یہ1971ء کی بات ہے جب عراق کے پہاڑوں میں برطانوی جنرل
سٹانلی ماودے کا ایک چرواہے سے سامنا ہوا ۔ جنرل چرواہے کی طرف متوجہ ہوا
اور اپنے مترجم سے کہا کہ ہوگا۔ کتاچرواہے کیلئے بہت اہم ہوتا ہے ۔ یہ اسکی
بکریاں چرواتا ہے دور گئے ریورڈ کو واپس لاتا ہے ۔ درندوں کے حملے سے ریوڑ
کی حفاظت کرتا ہے ۔ لیکن پاؤنڈ کی مالیت تو آدھے ریوڑ سے بھی زیادہ بنتی
تھی ۔ چرواہے نے یہ سوچا کہ پاؤنڈلے لینا چاہیے ۔ اس کے چہرے پر لالچی
مسکراہٹ پھیل گئی ۔ اس نے کتا پکڑا اور جنرل کے قدموں میں ذبح کردیا۔ جنرل
نے کہا کہ تم اسکی کھال بھی اتار دو ۔میں تمہیں ایک اور پاؤنڈ دینے کو تیار
ہوں۔چروا ہے نے خوشی خوشی کتے کی کھال بھی اتار دی۔جنرل نے کہا کہ میں مزید
ایک اور پاؤنڈ دینے کو تیار ہوں ۔ اگر تم اس کی بوٹیاں بھی بنا دو ۔چرواہے
نے فوراً یہ بھی آخر قبول کرلی ۔ جنرل چرواہے کی آواز سنائی دی ۔ وہ پیچھے
پیچھے آرہاتھا اورکہہ رہاتھا جنرل اگر میں کتے کو گوشت کھا لوں تو آپ مجھے
ایک اورپاؤنڈ دو گے ؟ جنرل نے انکار میں سر ہلا دیا کہ میں صرف تمہاری
نفیسات اور اوقات دیکھنا چاہتا تھا ۔ تم نے صرف تین پاؤنڈ کیلئے اپنے محافظ
اوردوست کو ذبح کر دیا ۔ اسکی کھال اتار دی ۔ اسکے ٹکڑے کر دئیے اور چوتھے
پاؤنڈ کیلئے اسے کھانے کیلئے بھی تیار ہو اور یہی چیز مجھے یہاں چاہیے ۔
پھر جنرل اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوئے کہ اس قوم کے لوگوں کی سوچیں یہ ہیں
۔لہذا تمہیں ان سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ آض یہی حال مسلم ملکوں
اور معاشروں کا ہے ۔ اپنی چھوٹی سی مصلحت اور ضرورت کیلئے اپنی سب سے قیمتی
اور اہم چیز کا سودا کر دیتے ہیں اور یہ وہ ہتھیار ہے جسے ہر استعمار ،ہر
قابض ،ہر شاطر دشمن ہمارے خلاف استعمال کر رہا ہے ۔ اسی کے ذریعے اس نے
حکومت کی اور اسی کے ذریعے ملکوں کو لوٹا ہے ۔ آج ہمارے درمیان ہمارے ملکوں
کتنے ہی چرواہے ہیں جو نہ صرف کتے کا گوشت کھانے کیلئے تیارہیں بلکہ اپنے
وطن بھائیوں کا گو شت کھا رہے ہیں ۔ اور چند ٹکوں کے عوض اپنا وطن بیچ رہے
ہیں ۔
اجامو ایک غریب شخص کا اکلوتا بیٹا تھا ۔ 17سال کی عمر میں قتل کا الزام
لگااور عمر قید کی سزا ہوئی ۔40سال جیل میں کاٹنے کے بعد ایک دن اجامو کو
یہ کہتے ہوئے بری کر دیا کہ یہ بیگناہ ہے ۔اجامو کمکرہ عدالت میں جج کے
سامنے بیٹھا تھا ۔ جج نے اُن کے آگے ایک خالی ورقہ رکھا اور ان سے کہہ دیا
کہ ان 40سالوں کے بدلے اس کاغذ پر جتنی چاہیں رقم لکھ دیں ۔ ریاست آپکو
فوری ادا کرلے گی ۔ جانتے ہو اجامو نے کیا لکھا ؟ اجامو نے صرف ایک جملہ
لکھا کہ جج صاحب اس قانون پر نظر ثانی کیجئے ۔تاکہ کسی اور اجامو کی زندگی
کے 40سال ضائع نہ ہوں ۔ اس کے بعد وہ رو پڑے ۔اسکے ساتھ کمرہ عدالت میں
