دیہاڑی باز پاکستانی سیاست دان

شیخ سعدی ؒ کہتے ہیں کہ ایک باروہ شہر’’دیاربکر‘‘ میں ایک بڈھے کے مہمان تھے جس کے پاس بے انتہا دولت تھی۔اُس کا ایک خوبصورت لڑکا بھی تھاجس سے اس کا باپ بے پناہ محبت کرتا تھا۔ایک رات وہ امیر بڈھاآدمی کہنے لگا میں آپ کو ایک دلچسپ بات بتاتا ہوں کہ میرے شہر کے ساتھ جنگل میں ایک درخت تھا جو درختوں میں اضافہ کی وجہ سے کہیں گُم ہو گیا ہے۔ارد گرد کی آبادی اس درخت کو مبارک سمجھتے ہوئے مرادیں مانگنے وہاں جاتے تھے۔میری کوئی اُولاد نہ تھی چنانچہ میں بھی اس غرض سے وہاں گیا۔میں نے کئی راتیں اس درخت کے پاس بیٹھ کرخُدا کے حضور ُروتے ہوئے گزاری، تب کہیں جا کر میری مُراد پوری ہوئی اور مجھے یہ فرزند نصیب ہوا۔شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ میں نے اگلے دن لوگوں سے سُنا کہ وہ خوبصورت لڑکا اپنے دُوستوں سے چپکے چپکے سے کہتا ہے’’ اے کاش! مجھے اُس درخت کا علم ہو تاتو میں وہاں جا کر دُعا کرتا کہ اس بڈھے سے میری جان جلد چھوٹ جائے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت اور صلاحیتیں دے کر پیدا کیا‘‘۔ اﷲ تعالیٰ کا ملائکہ کی محفل میں یہ فرمانا’’میں کرہ ارض میں اپنا نائب مقرر کرنے والا ہوں‘‘ اس بات کا ثبوت ہے کہ جو ہستی زمین پر خُدا کی خلافت کے مقام پر متمکن ہونے والی ہے اُس کی عظمت و اہمیت میں قطعاً کوئی شبہ نہیں ہو سکتا ۔افسوس! آج کا انسان اپنے مقصد حیات کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اگرچہ انسان نے صدیوں سے دنیا کو تسخیر کرنے کا سفر جاری رکھتے ہوئے چند کامیابیاں ضرور سمیٹی ہیں اُس نے ہوائی جہاز بنا کر خلاؤں کو مسخر کر لیا،بحری جہاز بنا کر سمندروں کا سینہ چیر ڈالا،فلک بوس عمارتیں اور مینار کھڑے کر دئیے اور آسمان کی بلندیوں کو چھو لیا، مہلک امراض کا علاج دریافت کر کے موت کو کچھ عرصے تک ٹال دیا،بجلی سے چلنے والے کارخانے بنا ڈالے اور انسانی زندگی میں آسانیاں فراہم کرنے کی ان گنت اشیاء کی لائن لگا دی۔مگر افسوس ہیکہ اس ساری جدوجہد میں انسانیت کی متاع عظیم کو اُس کی عظمتوں اور خوبیوں کے ساتھ شیطانیت اور حیوانیت کی چوکھٹ پر قربان کر دیا اور افسوس اس کا ملال تک نہ ہوا۔
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں اُلجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا

