور ووٹرصرف آپ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے میدان سیاست میں ایک بار پھر متحرک نظر آرہے ہیں ۔ڈسکہ ، وزیرآباد اور نوشہرہ کے ضمنی الیکشن میں ن لیگی امیدواروں کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ مستقبل میں آپ اور آپ کی جماعت ایکبار پھر تمام صوبوں میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آرہی ہے ۔ مستقبل میں آپ کو کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیئے، اس جانب آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں-:
-1 سب سے پہلے ان عوامل کا جائزہ لیں کہ صوبہ سرحد (خیبرپختون خواہ ) کے وہ پرانے مسلم لیگی رہنما صابر شاہ ، مہتاب عباسی، اقبال جھگڑا سمیت وہ تمام ایم پی اے اور ایم این اے کیوں اپنے گھروں تک محدود ہوکر خاموش ہیں اور مرکزی قیادت سے ان کے رابطے کیوں منقطع ہوچکے ہیں ۔اپنے والد سے ان کے نام،موبائل نمبر لیکر آپ خود اپنے سنیئرقیادت( میاں شہباز شریف) کی مشاورت کے بعد ان کے گھروں میں جائیں اور ان کو موجودہ سیاسی حالات میں ایکٹو کردار کرنے اور انہیں صوبائی تنظیم سازی میں مناسب عہدوں دے کر مرکزی قیادت کا حصہ بھی بنائیں ۔

-2 جنوبی پنجاب کے وہ مسلم لیگ ن کے ایم پی اے اور ایم این اے جو ہمیشہ اپنے اپنے حلقوں میں کامیاب ہوکر مرکز میں نواز شریف کو سپورٹ کرتے رہے ہیں ان کی دلجوئی کا اس سے بہتر کوئی موقع نہیں ہے ۔آپ کو چاہیئے کہ اولین فرصت میں ایک طوفانی دورہ صرف جنوبی پنجاب کے اضلاع کا کریں اور تہمینہ دولتانہ ، ذوالفقار علی کھوسہ ، لغاری اور مانیکا خاندان کے جتنے سرکردہ لوگ اپنی اپنی سیٹوں پر کامیاب ہوتے رہے ہیں ان کو جا کر ملیں بلکہ جنوبی پنجاب کے تمام اضلاع ( جن میں لودھراں ، خانیوال ، ملتان ، رحیم یار خاں ، بہاولپور، ڈیرہ غازی خاں ، راجن پور، مظفرگڑھ ، لیہ ، بھکر شامل ہیں ) کا فوری طورپر نہ صرف دورہ کرکے وہاں عوام کو یقین دلائیں کہ آپ کی جماعت ہی وہاں کے عوام کے بنیادی مسائل حل کرسکتی ہے ۔ میری ذاتی رائے میں شہباز شریف سے زیادہ جنوبی پنجاب میں اور کوئی کام نہیں کرسکتا ۔ اس لیے متوقع قومی الیکشن سے پہلے جنوبی پنجاب کے ناراض مسلم لیگیوں کو راضی کریں اور ڈویژن، ضلِعی اور تحصیلی سطح ن لیگ کی تنظیم سازی کا فریضہ بھی فوری طور پرانجام دیں ۔ہرضلع کے مسلم لیگی پرائمری یونٹوں کے عہدیداروں کو مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت کے دستخطوں سے شناختی کارڈ جاری کریں اور جنوبی پنجاب کے تمام عہدیداروں سے قریبی رابطہ رکھنا بھی بے حدضروری ہے ۔