موجود حاضرین کی آنکھیں بھی اشکبار تھیں ۔اجامو کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔
ہمارے ہاں کتنے ہی اجامو ہیں جو جیل میں زندگی گزار کر مر جاتے ہیں ۔وہیں
کہیں دفن ہو تے ہیں اوراس کے کئی سال بعدعدالت انکو بے گناہ قرار دیتے ہے ۔
ہمارے ملک پاکستان کاقانون اندھا ہی نہیں ۔گونگا ،بہرہ بھی ہے ۔ سید رسول
کو جب لاہور ہائی کورٹ نے قتل کیس میں بری کیا تو پتہ چلا کہ وہ تو 2سال
پہلے ہی جیل میں انتقال کر گئے ہیں ۔ جب مظہر حسین کو19سال بعد قتل کیس میں
سپریم کورٹ نے بری کیا تو معزز عدالت کو بتایا گیا کہ وہ 2سال پہلے جیل میں
ہی وفات پاچکے ہیں ۔ رحیم یارخان کے دو سکے بھائیوں کی پھانسی چڑھائے جانے
کے بعد عدالت عظمیٰ نے بے گناہ قرار دے کر بری کر دیا تھا ۔ کاش !کہ ہمارے
کسی حکمران ،کسی جنرل ،قانون کے کوٹھے میں بیٹھے کسی منصف کو جیل میں اپنی
زندگی فنا کرنے والے کسی سید رسول ،مظہر حسین وغیرہ کو بری کرتے وقت اس
کالے قانون میں نظر ثانی کی تو فیق ہوتی ۔لیکن اﷲ پاک نے انکو تو فیق نہیں
بخشی ۔کیونکہ اُڑتے ہوئے پرندوں کے اور انسانیت کا درس لکھنے والے کے پر
کاٹ ڈالتے ہیں یہ لوگ ۔ ریاست اپنے ملک کے باسیوں کی زندگی کی محافظ ہے ۔
اس کو چاہیے کہ وہ ان باسیوں کو سہولیات فراہم کریں ۔دیکھنا کیسے کیسے
انمول ہیرے چھپے بیٹھے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ بادشاہ کودو باز تحفے میں ملے ۔ اس نے اتنے خوبصورت پرندے کبھی
نہیں دیکھتے تھے ۔ بادشاہ نے دونوں پرندے اپنے ملازم کو دئیے کہ وہ انکی
تربیت کرے ۔ ایک دن ملازم نے بادشاہ کو بتایا کہ ایک پرندہ اونچی اڑان اُڑ
رہا ہے اور دوسرا جس دن سے آیا ہے اپنی شاخ سے نہیں اُڑ پا رہا ۔بادشاہ نے
مملکت کے تمام معالجوں اور جادو گروں کو طلب کر لیا ۔لیکن کو ئی بھی اس باز
کو نہ اُڑا سکا بادشاہ نے اپنے وزیروں کے سامنے یہ مسئلہ رکھا ۔ گھنٹے ، دن
اور دن مہینوں میں ڈھل گئے ۔ لیکن باز نہ اُڑ سکا ۔ بادشاہ نے کسی ایسے شخص
کو بھلانے کا حکم دیا کہ کسی ایسے شخص کو ڈھونڈ کر لاؤ ۔ جو بر سوں جنگلات
میں گزار چکا ہو ۔ اگلے ہی دن بادشاہ باز کو محل کے باغوں میں اُڑتے ہوئے
دیکھ کر حیران رہ گیا ۔ بادشاہ نے اس شخص کو طلب کیا جس نے باز کو اُڑایا
تھا ۔ اس شخص کو بادشاہ کے سامنے پیس کیا گیا ۔ بادشاہ نے پوچھا کہ تم نے
باز کو کیسے اُڑایا ؟ وہ شخص مسکرا کر بولا میں نے وہ شاخ کاٹ دی ہے ۔ جس
پر یہ باز بیٹھا تھا ۔آگے بڑھنے کے مواقع بہت ہیں لیکن ہم آگے بڑھنے کی
کوشش نہیں کرتے ہم لوگ اپنی آسائشوں سے قدم باہر ہی نہیں نکالتے ۔ ہم کام
کرنے کی کوشش تر کریں ۔ قانون بنانے کی ہمت تو کریں ۔ پھر دیکھنا اﷲ پاک
ہمارے لیے کیسے کیسے آسانیاں پیدا کرتا ہے ۔
|