' پی ڈی ایم ' کا بیانیہ اور حاکمیت ' انجوائے 'کرنے والے عہدیدار
(Athar Masood Wani, Rawalpindi)
اطہر مسعود وانی
لانگ مارچ سے پہلے ہی سینٹ الیکشن کے دوران ' پی ڈی ایم ' کے درمیان اختلاف کی صورتحال موضوع بنی اور پیپلز پارٹی کے بعد ' اے این پی' نے بھی ' پی ڈی ایم' کی پالیسیوں سے بیزاری کا اظہار کر دیا۔ کہا جا رہا ہے کہ اختلافات کی یہ صورتحال گزشتہ چند ماہ کے دوران سربراہی اجلاسوں میں سامنے آنے لگی تھی اور یہ واضح ہوا تھا کہ ' پی ڈی ایم' کے معاملات میں پیپلز پارٹی اور' اے این پی' ایک طرف جبکہ باقی آٹھ جماعتیں دوسری طرف نظر آئیں۔یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے ' پی ڈی ایم' سے ہٹ کر موقف اپنانے کے پس پردہ اسٹیبلشمنٹ کا بھی کردار ہے۔
پیپلز پارٹی ' پی ڈی ایم ' کی وہ واحد پارٹی ہے جس کی ایک صوبے میں حکومت بھی قائم ہے۔اسٹیبلشمنٹ سے بہتر تعلقات سے پیپلز پارٹی کو کراچی، حیدر آباد سے مزید اسمبلی نشستیں مل سکتی ہیں کہ جہاں سابقہ ' ایم کیو ایم' میں شامل دھڑے اب اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے رحم و کرم پہ ہیں۔بعض مبصرین کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی جماعت اسلامی، اے این پی کے علاوہ مسلم لیگ(ن) کے رہنمائوں شہباز شریف اور حمزہ شہباز سے بھی رابطے میں ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کی اگر مرضی ہوئی تو پنجاب حکومت میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
اس کے برعکس رائے رکھنے والوں کا خیال ہے کہ پنجاب میں حکومت تبدیل کر کے شہباز شریف گروپ اور پیپلز پارٹی کی مدد سے نئی حکومت کا مطلب اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد ہو گا اور اس سے عمران خان حکومت کمزور ہو گی ۔ عمران خان حکومت کو کمزور کرنا اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی حکمت عملی معلوم نہیں ہوتی کیونکہ اب اسٹیبلشمنٹ '' جائز و ناجائز'' طریقوں سے ملکی سیاست و حکومت پہ اپنا کنٹرول مضبوط کر تے نظر آ رہی ہے اور عالمی سیاست میں بھی پاکستان کے علاقائی کردار کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کو ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔اس صورتحال میں اسٹیبلشمنٹ یہ نہیں چاہے گی کہ ملکی سیاست میں تبدیلی کے خطرات مول لئے جائیں۔یوں پیپلز پارٹی،شہباز شریف گروپ کو فی الحال اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے یہی سہولت مل سکتی ہے کہ ان کے خلاف زیر سماعت مقدمات میںسختی نہ کی جائے اور ان سے آئندہ الیکشن اور حکومت کے وعدے کئے جائیں۔
' پی ڈی ایم' کی موجودہ صورتحال سے اس حقیقت کا اعادہ ہوا ہے کہ ملک کو ہر شعبے میں کمزور رکھنے کا نظام بہت مضبوط ہے اور اپنی طاقت سے عوامی حلقوں میں تقسیم کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔' پی ڈی ایم' کے ملک گیر جلسوں سے عوام کی واضح اکثریت میں یہ امید پیدا ہوئی کہ ملکی حاکمیت کا قبلہ درست کیا جا سکتا ہے۔اس حوالے سے نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان کا بیانیہ مقبول عام ہوا ۔نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان کا اقتدار کی حاکمیت کے حوالے سے حکومت کے خلاف بیانیہ اتنی طاقت رکھتا ہے کہ پیپلز پارٹی، اے این پی کے اشتراک کے بغیر بھی عوام کو مزاحمتی ذرائع اپنانے کے مواقع فراہم کر سکتا ہے۔اگر ' پی ڈی ایم' کو مجبور اور پابندرکھا گیا تو سول سوسائٹی کی آواز ہی مزاحمت کے طور پہ رہ جائے گی۔تاہم آئندہ کے اقدامات سے متعلق نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان کی خاموشی کے باوجود اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ لانگ مارچ اور دھرنے کی طرح کے سخت اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔جب سیاست پابند،مجبور کر دی جائے تو اس کا خلاء دیگر شعبوں میں آندھی لے آتا ہے۔
پاکستان میں جبر،زیادتی کا موجودہ ماحول عارضی ہے۔ موجودہ فوجی قیادت کی ریٹائرمنٹ اور نئے الیکشن میں دو سال سے زائد عرصہ باقی ہے۔تبدیلی آئے گی اور ضرور آئے گی ۔ تاہم یہ تبدیلی طاقت کے سرچشمہ حاکمیت کے عہدیداروں کی ہو گی، نظام کی نہیں۔ ملک کی حاکمیت ''انجوائے' 'کرنے والے عہدیدار اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اگر عالمی سطح کی ذمہ داری میں ایڈجسٹ نہ کئے جا سکیں تو ملک سے باہر جا کر کہیں رشک انگیز زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ نئے متعین کردہ اعلی عہدیدار اپنے معاملات دیکھتے ہوئے اپنی مرضی سے ملکی سیاست کی بساط سجائیں گے۔فی الحال ملک میں آئین و عدلیہ کی بے بسی اور پارلیمنٹ کی بے چارگی کے نظام کے سامنے عوام مجبور،بے بس ہیں۔ ملک میں معاشی تفریق و تقسیم کے پیمانے دھماکہ خیز صورتحال کی طرف تیزی سے بڑہتے جا رہے ہیں۔
|