-3 چودھری نثار علی خان کا شمار سینئر ترین مسلم لیگی رہنماؤں میں ہوتا ہے انہوں نے ہر نرم گرم موقع پر نواز شریف کا ساتھ دیاہے۔ وہ آجکل ناراض ہیں اگر آپ خود ان کو منانے جاتی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ گھر آئے مہمان کی بات کا بھرم نہ رکھیں ۔اگر پاکستانی سیاست میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو آپ کو ایسے تمام لوگوں کی ضرورت پڑے گی جن کے بل بوتے پر نواز شریف کامیاب وزیراعظم رہے اور ان کی رفاقت میں تاریخ سازی ترقیاتی کام بھی ہے ۔کوئی شخص اکیلا کچھ نہیں ہوتالیکن ایک اور ایک گیا رہ ہو جاتے ہیں ۔

-4 حمزہ شریف آپ کا چھوٹا بھائی ہے اور لیگی لیڈر بھی ۔ ان کو پنجاب کی تحصیل سطح پر تنطیم سازی اور کارکنوں کے کنوینشن کے انعقاد کی ذمہ داری سونپیں ۔یہ کام نواز شریف زیادہ بہتر طریقے سے حمزہ کو تفویض کرسکتے ہیں۔شہباز شریف قومی سطح کے لیڈر ہیں لیکن ان کی گرتی ہوئی صحت زیادہ بھاگ دوڑ کی اجازت نہیں دیتی ۔ اﷲ تعالی نے آپ کو صحت بھی عطا کی ہے اور تقریری ، بیان بازی اور رابطوں کا بہترین سلیقہ بھی عطاکررکھا ہے ۔

-5 آپ کو یا د ہوگا کہ کبھی سند ھ میں سید غوث علی شاہ مسلم لیگی وزیراعلی ہواکرتے تھے ، بھٹو اس وقت بھی قبر میں زندہ تھا لیکن 70فیصد حلقوں میں مسلم لیگی ن کے امیدوار کامیاب ہوکر سندھ اسمبلی میں پہنچے اور قومی اسمبلی میں بھی نواز شریف کو سپورٹ فراہم کرتے تھے ۔اس وقت کوئی منہ پھاڑ کر یہ نہیں کہہ سکتاتھا کہ نواز شریف کی مقبولیت صرف پنجاب تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔لیکن دوسرے صوبوں کے لیگی رہنماؤں سے رابطے بحال نہ ہونے کی بنا پر آج مخالفین یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ مسلم لیگ ن صرف پنجاب بلکہ سنٹرل پنجاب تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔ اس خامی کو فوری طور پر دور کرنے کی ضرورت ہے ۔

-6 آپ کو یاد ہوگا کہ 2013کے الیکشن کے بعد بلوچستان میں بھی مسلم لیگ ن حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھی لیکن نواز شریف نے وسیع تر مفاد کی بنیاد پر ڈاکٹر عبدالمالک کو آدھی مدت کے لیے وزیراعلی بلوچستان بنوا دیا ۔آدھی مدت گزرنے کے بعد ثنا اﷲ زہری کی قیاد ت میں مسلم لیگ ن نے وزارت اعلی کا حلف اٹھایا لیکن مسلم لیگ کے مرکزی قائدین کی عدم توجہی کی بنا پر بلوچستان میں ثنا اﷲ زہری کی حکومت وقت سے پہلے ہی ختم ہوگئی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2018ء کے الیکشن میں بلوچستان سے مسلم لیگ ن کا مکمل صفایا ہوگیا ۔سابق کورکمانڈر کوئٹہ عبدالقادر بلوچ جو ہر مسلم لیگی دور میں وفاقی وزیر رہے ہیں اس بار وہ بھی ناراض ہوچکے ہیں ۔یعقوب خاں کو بھی مرکزی قیادت میں کوئی عہدہ نہ ملنے کی بناپر وہ بھی اپنے گھرتک محدود ہوکر رہ گئے ۔ظفراﷲ جمالی بھی نواز شریف کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے اگرچہ وہ فوت ہوچکے ہیں لیکن ان کے خاندان کے لوگ تو زندہ ہیں جن کا اثرو رسوخ اپنے قومی اور صوبائی حلقوں میں موجود ہے۔ان سے بھی رابطہ قائم کیا جائے تو یقینی طورپر بلوچستان میں ن لیگ مقبول بنایا جاسکتا ہے ۔

