جب بھی کبھی کسی کام کو انجام دینے کی بات کی جاتی ہے اور
قوم وملت کے مسائل پر گفتگو ہوتی ہے تو قوم میں ایک آواز اٹھ جاتی ہے کہ
سب کو مل کر کام کرنا ہوگا،مسلک ومکتب کو چھوڑ کر ایک پلاٹ فارم پر
آناہوگا،سب کو ایک بیانر کے تلے جمع ہونا ہوگا،لیکن جہاں تک ہمارا نظریہ
ہے کہ ہم نہیں مانتے کہ کسی کام کو انجام دینے کیلئے ایک بیانر تلے ہوکر
کام کرنا ہوگا،بلکہ ایک مقصد کو پورا کرنے کیلئے الگ الگ طریقے سے کام کرنا
ہوگا۔مسلمانوں میں یہ ذہنی طور پر بات پکی ہوچکی ہے کہ قیامت تک مسلمان73
فرقوں میں بٹتے رہیں گے اور اس میں ایک فرقہ جنتی رہے گا۔اسی طرح سے الگ
الگ مکتب فکر،الگ الگ سلسلے اور الگ الگ شجرے رکھنے والے مسلمان کیسے اپنے
اختلافات کو چھوڑ کر ایک ہوسکتے ہیں۔لیکن تمام مسلمان ایک مقصد کو پورا
کرنے کیلئے اپنے اپنے طریقے سے جدوجہد کرسکتے ہیں ،بشرطیکہ وہ ایک دوسرے کی
ٹانگ کھینچنا بند کریں اور ایک دوسرے پر الزام تراشیاں نہ کریں۔بھارت میں
مغلوںکی آمد سے پہلے ہندو دھرم کا کوئی وجود ہی نہیں تھا،کئی ڈرایوڈینس
تھے تو کہیں آرینس تھے،کہیں شودھر اور ہریجن تھے تو کہیں برہمن و شتریہ
مذہب کے ماننے والے لوگ تھے۔جب ہندوستان میں مغلوں کی حکومت کے بعد
انگریزوں کی حکومت آئی تو اُس وقت ان الگ الگ ذاتوں کے لوگوں نےاپنے آپ
کو ہندوبنالیا اور ملک کو ہندوراشٹر میں تبدیل کرنے کیلئے کوششیں شروع
کیں۔آج وہ لوگ بھلے ہی ایک دوسرے کے نہیں باوجود اس کے ہندو راشٹرکے نام
پر ایک ہوتے جارہے ہیں۔لیکن مسلمانوں کی بات کی جائے تو اتحادِ ملت کے نا م
پر بڑے بڑے جلسے منعقد کئے جاتے ہیں،لیکن یہ جلسے محض چند ملّی قائدین تک
محدود رہتے ہیں جو بات عام لوگوں کے دلوں میں پہنچنی ہے وہ بات نہیں پہنچتی
بلکہ وہ اسٹیج کے ساتھ ہی اتحاد کی بات ختم ہوجاتی ہے۔میں یہ کہونگاکہ ایک
دوسرے میں اتحاد نہ صحیح لیکن ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا چھوڑ دیں۔وہ اُن
کے مسلک میں رہ کر قو م کی بھلائی کا کام کریں،تم اپنے مسلک میں رہ کر کام
کرو۔اب1450 سال بعد ہم اتحاد کا پرچم لئے گھومتے رہیں گے تو اس پرچم کے
ماتحت آنے کیلئے کوئی تیار نہیں،بس جس کے ہاتھ سے جو کام ہوتاجائے وہ کام
کرتے رہیں۔خدمت خلق کی بات کریں تو مسلمانوں کی نمائندگی صفر (0)ہے،تعلیمی
کے میدان کی بات کی جائے تو وہاں پر ہماری نمائندگی صفر(0)ہے،صحت کے معاملے
میں ہماری بیداری کہاں تک ہے اگراس کا جائزہ لیا جائے تو وہاں پربھی ہماری
نمائندگی صفر(0) ہے۔ہر طرف ہماری قیادت صفر یعنی زیرو ہے،باوجود اس کے ہم
آج تک اس بات کا فیصلہ نہیں کرپائے ہیں کہ ہمیں کس مقصدکیلئے کام
کرناہے۔تعلیم کابٹوارا کرلیا،مسجدوں کا بٹوارا کرلیا،ہر بات کو بٹواراکرلیا
لیکن اتحادکی بات کہیں بھی نہیں ہے۔اب اتحاداتحادکے راگ کو چھوڑ کر کام کی
طرف آگے بڑھیں۔جب کام شروع ہوجائیگا توکاروان خودبخود بڑھنے لگے گا،لوگوں
میں شعور آئیگاکہ کیا کام کرناہے اور کیا ضرورت ہے۔گلیوں میں جا کردیکھیں
کہ آج بھی کس طرح سے مسلمانوں کی حالت زار ہے،کتنے بچے تعلیم کے میدان میں
پیچھے ہیں،کتنےبچے آج بھی بچہ مزدوری میں ملوث ہیں،آج بھی کتنی خواتین بے
بس و لاچارہیں،جب ان چیزوں کااحساس ہوگاتو خود بخود لوگ متحد ہوکر کام کرنے
لگیں گے۔پچھلے سال جب کوروناکی وباء پھیلی تھی اُس وقت مسلمانوںنے کس طرح
سے کام کیاتھا،یہ سب جانتے ہیںکہ ان میں کسی بھی طرح نااتفاقی نہیں
تھی،مسلمانوں کے سامنے درپیش مسائل کو حل کرنے کیلئے مسلمان خودبخود متحد
ہوچکے تھے ،تو ایسے میں کیونکر اتحادکے نام پر بھاگم بھاگ کرتے ہوئے جلسوں
کا اہتمام کرتے رہیں۔ہماری نظر میں اس طرح کے جلسے محض چند لوگوں کی
خوشنودی کیلئے ہیںنہ کہ عملی طور پر اس سے کچھ کام ہوسکتاہے۔
|