چند دن سے ہمارے مُلک کی سیاست میں ایک نیا رنگ غالب آگیا ہے ۔سینٹ کے الیکشن سے شروع ہونے والا ڈرامہ اب اپنے پورے عروج پر ہے ایک سیاسی اتحاد کی باہمی تفریق نے انسان کے مقصد تخلیق اور مقصد حیات کے ساتھ ساتھ انسانیت سے متعلق بہت سے بھولے ہوئے سوالات کو دوبارہ جنم دیا ہے۔ مُلکی سیاست میں ایک بھونچال کی سی کیفیت ہے چنانچہ بلدیاتی اداروں کی بحالی ،سٹیٹ بینک کی خود مختاری اور بلاول کی جانب سے تخت پنجاب میں تبدیلی کے اعلان کے بعد سے کچھ سیاسی بغل بچے اپنی بغلوں میں اور کچھ دوسروں کے گریبانوں میں جھانک رہے ہیں۔تاک جھانک کے اس دلچسپ کھیل میں بارہویں کھلاڑی بھی جاگ گئے ہیں اور اب وہ صرف پانی پلانے کی ذمہ داری تک محدود نہیں رہنا چاہتے کیونکہ اُن کے دلوں میں مُلک و قوم کا درد اچانک شدت اختیار کر گیا ہے اورموقعہ کی نزاکت دیکھتے ہوئے یہ’’ریزرو پلیئر‘‘ اور’’ریلو کٹّے‘‘ اپنی قیمت بڑھانا چاہتے ہیں۔ پی ڈی ایم جماعتوں کے موجودہ فیصلے اور اُن کے اثرات ابھی تک ایک معمہ ہیں جو شائد وقت کے گزرنے کے بعد ہی حل ہو سکے گا ۔لیکن ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ جس نے لُوٹا وہ بھاگ رہا ہے،گرج رہا ہے اور آنکھیں دکھا رہا ہے مگر جن کو لُوٹا گیا وہ غلامی کا طوق گلے میں ڈالے بھنگڑے ڈال رہے ہیں لیکن یاد رہے کہ اس طرح تو نیا پاکستان نہیں بنے گا۔
 
اس موقع پرپاکستانی معاشرے کے حوالے سے چند سوالات بہت اہم ہیں،کیا ہم ایک انسانی معاشرہ میں ر ہ رہے ہیں؟کیا ہمارا معاشرہ انصاف پر قائم ہے؟کیا امیر اور غریب کے لیے قانون اور اخلاقیات ایک جیسی اہم ہیں؟کیا عدل کے پیمانے سب کے لیے برابر ہیں؟کیا مہنگائی پر قابو پا لیا گیا ہے؟کیا عوام کو بنیادی سہولیات کی دستیابی ممکن بنا دی گئی ہے؟کیا کرپشن پر قابو پا لیا گیا ہے؟کیا فوری انصاف کا حصول ممکن ہو گیا ہے؟کیا مجرم کے مرتبہ اور عہدے کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر سزا دی جاتی ہے؟کیا شرجیل میمن کی شراب،شہد تھی؟کیا لاڑکانہ میں کتّے کی ویکسین دستیاب کروادی گئی ہے؟ کیا پی ٹی وی پر حملہ کرنے والے اپنے انجام کو پہنچ گئے؟کیا سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والے سلاخوں کے پیچھے گئے؟کیا سینٹ میں ووٹ خریدنے اور بیچنے والوں کے خلاف قانون حرکت میں آیا؟کیا عورت مارچ کو حکومتی سرپرستی حاصل تھی؟کیا معصوم بچیوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کا احتساب کر لیا گیا؟ کیا سانحہ ساہیوال کے لواحقین کو انصاف مل گیا ہے؟کیا سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا ہے؟کیا دھرنے کے فتنے کو سجانے والے بے نقاب ہوگئے؟کیا کشمالہ طارق کے قاتل بیٹے کا کیس اور دیگر کیسز قصاص کی نظر ہوتے رہیں گے؟کیا مُلکی سلامتی کے اداروں کے خلاف بولنے والے جیل پہنچ گئے؟کیا پاکستانی قانون امیر کے گھر کی لونڈی جبکہ غریب کے لیے عذاب ہے ؟کیا ڈیل اور ڈھیل کی بات کرنے والے سچے تھے؟۔ کیا پاکستان میں عام آدمی یونہی دھکے کھاتا رہے گا اور امیر سب لُوٹ کر لے جائے گا؟۔
 

Imran Amin
About the Author: Imran Amin Read More Articles by Imran Amin: 49 Articles with 30458 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.