-7 بلوچستان کے ناراض لوگوں کو منانے اور وہاں کی ازسرنو تنظیم سازی کی اشد ضرورت ہے ،اور مرکزی عہدوں پر بھی بلوچستان ، خیبرپختون خوا، سندھ کو زیادہ سے زیادہ نمائندگی دی جائے اور کور کمیٹی میں چاروں صوبوں، قبائلی علاقوں بلکہ گلگت بلتستان کے نمائندوں کو بھی شامل کرنا بہت ضروری ہے ۔

-8 پنجاب میں اکثریت ہونے کے باوجود حکومت نہ بنائی جاسکی کہ مسلم لیگ ن کے کسی ذمہ دار نے آزاد امیدواروں کو اپنی جماعت میں شامل کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ۔ جنوبی پنجاب کو اپنی حکمت عملی سے کلی طور پر بلیک آؤٹ کردیا گیا اور اس کے نتیجے میں تمام سرکاری، حکومتی اور انتظامی آفتوں کا رخ مسلم لیگ ن کی جانب ہو گیا۔

-9 افسوس سے کہناپڑتا کہ اس وقت مسلم لیگ ن کے مرکزی صدر میاں شہباز شریف ہیں ، سینئر نائب صدرشاہد خاقان عباسی ، نائب صدر مریم نواز (آپ) اور جنرل سیکرٹری احسن اقبال ہیں ۔ان تمام عہدیداروں کا تعلق سنٹرل پنجاب سے ہے ، بلوچستان ، کے پی کے ، سندھ اور جنوبی پنجاب سے مرکزی عہدیداروں میں کوئی مسلم لیگی شامل نہیں ہے ۔ مخالفین صحیح کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن اب صرف پنجاب بلکہ سنٹرل پنجاب کی پارٹی بن کر رہ گئی اس کا وجود باقی صوبوں میں نہ ہونے کے برابر ہے ۔اس لیے اسے اب قومی جماعت نہیں کہا جاسکتا ۔یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر مستقبل میں آپ کا قومی قیادت سنبھالنے کا واقعی ارادہ ہے تو نواز شریف سے چاروں صوبوں کے مسلم لیگی رہنماؤں ، سابق ایم پی ایز اور ایم این ایز کے نام لے کر ان سے براہ راست آپ خود رابطہ کریں اور ان کو قومی دھارے میں لائیں ۔ مسلم لیگ ن کا اگر صدر پنجاب سے ہے تو سینئر نائب صدر خیبرپختون خوا سے یا سندھ سے ہونا چاہئے۔اگر جنرل سیکرٹری سندھ یا کے پی کے سے ہے تو ڈپٹی جنرل سیکرٹری بلوچستان سے ہونا چاہیے ۔میری رائے کے مطابق پانچوں صوبوں سے ایک ایک رہنما کو اضافی طور پر نائب صدر کا عہدہ دیا جائے اور وہ تمام رہنما مرکزی کورکمیٹی کے ممبر بھی ہوں ۔بلکہ پانچوں صوبوں (بشمول گلگت بلتستان)کے صوبائی جنرل سیکرٹری اورصوبائی صدور بھی کورکمیٹی میں شامل کیے جائیں ۔متوقع الیکشن سے پہلے قومی اسمبلی کے تمام حلقوں سے امیدواروں کی سلیکشن مرکزی کور کمیٹی کرے جس میں ہر صوبے کے صدر ، جنرل سیکرٹری اور دیگر عہدیداروں کی سفارش اور توثیق بھی شامل ہو۔

