عبدالمجید پرویں رقم 1901ء کو ایمن آبا د ضلع
گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے ۔آپ کے خاندان میں پشت در پشت سلسلہ خطاطی چلا آ
رہاتھا ۔آپ کا سلسلہ نسب سات واسطوں سے مولوی حافظ محمد عارف خوشنویس عہد
مغلیہ سے جا ملتا ہے۔اس خاندان کے بعض خطاطوں کو مغل شہزادوں کے معلم ہونے
کا اعزاز بھی حاصل تھا۔اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں اسی خاندان کے خطاط،
حافظ ہدایت اﷲ نے اپنے فن کا لوہا منوایا اور زریں رقم کے لقب سے شہرت پائی
۔عبد المجید پرویں رقم نے بھی اس فن کا خاطر اپنی زندگی وقف کردی ۔خطاطی کی
ابتدائی تعلیم ایمن آباد ہی میں حافظ خلیفہ نور احمد سے حاصل کی۔
بعد ازاں آپ لاہور تشریف لے آئے ۔لاہور میں آپ کی ملاقات شفاء الملک حکیم
فقیرمحمد چشتی سے ہوئی ۔حکیم صاحب خود بھی ماہر خطاط ہونے کے علاوہ مختلف
خطوط کے اسرار ورموز سے واقف تھے، حکیم صاحب ہی کے صائب مشوروں سے پرویں
رقم نے حروف کی ساخت اور الفاظ کو پیوندوں کی پرداخت میں نہایت حسین ترامیم
کیں ۔آپ نے ایرانی نستعلیق میں جدت پیدا کی اور حروف ابجد کی ساخت ،
پیوندوں ، دائروں اور کشتوں میں خوبصورتی پیدا کی۔پہلے حروف کے دائرے شمسی
ہوا کرتے تھے آپ نے انہیں بیضوی کردیا جس سے ان کے حسن میں بے حد اضافہ
ہوگیا۔اس طرح طرز نستعلیق قبول عام ہوا۔پرویں رقم نے نہ صرف حروف و الفاظ
کی ظاہری شکل وصورت کا بہترین میعار پیش کیا بلکہ سطر میں الفاظ کی نشست کا
بھی نہایت اعلی میعار پیش کیا۔تحریر کی اس خوبی کی وجہ سے آپ کم جگہ میں
زیادہ سے زیادہ مواد لکھنے پر قادرتھے۔آپ کو پرویں رقم کا خطاب معروف عالم
دین و محقق مولاناغلام رسول مہر نے 1928ء میں عطا کیا تھا۔اسی سال آپ نے
قدیم روش نستعلیق ترک کرکے جدید روش اختیار کی۔شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد
اقبال نے اپنی کتابوں کی کتابت کے لیے پرویں رقم کی خدمات حاصل کیں۔اس وقت
پرویں رقم کی عمر محض اٹھارہ برس تھی ۔اس چھوٹی عمر میں بھی آپ ایرانی طرز
نستعلیق خوبصورت لکھتے تھے اور علامہ اقبال آپ کی کتابت کو بہت زیادہ پسند
کرتے تھے ۔ایک بار انہوں نے معذرت کرلیتو علامہ محمد اقبال نے کہا کہ اگر
انہوں نے ان کے کلام کی کتابت سے ہاتھ کھینچ لیا تو وہ شعر کہنے چھوڑ دیں
گے ۔کلام اقبال کے علاوہ دیوان گرامی ،رباعیات گرامی ، خمکدہ خیام آپ کے فن
کی یادگار ہیں ۔جن معروف اخبارات کے ٹائٹل انہوں نے تیار کیے ان میں لاہور
کے نوائے وقت ،انقلاب ،سیاست ،پرتاب ،عالمگیر،شاہکار،اورئنٹل کالج میگزین ،صوفی
، قوس قزح ،ساربان اور اشاعت اسلام وغیرہ کی پیشانی پرآپ کا خوبصورت خط آپ
کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔عبدالمجید پرویں رقم کے بیٹے ا قبال ابن پرویں
رقم نے بھی خطاطی کے میدان میں بہت شہرت حاصل کی ۔مزار اقبال کی اندرونی
چھت پر خوبصور ت خط نستعلیق میں علامہ اقبال کی فارسی غزل کے کتبات اور
مینارپاکستان پر کندہ علامہ اقبال کی نظم "لاالہ الا اﷲ "ان کے فن کا
شاہکار نمونہ ہیں۔نامور محقق محمد عالم مختار حق نے پرویں رقم کی کتابت
کردہ کتب ،سرورق ،اشتہارات ،پتھروں پر کام وغیرہ کی بڑی عرق ریزی سے فہرست
بہ عنوان "نوادر پرویں رقم " تیار کی ہے ۔آسمان خطاطی کا یہ روشن آفتاب
4اپریل 1946ء کو اس دنیا سے رخصت ہوا ۔آپ کی آخری آرام گاہ قبرستان میانی
صاحب میں واقع ہے ۔
|