-10 سردست آپ کو استعفوں سے اجتناب ہی کرنا چاہیئے۔کیونکہ اس آپ خود کو اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کی نمائندہ اس لیے کہتی ہیں کہ قومی اسمبلی میں آپ کی پارٹی کے ممبران پیپلز پارٹی سے زیادہ ہیں اگر سب مستعفی ہوجاتے ہیں تو آپ کے پاس حکومت پر دباؤ ڈالنے اور پیپلز پارٹی کو اپنی اوقات میں رکھنے کے لیے کوئی چیز نہیں رہے گی ۔ پیپلز پارٹی کو اس کی اوقات میں رکھنے اورحکومت پر دباؤ بڑھانے کے ساتھ ساتھ اسمبلیوں میں آپکی پارٹی کا وجود ہر حال میں ضروری ہے۔

-11 میرے حساب سے آپ کے پاس پانچ ڈائریاں ہونے چاہیئں جن میں ہر صوبے کے صدر جنرل سیکرٹری سمیت ہریونین کونسل کی پرائمری مسلم لیگ کے عہدیداروں کے رابطہ موبائل نمبر ۔گھروں کے ایڈریس، ای میل اور واٹس اپ نمبر درج ہوں ۔آپ اپنی سرپرستی میں جاتی عمرہ میں ایک تنظیمی سیل بنائیں جو پورے پاکستان کے صوبائی اور قومی اسمبلی کے سابق امیدواروں اور کامیاب ہونے والوں کا ریکارڈ بھی رکھے اور ملک بھر کے یونین کونسل سطح کے پرائمری یونٹوں کے عہدیداروں سے ان کا رابطہ بھی رہے ۔ دن میں اگر آپ براہ راست خود چند مسلم لیگی رہنماؤں سے ان کے موبائل نمبرپر اپنے معاون کے ذریعے کال کرکے بات کرتی ہیں تو ہر عہدیدار اپنی طاقت سے زیادہ پارٹی کے لیے کام کرنے کو تیا ر ملے گا ۔بشرطیکہ پارٹی کا ہر عہدیدار آپ سے براہ راست بات کرسکتا ہو۔

-12 اب ہم آتے ہیں ان مسائل کی جانب جن کی وجہ سے موجودہ حکومت ناکام نظر آرہی ہے ،آپ شیڈو کابینہ بنائیں۔ ان کے ماتحت ہر شعبے سے ریٹائر ہونے والے ماہرین پر مشتمل تھنک ٹینک بنائیں ۔ مثلا بجلی کو کیسے سستا کیا جاسکتا ہے ، بجلی کے ترسیلی اخراجات کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے ، زراعت کو ترقی دینے اور مجموعی قومی پیداوار بڑھانے کے لیے کیا اور کیسے اقدامات کیے جاسکتے ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر کو آزاد کیسے کرایاجاسکتا ہے ؟،ساری قوم کی علاج معالجے کی سہولتیں کیسے فراہم کی جاسکتی ہیں ؟کونسی انڈسٹریز کتنی مقدار میں اور کس علاقے میں لگائی جا سکتی ہے ۔ سڑکیں اور عمارتیں چند سالوں بعد ہی کیوں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے ۔پٹرول اور دیگرمصنوعات کی قیمتوں کو کم اور سپلائی کو کیسے برقرار رکھا جاسکتا ہے۔انتظامی اور ٹھیکداری نظام میں کیا اصلاحات کی جا سکتی ہیں ۔؟تعلیمی شعبے کو کس طرح جدید خطوط میں استوار کیا جاسکتا ہے ۔کس طرح یکساں تعلیمی نظام قائم کیا جاسکتا ہے ، ترقی یافتہ ممالک نے کن خطوط پر تعلیم نظام کو استوار کیا کہ وہاں کامیاب انجینئر، استاد ، ڈاکٹر ، سائنس دان پیدا ہورہے ہیں۔عوام کی کس طرح سستی اور بغیر کسی تعطل کے بجلی کیسے فراہم کی جاسکتی ہے ۔سوئی گیس کی قیمتوں کو کیسے کنڑول میں رکھا جاسکتا ہے اور سردیوں اور گرمیوں میں کیسے گیس کی سپلائی برقرار رکھی جاسکتی ہے۔اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں کو کیسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے ۔سرکاری ہسپتالوں میں وہ طبی سہولتیں کیوں فراہم نہیں کی جا سکتیں جو پرائیویٹ ہسپتالوں میں موجود ہیں ۔؟پنشن اگرسرکاری ملازمین کو ملتی ہے تو دوسرے ملازمین کو کیوں اتنی نہیں ملتی ۔؟ اس حوالے سے بھی ایک یکساں نظام کی ضرورت ہے ۔ حتی کے پاکستانی قوم کو درپیش ان تمام مسائل کا حل ہر شعبے کے تھنک ٹینک بنا کر تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔حکومت ملتے ہی آپ کی منصوبہ بندی مکمل تیار ہواور آپ پہلے ہی مہینے اپنی منصوبہ بندی پر عمل درآمد شروع کردیں ۔ہوم ورک نہ ہونے کی بنا پر عمران خان کو نہ صرف گالیاں دے رہے ہیں بلکہ بددعائیں بھی دی جاتی ہیں

-13 پیپلزپارٹی نہ پہلے قابل اعتبار تھی اور نہ اب ہے ۔ لیکن مصلحت کی خاطر پیپلز پارٹی کی اعلانیہ مخالفت مول نہ لیں اور جتنی جلدی ممکن ہوسکے سندھ میں تحصیل سطح پر مسلم لیگ ن کی تنظیم سازی مکمل کرکے وہاں کے سیاسی خاندانوں سے ذاتی روابط استوار کریں اور سندھ کے ہرضلع میں جلسہ بھی کریں ۔تاکہ سندھی عوام کو پیپلز پارٹی کے چنگل سے آزاد کرایاجائے۔

-14 مولانا فضل الرحمن کی جماعت مسلم لیگ ن کو بلوچستان اور خیبرپختون خوا سمیت قبائلی علاقوں میں قدم جمانے کے لیے سپورٹ دے سکتی ہے لیکن پنجاب میں جماعت اسلامی کی اگر سیٹ ایڈجسٹ منٹ ہوجائے تو پنجاب پہلے سے کہیں زیادہ کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے ۔حال ہی میں بلاول کراچی سے چل کر منصورہ پہنچ گیا اور امیر جماعت اسلامی سے سینٹ کے ووٹ کے ساتھ قومی الیکشن میں تعاون حاصل کرنے کی بات بھی کرگیا لیکن چند قدموں کے فاصلے آپ منصورہ نہیں جا سکیں اور نہ ہی آپ نے اے این پی اور اختر مینگل کو فون کر سینٹ میں مسلم لیگی امیدوارکے لیے ووٹ مانگا اگر آپ ذاتی طور پر بات کرتیں تو نتائج مختلف ہوتے۔

جاتی عمرہ میں ایک میڈیا سیل بھی بنائیں جہاں پاکستان میں شائع ہونے والے تمام اردو اور انگلش اخبارا ت اور رسائل روزانہ کی بنیاد پر آئیں اگر ممکن ہوسکے تو روزنامہ پاکستان ، جنگ ، دنیا ، ایکسپریس اور نوائے وقت کے ادارتی صفحات پر شائع ہونے والے اہم ترین کالموں کو آپ خود بھی پڑھ لیا کریں اور ریکارڈ بھی رکھ لیا کریں ۔ مزید تمام اہم ترین کالم نگاروں کے موبائل نمبر آپ کے پاس ہونے چاہیئں ۔ہفتے میں ایک دو بار ان کے ساتھ آپ کی ملاقات از حد ضروری ہے ۔

آخر میں پنجاب کے بلدیاتی اداروں کی بحالی کی مبارک باد قبول فرمائیں۔

 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 663353 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.